18
1 ایلہ کے بیٹے اسرائیل کا بادشاہ ہوسیعاہ کی بادشاہت کے تیسرے سال میں آخز کا بیٹا حزقیاہ یہوداہ کا بادشاہ بنا۔
2 حزقیاہ نے جب حکو مت شروع کی تو اسکی عمر پچیس سال تھی۔ حزقیاہ نے یروشلم میں انتیس سال حکو مت کی۔ اس کی ماں کا نام ابی تھا جو زکریاہ کی بیٹی تھی۔
3 حزقیاہ نے بالکل اپنے آباؤ اجداد داؤد کی طرح وہ کام کیا جسے خدا وند نے اچھا کہا تھا۔
4 حزقیاہ نے اعلیٰ جگہوں کو تباہ کیا۔ اس نے یادگار پتھروں کو توڑا اور آشیرہ کے ستون کو کاٹ ڈالا۔ اس وقت بنی اسرائیل موسیٰ کے بنائے ہوئے کانسے کے سانپ کے لئے بخور جلاتے تھے۔ یہ کانسے کا سانپ “ نحشتان 18:4 نحشتان اس ” کہلاتا۔ حزقیاہ نے اس کانسے کے سانپ کوتوڑ کر ٹکڑ ے ٹکڑے کردیا۔ کیوں کہ لوگ اس کی پرستش کرنی شروع کرچکے تھے۔
5 حزقیاہ نے خدا وند اسرائیل کے خدا پر بھروسہ کیا۔ یہوداہ کے بادشاہوں میں حزقیاہ جیسا کوئی آدمی نہیں تھا نہ اس سے پہلے نہ اس کے بعد۔
6 حزقیاہ خدا وند کا وفادار تھا۔ اس نے خدا وند کی اطاعت کرنا نہیں چھو ڑا۔ اس نے ان احکامات کی اطاعت کی جو خدا وند نے موسیٰ کو دیئے تھے۔
7 خدا وند حزقیاہ کے ساتھ تھا۔ حزقیاہ نے ہر وہ چیز جسے کیا اس میں کامیاب رہا۔
حزقیاہ نے اسور کے بادشاہ سے اپنے کو آزاد کرلیا۔ حزقیاہ نے اسور کے بادشاہ کی خدمت کرنی بند کردی۔
8 حزقیاہ نے غزّہ اور اسکے چاروں طرف کے علاقہ کو پانے تک فلسطینیوں کو مسلسل شکست دی۔ اس کے علاوہ اس نے تمام فلسطینی شہروں کو شکست دی۔ چھو ٹے شہر سے لیکر بڑے سے بڑے شہر تک۔
9 اسور کا بادشاہ شلمنسر سامریہ کے خلاف لڑنے گیا۔ اس کی فوج نے شہر کو گھیر لیا۔ یہ واقعہ حزقیاہ کی یہوداہ پر بادشاہت کے چوتھے سال کے دوران کا ہے۔ ( یہ ایلہ کے بیٹے ہوسیعاہ کی بادشاہت کا ساتواں سال بھی تھا۔)
10 تیسرے سال کے خاتمہ پر شلمنسر سامریہ پر قبضہ کر لیا۔ اس نے سامریہ پر حزقیاہ کی یہوداہ پر بادشاہت کے چھٹے سال کے دوران قبضہ کیا۔ ( ہوسیعاہ کی اسرائیل پر بادشاہت کا یہ نواں سال بھی تھا )
11 اسُور کے بادشاہ نے اسرائیلیوں کو قیدیوں کی طرح اسور لے گیا اس نے انہیں حلح اور خابور ( دریائے جو زان ) اور مادیس کے شہروں میں رکھا۔
12 یہ ہوا اس لئے کہ اسرائیلیوں نے خدا وند اپنے خدا کی اطاعت نہیں کی تھی۔ انہوں نے خدا وند کے معاہدہ کو توڑا۔ انہوں نے ان تمام چیزوں کی اطاعت نہیں کی جس کا حکم خدا وند کے خادم موسیٰ نے دیئے تھے بنی اسرائیلیوں نے خدا وند کے معاہدہ کو نہیں مانا یا جو چیزیں کر نے کو سکھا یا تھا وہ نہیں کئے۔
13 حزقیاہ کی بادشاہت کے چودھویں سال کے دوران ، سنحیریب جو اسُور کا بادشاہ تھا وہ تمام قلعہ دار شہروں کے خلاف جنگ لڑ نے گیا۔ سنحیریب نے ان تمام شہروں کو شکست دی۔
14 تب یہوداہ کا بادشاہ حزقیاہ نے اسیریاہ کے بادشاہ کو لکیس کے مقام پر ایک پیغام بھیجا۔ حزقیاہ نے کہا ، “میں نے برائی کی میرے ملک پر اپنے حملے کو روکو تب تم جو محصول مانگو گے میں ادا کروں گا۔”
تب اسُور کے بادشاہ نے یہوداہ کے بادشاہ حزقیاہ کو ۱۱ٹن چاندی اور ایک ٹن سے زیادہ سونا ادا کرنے کو کہا۔
15 حزقیاہ نے تمام چاندی جو خدا وند کی ہیکل میں تھی اور بادشاہ کے خزانہ میں تھی دے دی۔
16 اس وقت حزقیاہ نے ان سونے کو کاٹ کر نکالا جو خدا وند کی ہیکل میں دروازوں اور چوکھٹوں پر مڑھا گیا تھا۔ بادشاہ حزقیاہ نے ان دروازوں اور چوکھٹوں پر سونا مڑھوایا تھا ، حزقیاہ نے یہ سونا اسور کے بادشاہ کو دیا۔
17 اسُور کے بادشاہ نے اپنے تین سب سے اہم سپہ سالاروں کو ایک بڑی فوج کے ساتھ بادشاہ حزقیاہ کے پاس یروشلم بھیجا۔ وہ لوگ لکیس سے نکل کر یروشلم گئے۔وہ اوپر کے تالاب کے نالے کے پاس کھڑے ہوئے ( اوپری تالاب سڑک پر دھوبیوں کے میدان کے راستے پر ہے۔)
18 ان آدمیوں کو بادشاہ کے لئے بلایا گیا۔ خلقیاہ کا بیٹا الیا قیم ( الیاقیم شاہی محل کا نگراں کار تھا ) شبناہ( معتمد ) آسف کا بیٹا یوآخ ( محافظ دفتر) ان لوگوں سے ملنے باہر آئے۔
19 ان میں سے ایک سپہ سالار نے ان کو کہا ، “حزقیاہ سے کہو اسُور کا عظیم بادشاہ جو کہتا ہے وہ یہ ہے :
تم اتنے بھروسے مند کیوں ہو ؟
20 کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ جنگ لڑنے میں مدد کے لئے حوصلہ مند نصیحت اور قوت کے لئے صرف تمہارا الفاظ ہی کافی ہے ؟ لیکن تم پر کون بھروسہ کرتا ہے کیوں کہ تم نے میری حکو مت کے خلاف بغاوت کی۔
21 تم ٹو ٹی ہوئی بید کی چھڑی کا سہارا لے رہے ہو۔ یہ چھڑی مصر ہے۔ اگر کوئی آدمی اس چھڑی کا سہارا لے گا تو یہ ٹو ٹے گی۔ اور اس کے ہاتھ کو زخمی کردے گی۔ مصر کا بادشاہ بھی اسی طرح سب لوگوں کے لئے ہے جو اس پر بھروسہ کرتے ہیں۔
22 ہو سکتا ہے تم کہو گے ، “ہم خدا وند اپنے خدا پر بھروسہ کرتے ہیں۔” لیکن میں جانتا ہوں کہ حزقیاہ نے تمام اعلیٰ جگہیں اور قربان گاہیں لے لی ہیں جہاں لوگ عبادت کرتے تھے۔ اور حزقیاہ نے یہوداہ اور یروشلم کے لوگوں سے کہا ، “تم کو صرف اس قربان گاہ کے سامنے یروشلم میں عبادت کرنی چاہئے۔”
23 اب یہ معاہدہ میرے آقا کے ساتھ کرو جو اسُور کا بادشاہ ہے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ ۲۰۰۰ گھو ڑے دونگا اگر تم ان پر سواری کرنے کے لئے آدمیوں کو پا سکو۔
24 تم میرے آقا کے افسروں میں سے ایک چھو ٹے درجہ کے افسر کو بھی شکست نہیں دے سکتے۔ تم مصر پر تکیہ اس لئے کئے ہو کہ تمہیں گھوڑ سوار سپا ہی اور رتھ ملے۔
25 میں خدا وند کے بغیر یروشلم کو تباہ کرنے نہیں آیا ہوں۔ خدا وند نے خود مجھ سے کہا ، “اس ملک پر حملہ کرو اور اس کو تباہ کرو۔”
26 تب خلقیاہ کا بیٹا الیاقیم ، شبناہ اور یوآخ نے سپہ سالار سے کہا ، “براہ کرم ہم سے ارامی میں بات کیجئے ہم وہ زبان سمجھ سکتے ہیں۔ ہم سے یہوداہ کی زبان میں بات مت کیجئے کیوں کہ دیوار پر کے لوگ ہم لوگو ں کی باتیں سن سکتے ہیں۔”
27 لیکن ربشاقی نے ان سے کہا ، “وہ میرے آقا نے مجھے صرف تم سے اور تمہارے بادشاہ سے باتیں کر نے کے لئے نہیں بھیجا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ان لوگوں کو بھی معلوم ہو جو دیوار پر بیٹھے ہیں۔ وہ اپنا فضلہ اور پیشاب تمہارے ساتھ کھا ئیں اور پئیں گے۔”
28 تب سپہ سالار نے عبرانی زبان میں زور سے پکارا ، “ عظیم بادشاہ ، اسُور کے بادشاہ کے پیغام کو سنو۔
29 بادشاہ کہتا ہے ، ’حزقیاہ کو موقع نہ دو کہ وہ تمہیں فریب دے۔ وہ تمہیں میری طا قت سے نہیں بچا سکتا۔‘
30 حزقیاہ کو موقع نہ دو کہ تم اس کی وجہ سے خدا وند پر بھروسہ کرو۔ حزقیاہ کہتا ہے ، “خدا وند ہمیں بچائے گا۔ اسُور کا بادشاہ اس شہر کو شکست نہیں دیگا۔”
31 لیکن حزقیاہ کی بات نہ سنو۔ اسور کا بادشاہ یہ کہتا ہے :
’میرے ساتھ امن بنائے رکھو۔ اور مجھ سے ملو تب تم میں ہر ایک اپنا خود کا انگور اپنا خود کا انجیر کھا سکتا ہے۔ اور اپنے کنویں سے پانی پی سکتا ہے۔
32 یہ تم کرسکتے ہو جب تک میں آؤں اور تم ایسی زمین (ملک ) میں نہ لے جاؤں جو تمہاری اپنی زمین کی طرح ہے۔ یہ اناج اور نئی مئے کی زمین ، روٹی اور انگور کے کھیتو ں کی زمین، زیتون اور شہد کی زمین ہے۔ تم وہاں رہ سکتے ہو اور تم نہیں مروگے۔ لیکن حزقیاہ کی بات نہ سنو کیونکہ وہ تمہا رے ذہن کو بدلنے کی کوشش کر رہا ہے- وہ کہہ رہا ہے،”‘ خداوند ہمیں بچا ئے گا۔‘
33 کیا کسی دوسری قوموں کے خدا ؤں نے ا س کی زمین کو اسُور کے بادشاہ سے بچا یا ہے ؟” نہیں !
34 حمات اور ارفاد کے خداوند کہاں ہیں ؟ “کہاں ہیں سفر وائم اور بینع اور عِواہ کے خداوند؟” کیا انہوں نے سامریہ کو مجھ سے بچا یا ؟” نہیں۔
35 کیا کسی خداوند نے دوسرے ملکوں میں ان کی زمین کو مجھ سے بچا یا ؟” نہیں ! کیا خداوند یروشلم کو مجھ سے بچا سکتا ہے ؟نہیں !”
36 لیکن لوگ خاموش تھے۔انہوں نے ایک لفظ سپہ سالار سے نہیں کہا کیو ں کہ بادشاہ حزقیاہ نے انہیں ایک حکم دیا تھا۔ ا س نے کہا ، “اس کو کچھ نہ کہو۔”
37 الیا قیم خلقیاہ کا بیٹا ( الیاقیم بادشاہ کے محل کا نگراں کار تھا) شبناہ ( معتمد) اور آسف کا بیٹا یو آخ ( محافظ دفتر ) حزقیاہ کے پاس آئے ان کے کپڑے پھٹے ہو ئے تھے یہ دکھانے کیلئے کہ وہ پریشان تھے۔ انہوں نےحزقیاہ کو وہ باتیں کہیں جو اُسور کے سپہ سالار نے کہا تھا۔