6
(متّی۱۳:۳۵۔۵۸ ؛لوقا۴:۱۶۔۳۰)
1 یسوع وہاں سے نکل کر اپنے شاگردوں کے ساتھ اپنے وطن کو واپس ہوئے۔
2 سبت کے دن یسوع نےیہودی عبادت خانہ میں تعلیم دی انکا بیان سن کر کئی لوگوں نے تعجب کیا اور کہا، “اس علم و معرفت کو اُس نے کہاں سے سیکھا ہے ؟ اس کو کس نے دیا ؟ اور اس کو یہ معجزے کی طاقت کہاں سے آئی؟
3 یہ توصرف بڑھئی ہے۔اس کی ماں مریم ہے یہ یعقوب ،یوسیس ، یہوداہ اور شمعون کا بھائی ہے اس کی بہنیں یہاں ہمارے ساتھ ہیں۔” ان لوگوں نے یسوع کو قبول نہیں کیا۔
4 یسوع نے لوگوں سے کہا ، “دُوسرے لوگ تو نبی کی تعظیم کرتے ہیں۔لیکن نبی کو اپنے وطن میں اور اپنے خاص لوگوں میں اور اپنے ہی گھر میں عزت نہیں ملتی۔”
5 یسوع اس گاؤں میں زیادہ معجزے نہ دکھا سکے۔اُس نے اپنے ہاتھوں کو چند بیماروں کے اوپر رکھ کر انکو تندرست کیا۔اس کے علاوہ اس نے کوئی معجزہ نہیں دکھا یا۔
6 ان لوگوں میں عقیدہ کی پختگی نہ پاکر یسوع کو حیرت ہوئی۔تب یسوع نے ان علاقوں کے مختلف گاؤں میں جاکر لوگوں کو تعلیم دی۔
(متّی۱:۱۰،۵۔۱۵؛ لوقا۹:۱۔۶)
7 یسوع بارہ حواریوں کو ایک ساتھ بلا کر ان کی دو دو کی جوڑی بنا کر باہر بھیج دیا یسوع بد رُوحوں کو قبضہ میں رکھنے کا اختیار ان کو دے دیا۔
8 یسوع نے ان سے کہا ، “تم سفر پر جا تے وقت اپنے ساتھ لاٹھی کے سوا اور کوئی چیزنہ لینا۔ نہ توشہ اور نہ کوئی تھیلی اور نہ تمہاری جیبوں میں کوئی پیسے رہیں۔
9 جوتیاں پہنو اور تم جس لباس کو پہنے ہو بس وہی کافی ہے۔
10 جب تم کسی گھر میں داخل ہو تو اس گاؤں کو چھوڑنے تک تم اس گھر میں رہو۔
11 جس گاؤں میں تم کو قبول نہ کریں اور تمہاری تعلیمات کاا نکا ر کریں وہاں اپنے پیروں کی دھول اور گرد کو جھاڑ دو اور اس گاؤں کو چھوڑ دو۔یہ بات ان کے لئے انتباہ کی ہوگی۔”
12 شاگرد وہاں سے نکل کر دیگر مقاموں کو گئے اور لوگوں میں تبلیغ کی اور کہا کہ اپنے گنا ہوں سے تو بہ کرو۔
13 بد رُوحوں سے متاثر بے شمار لوگوں کو شاگر دوں نے صحت بخشی اور کئی بیماروں کو تیل مَل کر صحتیاب کئے۔
(متّی۱۴:۱۔۱۲ ؛ لوقا۹:۷۔۹ )
14 یسوع اب مشہور ہو چکے تھے ہیرو دیس باد شاہ کو اس کے متعلق معلوم ہوا چند لو گوں نے کہا، “وہ یو حنّا بپتسمہ دینے والا ، یہ پھر دو بارہ جی اٹھا ہے۔ اسی وجہ سے وہ معجز ے بتا نے کے لا ئق ہے۔”
15 پھر چند لوگوں نے کہا، “یہ ایلیاہ ہے” اور دوسرے لوگوں نے کہا ، “یسوع نبیوں کی طرح جو پہلے گزر چکے ہیں ، ایک نبی ہے۔”
16 ہیرو دیس بادشاہ نے یسوع کے بارے میں لوگوں سے کہی جا نے والی ان تمام باتوں کو سنا اور کہا ،“یوحنّا جس کا سر میں نے کٹوایا ہے کیا وہ اب پھر زندہ ہوکر آیا ہے؟”
17 خود ہیرو دیس باد شاہ نے یوحنّا کو قید کر نے کیلئے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا تھا اس لئے وہ یو حنّا کو قید میں ڈال دیا۔ ہیرودیس نے اپنی بیوی ہیرودیاس کو خوش کر نے کے لئے ایسا کیا۔ہیرودیاس ہیرودیس کے بھا ئی فلپس کی بیوی تھی۔ لیکن بعد میں ہیرو دیس نے ہیرودیاس سے شادی کرلی۔
18 یوحنا ّنے جو ہیرودیس سے کہا تھا ، “یہ تیرے لئے صحیح نہیں ہے کہ تو اپنے بھائی کی بیوی سے شادی کرے۔”
19 اسی وجہ سے ہیرودیاس یوحنّا سے نفرت کرنے لگی۔اور اس کو قتل کروانا چاہا۔
20 لیکن وہ ایسا نہ کر سکی۔ ہیرودیس یوحنّا کو قتل کرانے کے لئے خوفزدہ ہوا لوگوں نے یوحنا کو مقدس آدمی ،نیک اور شریف آدمی سمجھتے تھے یہ بات ہیرو دیس کو معلوم تھی۔ اسی وجہ سے ہیرودیس نے یوحنا کی حفاظت کی۔ہیرودیس جب یوحنا کی تبلیغ سنتا تھا تو بے چین ہو جا تا تھا۔ اس کے با وجود اس کی تعلیمات کو وہ پو رے اطمینان اور خوشی سے سنتا تھا۔
21 ایک مرتبہ یو حنا کو مار ڈالنے کا سنہرا مو قع ہیرودیاس کو ملا۔ اس دن ہیرو دیس کی سا لگرہ کا دن تھا۔ ہیرودیس نے حکومت کے اہم عہدیداروں کو اور فوج کے سپہ سالا رکو اور گلیل کے قائدین کو کھا نے کی دعوت پر مدعو کیا تھا۔
22 ہیرودیاس کی بیٹی اس کھا نے کی دعوت میں آکر رقص کر نے لگی۔ ہیرو دیس اور اس کے ساتھ کھا نا کھانے والو ں کو بہت خوشی ہوئی۔ اس وقت بادشاہ ہیرودیس نے اس لڑکی سے وعدہ کیا اور کہا ، “تجھے جو مانگنا ہے وہ مانگ لے میں تجھے عطا کرونگا۔”
23 پھر اس نے وعدہ لے کر کہا: “اگر میری سلطنت سے آدھی سلطنت کا مطالبہ بھی کرے تو میں تجھے دونگا۔”
24 لڑکی نے اپنی ماں کے پاس جاکر پوچھا ، “میں کیا مانگوں؟” اس کی ماں نے کہا بپتسمہ دینے والے یوحنا کا سر مانگ۔”
25 وہ لڑکی تیزی سے بادشاہ کے پاس گئی اور کہا ، “بپتسمہ دینے والے یو حنا کا سر ایک طبق میں اسی وقت دے۔”
26 ہیرودیس بہت رنجیدہ ہوا لیکن اس نے لڑکی سے وعدہ کیا تھا کہ وہ جو بھی مانگے گی اس کو دیا جائیگا سب لوگ جو ہیرو دیس کے ساتھ کھا نا کھا رہے تھے انہوں نے بھی سنا۔ اس لئے اس نے انکا ر کرنا مناسب نہ سمجھا۔
27 بادشاہ ہیرودیس یوحنا کا سر کاٹ کر لا نے کے لئے ایک سپا ہی کو روا نہ کیا اور اس نے قید خا نہ میں یو حنا کا سر کا ٹ کر۔
28 طبق میں رکھ کر لا یا اور اس لڑکی کو دیا۔ اس نے اس سر کو اپنی ماں کو دیا۔
29 اس واقعہ کو یوحنا کے شاگردوں نے جان لیا وہ لوگ آکر یو حنا کا جسم لے گئے اور اس کو ایک قبر میں رکھ دیا۔
(۱۴ :۱۳۔۲۱ ؛ لو قا ۹ : ۱۰۔۱۷ ؛ یوحنا۶:۱۔۱۴)
30 یسوع نے جن رسو لوں کو تبلیغ کر نے کے لئے بھیجا تھا وہ واپس آ ئے اور جو کچھ انہوں نے کہا ان واقعات کو سنا یا۔
31 یسوع اور ان کے شاگرد ایک ایسی جگہ پر تھے۔ جہاں بے حساب لوگ آ تے جاتے تھے۔اور ان کے شاگردوں کو کھا نے تک کے لئے وقت نہ رہتا تھا۔یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا، “میرے ساتھ چلو ہم پرُ سکون جگہ پر جا کر تھوڑا آرام کریں گے۔”
32 پس یسوع اور اس کے شاگرد کشتی پر سوار ہو ئے اور ایسی جگہ گئے جہاں لوگ نہیں تھے۔
33 ان کو جا تے ہو ئے کئی لو گوں نے دیکھا انہیں معلوم تھا کہ وہ یسوع ہی تھے۔اس وجہ سے لوگ تمام قر یوں سے اس جگہ آکر اس کے وہاں آنے سے پہلے ہی مو جود تھے۔
34 یسوع جب وہاں آیا تو دیکھا کہ بہت سے لوگ ان کے انتظارمیں ہیں۔چرواہے بغیربکریوں کی طرح رہنے والوں کودیکھ کردکھی ہوئے اور ان کو کئی باتوں کی تعلیم دی۔
35 پہلے ہی دیر ہو چکی تھی۔یسوع کے شاگرداس کے قریب آ ئے او ر ان سے کہا، “کو ئی بھی شخص اس جگہ بسر نہیں کر تا۔ اور بہت دیر ہو چکی ہے۔
36 اسلئے لو گوں کو بھیج دیں تا کہ وہ اطراف واکناف کے باغات اور شہروں سے کھا نے کے لئے کچھ خریدیں”۔
37 لیکن یسوع نے کہا ، “تم انہیں تھو ڑا سا کھا نا دے دو” شاگر دوں نے یسوع سے کہا، “ان لوگوں کے لئے ہم حسب ضرو رت رو ٹی کہاں سے لا ئیں۔ ہمیں اس کے لئے کم از کم دو سو دینار 6:37 دوسودینار دوسو چاہئے جس سے انہیں مطلوب غذا پہنچیے۔”
38 یسوع نے شاگردوں سے کہا، “تمہا رے پاس کتنی روٹیاں ہیں؟ جاؤ اور دیکھو” شاگردوں نے جا کر گنا اور وا پس آئے اور کہا، “ہما رے پاس پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں ہیں۔”
39 تب یسوع نے شاگردوں سے کہا، “ہری گھاس پر لو گوں سے کہو کہ قطار باندھ کر بیٹھ جائیں۔”
40 لوگ قطاریں بنا کر گروہ کی شکل میں بیٹھ گئے ہر ایک قطار میں پچا س سے سو تک لوگ تھے۔
41 یسوع نے پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں نکال کر آسمان کی طرف دیکھا روٹی کے لئے خدا کا شکر ادا کیا اس کے بعد روٹیوں کو توڑ کر شاگردوں کو دیں اور ہدایت کی کہ اس کو لو گوں میں بانٹ دیں۔اسی طرح دو نوں مچھلیوں کو ٹکڑے کرکے لوگوں میں تقسیم کر نے کے لئے اپنے شاگر دوں کو دیا۔
42 تمام لوگ شکم سیر ہو کر کھا ئے۔
43 اس کے بعد لوگ جو پوری روٹیاں کھا نہ سکے بچی ہوئی روٹیاں اور مچھلیوں کو شاگر دوں نے جب ایک جگہ جمع کیا تو ان سے بارہ ٹو کریاں بھر گئیں۔
44 وہاں تقریباً پانچ ہزار لوگوں نے کھا نا کھایا۔
( متّی ۱۴ :۲۲۔۳۳ ؛ یوحنا ۶ :۱۵۔۲۱ )
45 تب یسوع نے اپنے شاگر دوں کو کشتی میں سوار ہو نے کے لئے کہا۔ یسوع نے ہدا یت کی کہ وہ جھیل کے اس پار بیت صیدا جائیں اور کہا کہ تھوڑی دیر بعد وہ آئیگا۔ یسوع وہاں رک گئے تا کہ لو گوں کو گھر جا نے کے لئے سمجھایا جائے۔
46 یسوع لو گوں کو رخصت کر نے کے بعد پہاڑ پر گئے تا کہ عبادت کی جا ئے۔
47 اس رات کشتی جھیل کے بیچ میں تھی یسوع اکیلے ہی زمین پر تھے۔
48 یسوع نے کشتی کو دیکھا جو جھیل میں بہت دور تھی اور وہ شاگرد ان کو کنا رے پر پہونچا نے کے لئے سخت جد و جہد کر رہے تھے۔ ہوا انکے مخا لف سمت میں چل رہی تھی صبح کے تین سے چھ بجے کے درمیا ن یسوع نے پا نی پر چلتے ہوئے کشتی کے قریب آکر ان سے آگے نکل جا نا چا ہا۔
49 لیکن پا نی پر چلتے ہوئے جب ان کے شا گر دوں نے اسے دیکھا تو اسے بھوت سمجھا اورخوف کے مارے چلّا نے لگے۔
50 تمام شاگردوں نے جب یسوع کو دیکھا تو بہت گھبرائے۔ لیکن یسوع نے ان سے باتیں کیں اور کہا ، “فکر مت کرو! یہ میں ہی ہوں! گھبراؤ مت۔”
51 پھر یسوع اس کشتی میں ان کے ساتھ سوار ہوئے تب ہوا رک گئی شاگر دوں کو حیرت ہوئی۔
52 پانچ روٹیوں سے پانچ ہزار لوگوں کے کھا نے کا واقعہ کو دیکھ چکے تھے لیکن اب تک اس کے معنی سمجھ نہ سکے۔ ان کے ذہن بند ہو گئے تھے۔
(متّی ۱۴ :۳۴۔۳۶ )
53 یسوع کے شاگر د جھیل پار کر کے گنیّسرت گاؤں کو آئے اور کشتی جھیل کے کنا رے باندھ دی۔
54 وہ جب کشتی سے باہر آئے تو لوگوں نے یسوع کو پہچان لیا۔
55 یسوع کی آمد کی اطلاع دی۔ اس علاقے میں رہنے والے سبھی لوگ دوڑنے لگے جہاں بھی لوگوں نے سنا کہ یسوع آئے تو لوگ بیماروں کو بستروں سمیت لا رہے تھے۔
56 یسوع اس علا قے کے شہر وں گاؤں اور باغات کو گئے وہ جس طرف جا تے تھے لوگ بازاروں میں بیماروں کو بلا لا تے تھے اور وہ یسوع سے گزارش کرتے تھے کہ ان کو اپنے چغہ کے دا من کو چھو نے کا موقع دے۔ وہ تمام لوگ جنہوں نے اس کے چغے کو چھوا تھا وہ تندرست ہو گئے۔