8
(متّی۱۵:۳۲۔۳۹)
1 ایک اور موقع پر یسوع کے ساتھ کئی لوگ تھے ان کے پاس کھا نے کو کچھ نہ تھا یسوع نے اپنے شاگردوں کو بلا یا اور کہا۔
2 “میں ان لوگوں پر بہت ترس کھا تا ہوں یہ تین دنوں سے میرے ساتھ ہیں ان کے پاس کھا نے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔
3 اور کہا کہ یہ کچھ کھا ئے بغیر گھر کے لئے سفر شروع کریں تو را ستے میں نڈھال ہو جا ئینگے۔ ان لوگوں میں بعض وہ ہیں جو بہت دور سے آ ئے ہیں۔”
4 شا گر دوں نے جواب دیا، “یہاں سے قریب کو ئی گاؤں نہیں ہے۔ ان لوگوں کے لئے ہم اتنی رو ٹیاں کہاں سے فرا ہم کریں کہ جو سب کے لئے کا فی ہوں۔”
5 یسوع نے ان سے پو چھا، “تمہارے پاس کتنی روٹیاں ہیں ؟” شاگردوں نے جواب دیا ، “ہمارے پاس سات روٹیاں ہیں۔”
6 یسوع نے ان لوگوں کو زمین پر بیٹھنے کے لئے کہا۔ اس کے بعد ان سات روٹیوں کو لیکر اور خدا کا شکر ادا کر کے ان کوتوڑ کر اپنے شاگر دوں کو دیا تا کہ ان لوگوں میں تقسیم کردے۔ شاگردوں نے ایسا ہی کیا۔
7 شاگر دوں کے پاس چند چھوٹی مچھلیاں تھیں۔ یسوع نے ان مچھلیوں کے لئے خدا کا شکر ادا کر کے ان لوگوں میں بانٹ دینے کے لئے شا گردوں کو ہدا یت دی۔
8 تمام لوگ کھا نا کھا کر سیر ہو گئے۔ اس کے بعد پھر جب شاگردوں نے کھا نے کے بعد بچے ہوئے تمام ٹکڑوں کو جمع کیا تو اس سے سات ٹوکریاں بھر گئیں
9 وہاں کھا نا کھا نے والوں میں کو ئی چار ہزار مرد آدمی تھے جب وہ کھا نے سے فارغ ہوئے تو یسوع نے ان کو بھیج دیا۔
10 پھر اس نے اپنے شاگردوں کے ساتھ کشتی میں سوار ہو کر دلمنو تہ کے علا قے میں گئے۔
(متیّ ۱۶: ۱۔ ۴)
11 فریسی یسوع کے نز دیک آکر اس کو آز ما نے کے لئے اس سے مختلف سوالات کر نے لگے۔انہوں نے یسوع سے پو چھا ، “اگر تو خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہے تو کو ئی آ سما نی نشا نی بتا یا معجزہ دکھا؟
12 تب یسوع نے گہری سانس لے کر ان سے کہا، “تم لوگ معجزہ کو کیوں پوچھتے ہو ؟ میں تم سے سچ کہتا ہوں تمہیں کوئی آسمانی نشانی دکھا ئی نہیں جائیگی۔”
13 ادھر یسوع فریسیوں کے پاس سے نکل کر کشتی کے ذریعہ جھیل کے اس پار دو بارہ چلے گئے۔
( متّی ۱۶: ۵۔۱۲ )
14 شاگردوں کے پاس کشتی میں صرف ایک ہی روٹی تھی وہ زیادہ روٹیاں لا نا بھول گئے تھے۔
15 یسوع نے ان کو تا کید کی “ہوشیار رہو فریسی اور ہیرو دیس کی خمیر کے بارے میں خبر دار رہو۔”
16 اس بات پر شاگر د آپس میں گفتگو اور بحث کرنے لگے اور سوچا کہ “ہمارے پاس روٹی نہ ہو نے کی وجہ سے انہوں نے ایسا کہا ہے۔”
17 یسوع کو معلوم ہو گیا کہ شاگرد اس بارے میں باتیں کر رہے ہیں۔ اس وجہ سے اس نے ان سے کہا ، “روٹی کے نہ ہو نے پر تم گفتگو کیوں کرتے ہو ؟ کیا تم دیکھ نہیں سکتے کیا تمہیں سمجھ میں نہیں آتا ؟ کیا تمہارے دل ایسے سخت ہو گٹے ہیں۔
18 اگر چہ کہ تم آنکھیں رکھتے ہو دیکھ نہیں سکتے اور تم کان رکھتے ہو سن نہیں سکتے اس سے قبل ایک مرتبہ جب کہ ہمارے پاس زیادہ مقدار میں روٹیاں نہ تھیں تو میں نے اس وقت کیا کیا تھا یاد کرو؟
19 میں نے پانچ ہزار آدمیوں کے لئے پانچ روٹیاں توڑ کر تمہیں دی تھیں کیا تمہیں یاد نہیں کھا نے کے بعد بچی ہوئی روٹیوں کے ٹکڑوں کو کتنی ٹوکریوں میں بھردیا گیا تھا ۔ ان شاگردوں نے جواب دیا، “ہم نے انکو بارہ ٹوکریوں میں بھر دیا تھا۔”
20 میں نے چار ہزار لوگوں کے لئے سات روٹیاں توڑ کر دی تھیں یاد کرو۔ وہ کھا نے کے بعد بچی ہوئی روٹیوں کے ٹکڑے تم نے کتنی ٹوکریوں میں بھر دیا تھا ؟ ”اور کیا یہ بات تمہیں یاد نہیں ہے اس پر شاگردوں نے جواب دیا، “ہم سات ٹوکریاں بھر دیئے تھے۔”
21 یسوع نے ان سے پوچھا ، “میں نے جن کا موں کو انجام دیا ہے تم ان کو یاد رکھے ہو اسکے با وجود کیا تم ان کو نہیں سمجھتے ؟”
22 یسوع اور اسکے شاگرد بیت صیدا کو آئے۔چند لوگوں نے یسوع کے پاس ایک اندھے کو لائے اور یسوع سے گزارش کرنے لگے کہ اس اندھے کو چھوئے۔
23 تب یسوع اس اندھے کا ہاتھ پکڑ کر اس کو گاؤں کے باہر لے گئے۔ پھر یسوع نے اس کی آنکھوں میں تھوکا
اور اس پر اپنا ہاتھ رکھ کر پوچھا ، “کیا تو اب دیکھ سکتا ہے ؟”۔
24 اس اندھے نے سر اٹھایا اور کہا ، “ہاں میں لوگوں کو دیکھ سکتا ہوں وہ درختوں کی مانند دکھا ئی دیتے ہیں جو ادھر ادھر چل پھر رہے ہیں۔”
25 یسوع نے اپنا ہاتھ پھر دو بارہ اندھے کی آنکھوں پر رکھا تب اس نے اپنی آنکھوں کو پوری طرح کھولا۔ اس کی آنکھیں اچھی ہو گئیں وہ ہر چیزکو صاف دیکھنے لگا۔
26 یسوع نے اس کو یہ کہکر بھیج دیا کہ تو سیدھا اپنے گھر چلا جا۔ “اور گاؤں نہ جا نا۔”
( متّی۱۶:۱۳۔۲۰ ؛لوقا۹:۱۸۔۲۱)
27 یسوع اور اسکے شاگرد قیصریہ فلپی کے گاؤں میں چلے گئے۔ دوران سفر یسوع نے ان سے پوچھا “میرے بارے میں لوگ کیا کہتے ہیں ؟”۔
28 شاگردوں نے جواب دیا، “بعض لوگ تجھے بپتسمہ دینے والا یوحنا کہتے ہیں اور دیگر لوگ ایلیاہ اور کچھ لوگ تجھے نبیوں میں سے ایک کہتے ہیں۔”
29 یسوع نے ان سے پوچھا ، “میرے بارے میں تم کیا کہتے ہو ؟” پطرس نے جواب دیا “تو مسیح ہے۔”
30 یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا ، “میں کون ہوں کسی کو نہ بتا نا”۔
( متّی ۱۶ :۲۱۔۲۸ ؛لوقا۹:۲۲۔۲۷)
31 تب یسوع اپنے شاگردوں کو نصیحت کرتے ہیں اور کہتے ہیں، “ابن آدم کو بہت سی تکالیف برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ یہودی بزرگ قائدین کاہنوں کے رہنما اور شریعت کے معلّمین ابن آدم کو قتل کریں گے لیکن تیسرے دن وہ موت سے زندہ اٹھ آ ئیگا۔
32 آئندہ پیش آنے والے سارے واقعات کو یسوع نے ان سے کہا اور اس نے کسی بات کو راز میں نہیں رکھا۔ پطرس یسوع کو تھوڑی دور لے گیا اور اس بات پر احتجاج کیا کہ “تو کسی سے ایسا نہ کہنا”۔
33 تب یسوع نے اپنے شاگردوں کی طرف دیکھ کر پطرس کو ڈانٹ دیا کہ “اے شیطان میری نظروں سے دور ہوجا! تیرا انداز فکر لوگوں جیسا ہے خدا کے جیسا نہیں!۔”
34 پھر یسوع نے لوگوں کو اپنے پاس بلایا۔ انکے شاگر د وہا ں پر موجود تھے۔ یسوع نے ان سے کہا، “اگر کوئی چا ہتا ہے کہ وہ میری پیروی کرے تو وہ اپنے آپ کو نفی کے مقام پر لائے اور اپنی صلیب کو اٹھا ئے ہوئے میری پیروی میں لگ جائے۔
35 وہ جو اپنی جان بچا نا چاہتا ہے وہ اس کو کھو دیگا جو میری اور اس خوش خبری کی خاطر اپنی جان دیتا ہے وہ اس کی حفاظت کریگا۔
36 ایک آدمی جو ساری دنیا کا مالک تو ہے لیکن اگر وہ اپنی جان کھوتا ہے تو پھر اس کو کیا فائدہ ؟
37 ایک آدمی دوبارہ جان خرید نے کے لئے کیا دے سکتا ہے؟
38 پھر یسوع نے کہا بد کار اور اس خراب نسل میں کوئی بھی اگر مجھ سے شرمائے گا تو جب ابن آدم اپنے باپ کے جلال اور فرشتوں کے ساتھ آئیگا تو وہ بھی اس سے شرمائیگا۔