بہت زیادہ باربار کئے گئے سوالات

سوال: کیا ايك بار نجات هميشه كے لئے نجات؟

جواب:
ایک بار کوئی شخص جب نجات حاصل کر لیتا هے توکیا وه همیشه کے لیے نجات پا لیتا هے؟ جب لوگ مسیح کو اپنے نجات دهنده کے طور پر جان لیتے هیں، تو وه خداکے ساتھ ایک رشتے میں منسلک ہو جاتے هیں جو ان کی ابدی نجات کو محفوظ کرنے کی ضمانت دیتا هے۔ کلامِ مقدس کے بهت سے حوالے اس حقیقت کا اعلان کرتے هیں، ﴿ا﴾رومیوں8باب30آیت اعلان کرتا هے، "اور جن کو اس نے پهلے مقرر کیا ان کو بلایا بھی اور جن کو بلایا ان کو راستباز بھی ٹھهرایا اور جن کو راستباز ٹھهرایاانکو جلال بھی بخشا"۔ یه آیت بتاتی هے که جس لمحے خدا همیں چنتا هے، یه ایسے هی هے جیسے هم آسمان میں اسکے موجودگی میں اسکی تمجید کرتے هیں۔ یهاں پر کچھ بھی نهیں جو ایک ایماندار کو باز رکھ سکے جلالی هونے سے کیونکه خدا پهلے هی سے اسے فردوس میں رکھنے کا اراده رکھتا هے۔ ایک بار جب ایک شخص راستباز ٹھهرا، تو اسکی نجات کی ضمانت دے دی گئی وه ایسے هی محفوظ هے جیسے اگر وه پهلے فردوس میں جلالی تھا۔

﴿ب﴾پولوس رومیوں 8باب33تا34آیت میں دو فیصله کن سوالات پوچھتاهے ، "خدا کے برگزیدوں پر کون نالش کریگا؟ خدا وه هے جو ان کو راستباز ٹھهراتا هے۔ کون هے جو مجرم ٹھهرائے گا؟ مسیح یسوع وه جو مر گیابلکه مردوں میں سے بھی جی اُٹھا اور خدا کی دهنی طرف هے اور هماری شفاعت بھی کرتا هے"۔ خدا کے برگزیدوں پر کون نالش کریگا؟ کوئی نهیں کریگا کیونکه مسیح همارا مشیر هے۔ کون هم کو مجرم ٹھهرائے گا؟ کوئی نهیں، کیونکه مسیح جو همارے لئے مُوا، جو همارے لئے رد کیا گیا ۔ هم مشیر اور منصف دونوں رکھتے هیں جیسے همارا نجات دهنده۔

﴿پ﴾ایماندارروحانی طور پر دوباره پیدا هوتے هیں﴿پھر پیدا هونا﴾جب وه ایمان لاتے هیں ﴿یوحنا3باب3آیت؛ ططس3باب5آیت﴾۔ ایک مسیحی کے لئے اپنی نجات کھو دینا، ایسے هی ہے که دوباره پیدا هی نهیں هوا هو گا۔ کلامِ مقدس میں کوئی ایسی شهادت نهیں ملتی که نئی پیدائش کھو دی جا سکتی هے۔ ﴿ت﴾پاک روح تمام ایمانداروں کے اندر رهتا هے ﴿یوحنا14باب17آیت؛ رومیوں8باب9آیت﴾ اور مسیح کے جسم میں تمام ایمانداروں کو بپتسمه دیتا هے ﴿1۔کرنتھیوں12باب13آیت﴾۔ ایماندار کے لئے غیر نجات یافته بننا ایسے هی جیسے وه "باهر نکال"دئیے گئے اور مسیح کے جسم سے الگ کردئیے گئے ہوں۔

﴿ٹ﴾یوحنا3باب15آیت بیان کرتی هے که جوکوئی یسوع مسیح پر ایمان لاتا هے "ابدی زندگی پائے گا"۔ اگر آپ آج مسیح پر ایمان لاتے هیں اور ابدی زندگی رکھتے هیں، لیکن کل کھو دیتے هیں، پھر یه کبھی بھی ابدی نهیں تھی۔ تاهم اگر آپ اپنی نجات کھو دیتے هیں، تو کلامِ مقدس میں ابدی زندگی کا وعده غلط هوگا۔ ﴿ث﴾سب سے زیاده فیصله کن دلیل میرے خیال میں کلامِ مقدس خود بهتر بیان کرتا هے، "کیونکه مجھ کو یقین هے که خدا کی جو محبت همارے خداوند مسیح یسوع میں هے اس سے هم کو نه موت جدا کرسکیگی نه زندگی۔ نه فرشتے نه حکومتیں۔ نه حال کی نه استقبال کی چیزیں۔ نه قدرتیں نه بلندی نه پستی نه کوئی اور مخلوق"﴿رومیوں8باب38تا39آیت﴾۔ یاد رکھیں ایک هی خدا نے آپ کو نجات دی هے اور ایک هی خدا آپ کو بچائے گا۔ ایک بار هم نجات پاتے هیں تو همیشه کے لئے نجات پاتے هیں۔ هماری نجات یقینا ابدی طور پر محفوظ هے.


سوال: موت كے بعد كيا هوتا هے؟

جواب:
سوال موت كے بعدکیا هوتا هے پريشان کن ھو سکتا هے۔ جب اک شخص اپني ابدی منزل پر پهنچے گا اس بات كو كلامِ مقدس واضع طور پر ظاهر نهيں كرتا ۔ کچھ عالمِ دین کا خیال ہے کہ موت کے بعد ہر کوئی گہر ی نیند سو جاتا ہے جب تک کہ روزِ عدالت نہ آ جائے۔ اُس کے بعد ہر کسی کو جنت یا دوزخ میں بھیجا جائیگا۔ اور کچھ عالم کا ماننا ہے کہ میرنے کے وقت لوگوں کی فوری طور پر عدالت ہوتی ہے اور پھر انہیں اُن کے ابدی مقام میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ اور پھر تیسری طرح کے لوگوں کا ماننا ہے کہ جب لوگ مرتے ہیں تو اُن کی روح کو عارضی طور پر جنت یا دوزخ میں جہاں وہ پھر جی اُٹھنے کا انتظار کرتے ہیں اور پھر اُن کی عدالت ہوتی ہے پھر آخر کار انہیں ان کے ابدی مقام میں بھیجا جاتا ہے۔ لہذا دیکھنا یہ ہے کہ آخر بائبل مقدس موت کے بعد کے بارے میں کیا فرماتی ہے۔

كلامِ مقدس ہمیں سیکھاتی ہے کہ مسیح یسوع پر ایمان رکھنے والے ایماندروں کی روحیں فردوس یا جنت میں چلی جاتی ہیں کیونکہ اُن کے گناہ پہلے ہی سے معاف ہو چکے ہیں جب انہوں نے مسیح یسوع کو اپنا شخصی نجات دہندہ قبول کیا تھا۔ مسیحیوں کے موت جسم سے جدا ہونے اور خداوند [ یوحنا ۳ باب کی سولہ، آٹھارہ اور چھیتس آیت کے مطابق ] کے حضور حاضر ہونا کا دوسرا نام ہے۔ ﴿2۔كرنتھيوں5باب6تا8آيت؛ فلپيوں1باب23آيت﴾۔غيرنجات يافته كے لئے ، موت كے بعد كا مطلب هے، دوزخ ميں كبھي نه ختم هونے والي سزا﴿لوقا 16باب22تا23آيت﴾۔

تو بھی بائبل مقدس کے یہ حصے ﴿۱۔كرنتھيوں۱۵ باب کی ۵۰ یا ۵۴آيت ۔ اور ۱۔تھسلینکیوں ۴ باب کی ۱۳ تا ۱۷ آیات ﴾ میں یہ بتایا گیا ہے کہ مسیح یسوع کی دوسرے آمد کے وقت ایماندار لوگ زندہ ہو جائینگے اور اُن کے بدن تبدیل ہو کر اُن کو جلالی بدن عطا کیے جائینگے۔ لہذا سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر مرنے کے فورا بعد ایماندار فردوس یا جنت میں چلے جائینگے تو پھر بائبل میں اُن کے دوبارہ جی اُٹھنے کے اِس دعوے کا کیا ہو گا ؟ اور مندرجہ بالا آیات کے بغور مطالعے کے بعد یہ بھید کھلتا ہے کہ مرنے کے بعد جب ایمانداروں کے جسمانی بدن دوبارہ زندہ کیے جائینگے اور وہ جلالی ہو جائینگے اور پھر وہ روح کے منسلک ہو جائینگے۔ اور یہ ہم آہنگ جلالی بدن، جان اور روح ایمانداروں کے پاس ہو گا تا کہ وہ اپنے ابدی مقام فردوس میں یعنی نئی زمین اور نئے آسمان میں اپنی آسمانی برکات سے لطف اندوز ہو سکیں ۔ بمطابق مكاشفه 21اور 22

دوسرا ! اور وہ لوگ جنہوں نے مسیح یسوع کواپنا شخصی نجات دہندہ قبول نہیں کیا اُن کے لیے موت کا مطلب ہے ہمیشہ کی سزا۔ تو بھی ایماندروں کی قسمت کی طرح غیر ایماندار بھی مرنے کے فورا بعد ایک عارضی مقام میں منتقل کر دیے جاتے ہیں جہاں وہ اپنے پھر جی اُٹھنے کا اور روزِعدالت کا اور اپنی ابدی قسمت کا انتظار کرتے ہے۔ يه پريشان كن هے كه موت كے بعد كيا هوتا هے۔ مكاشفه 20باب11تا15بتاتا هے وه سب جو دوزخ ميں هيں آگ كي جھيل ميں ڈالے گئے۔ مكاشفه 21اور 22باب بتاتا هے كه ایک نيا آسمان اور ایک نئي زمين ۔ اس لئے ، يه نظر آتا هے كه جب تک آخرت ميں زنده نه كيا جائے گا موت كے بعد ایک شخص "عارضي طو پر "جنت يا دوزخ ميں سكونت كرتا هے۔ ایک شخص كي ابدی منزل كبھي تبديل نه هوگي، كچھ جگهوں پر موت كے بعد ايماندار نئے آسمان اور نئي زمين پر بھيجے جائيں گے﴿مكاشفه 21باب1آيت﴾۔ كچھ جگهوں پر موت كے بعد غير نجات يافته لوگ آگ كي جھيل ميں ڈالے جائيں گے﴿مكاشفه 20باب11تا 15آيت﴾۔ يه آخرت هے، سب لوگوں كے رهنے كي ابدی جگه جس كي بنياد اس پر هے كه کوئی شخص اپنے گناهوں سے نجات كے لئے يسوع مسيح پر ايمان ركھتا هے


سوال: خود كشي كے بارے ميں مسيحي رائے كيا هے؟ كلامِ مقدس خودكشي كے بارے ميں كيا كهتا هے؟

جواب:
کلامِ مقدس کے مطابق، خواه کوئی شخص اس لئے خودکشی نهیں کرتا که اسے کیا معلوم که وه مرد یا عورت جنت میں داخل هو پائیں گے۔ اگر ایک غیر نجات یافته شخص خودکشی کرتا هے، اس مرد یا عورت نے کچھ نهیں کیا لیکن انهوں نے آگ کی جھیل کی طرف اپنا سفر"جلد"شروع کردیا هے۔ بهرحال ، جس شخص نے خودکشی کی هوگی آخر کار وه مسیح کے ذریعے نجات کو قبول نه کرنے کی وجه سے دوزخ میں جائے گا، کلامِ خدا میں کچھ لوگوں کا خاص طور پر ذکر کیا گیاہے جنہوں نے خود کشی کی۔ ابی ملک ّ(قضاۃ ۹ باب ۵۴ آیت)، ساؤل ﴿1۔سموئیل31باب4آیت﴾، اخیتُفل ﴿2۔سموئیل17باب23﴾، زمری﴿1۔سلاطین16باب18آیت﴾، اور یهوداه ﴿متی27باب5آیت﴾۔ یه سب مکار، بُرے ، گناه سے بھر ے هوئے انسان تھے۔ کلامِ مقدس کی نظر میں خود کشی قتل کے برابر هے یه اس لئے یه اپنا قتل هے۔ خدا هی وه واحد ایک هے جو فیصله کرتا هے که کب اور کیسے کسی شخص کو مرنا هے۔ اس طرح کی طاقت کو اپنے هاتھوں میں لینا، کلامِ مقدس کے مطابق خداکے حضور گستاخی هے۔

کلامِ مقدس کیا کهتا هے جب کوئی مسیحی خودکشی کرتا هے؟ میں یقین نهیں کرتا که کوئی مسیحی خودکشی کرتا هے تو وه اپنی نجات کھو دے گا اور جهنم میں جائے گا۔ کلامِ مقدس تعلیم دیتا هے که جس لمحے کوئی شخص مسیح پر سچا ایمان لاتا هے ، وه مرد یا عورت ابدی حفاظت پاتا هے ﴿یوحنا3باب16آیت﴾۔ کلامِ مقدس کے مطابق، هرطرح کے شک کے باوجود مسیحی جانتے هیں که وه همیشه کی زندگی رکھتے هیں چاهے کچھ بھی هو۔ "میں نے تم کو جو خدا کے بیٹے کے نام پر ایمان لائے هو یه باتیں اس لئے لکھیں که تمهیں معلوم هو که همیشه کی زندگی رکھتے هو"﴿1۔یوحنا5باب13آیت﴾۔ کوئی چیز مسیحیوں کو خدا کی محبت سے جدا نهیں کرسکتی "کیونکه مجھ کو یقین هے که خدا کے جو محبت همارے خداوند مسیح یسوع میں هے اس سے هم نه موت جدا کرسیکگی نه زندگی۔ نه فرشتے نه حکومتیں۔ نه حال کی نه استقبال کی چیزیں۔ نه قدرتیں نه بلندی نه پستی نه کوئی اور مخلوق"﴿رومیوں8باب38تا39آیت﴾۔ کوئی "بنائی هوئی مخلوق"مسیحی کو خدا کی محبت سے جدا نه کر سکے گی، اگر کوئی مسیحی خودکشی کرتا هے جو"مخلوق هے"پھر خودکشی بھی اسے خدا کی محبت سے جدا نه کرسکے گی۔ یسوع همارے تمام گناهوں کے لیے مُوا اور اگر کوئی سچا مسیح یه کرتا، تو روحانی حملے اور کمزوری میں خودکشی کرتا هے تو یه گناه هوگا جس کے لئے یسوع مُوا۔

یه نهیں کها جاتا که خودکشی کرناخدا کے خلاف ایک سنجیده گناه نهیں هے۔ کلام مقدس کے مطابق خودکشی قتل هے یه همیشه سے غلط هے ۔ میں اس شخص کے ایمان کے بارے میں ابھی بھی شک رکھتا هوں جو مسیحی هونے کا دعویٰ بھی کرے اور اسکے باوجود خودکشی بھی کرے۔ یهاں ایسے حالات نهیں جو کسی کے لئے واجب ٹھهریں خاص کرکے مسیحی کے لئے که وه مرد یا عورت اپنی جان لے لے۔ مسیحی کو خدا کے لئے زندگی گذارنے کے لئے بلایا گیا۔ کب کس نے مرنا هے یه فیصله صرف خدا کا هے صرف اور صرف خدا کا۔ شاید ایک اچھا رسته جوخودکشی کو مسیحیوں کے لئے بیان کرتاهے آستر کی کتاب میں ایک قانون هے که اگر بغیر طلب کیے هوئے کوئی بادشاه کے حضور آئے تو اسے سزائے موت کے ساتھ قید کردیا جاتا هے جب تک که بادشاهت کسی دوسرے شخص کومنتقل نهیں هوجاتی جو رحم کی علامت هے۔ خودکشی ایک مسیحی کے لئے ایسا رسته هے جو خود بادشاه کو دیکھناهے بجائے کے اس کا انتظار کیا جائے که وه آپ کو طلب کرے۔ وه اپنا گدی نشین آپ کو بنائے گا، آپ کی ابدی زندگی کو بچاتے هوئے، لیکن اس کا یه مطلب نهیں که وه آپ سے خوش هے۔ اس کے باوجود یه خودکشی کو بیان نهیں کرتا، کلامِ مقدس 1۔کرنتھیوں3باب15آیت ایک اچھی تفصیل هے که اگر کوئی مسیحی خودکشی کرتا هے تو اس کے ساتھ کیا هوتا هے "اور جس کا کام جل جائے گا وه نقصان اُٹھائے گا لیکن خود بچ جائیگا مگر جلتے جلتے"۔


سوال: كيا ابدي حفاظت كلامِ مقدس كے مطابق هے؟

جواب:
جب لوگ مسیح کو اپنا نجات دهنده کے طور پر جانتے هیں، وه خدا کے ساتھ ایک رشتے میں آ جاتے هیں جو ان کی ابدی حفاظت کی ضمانت هے۔ یهوداه 24آیت میں اعلان کرتا هے، "اب جو تم کو ٹھوکر کھانے سے بچا سکتا هے اور اپنے پُرجلال حضور میں کمال خوشی کے ساتھ بے عیب کرکے کھڑا کرسکتا هے "۔ خدا کی قوت ایماندار کو ٹھوکر کھانے سے بچا سکتی هے۔ یه اسی کی وجه سے هے، هماری وجه سے نهیں، همیں اسکے پُرجلال حضور میں لاتی هے۔ هماری ابدی حفاظت اس بات کو ثبوت هے که خدا هماری نگهبانی کرتا هے، هم اپنی نجات خود سے برقرار نهیں رکھ سکتے۔

خداوند یسوع مسیح نے اعلان کیا، "اور میں انهیں همیشه کی زندگی بخشتا هوں اور وه ابد تک کبھی هلاک نه هونگی اور کوئی انهیں میرے هاتھ سے چھین نه لیگا۔ میرا باپ جس نے مجھے وه دی هیں سب سے بڑا هے اور کوئی انهیں باپ کے هاتھ سے نهیں چھین سکتا" ﴿یوحنا10باب28تا29﴾۔ یسوع اور باپ دونوں همیں اپنے هاتھوں میں مضبوطی سے پکڑتے هیں۔ باپ اور بیٹے دونوں کی گرفت سے کون همیں علیحده کرسکتا هے؟

افسیوں 4باب30آیت همیں بتاتی هے که ایمانداروں "پر مخلصی کے دن کے لئے مهر هوئی ہے"۔ اگر ایمانداروں کے پاس ابدی حفاظت نهیں هے ، تو مخلصی کے دن کے لئے مهر اصلی نهیں هوسکتی ، لیکن صرف گناه کرنے کے دن، خدا سے انکار کرنے کے دن، یا بے اعتقاد ۔ یوحنا 3باب15تا16آیت همیں بتاتی هے که جو کوئی بھی یسوع مسیح پر ایمان رکھتا هے"ابدی زندگی رکھتا هے"۔ اگر کسی شخص سے ابدی زندگی کا وعده کیا گیا تھا، لیکن پھر اس وعدے کو واپس لے لیا گیا، یه کبھی بھی "ابدی"وعده نه تھا۔ اگر ابدی حفاظت حقیقی نهیں هے تو اِس کا مطلب یہ ہوا کہ کلا مِ مقدس میں ابدی زندگی کا وعده غلط هو گا۔ جو کہ خدا کے الہام سے لکھے ہوئے کلام میں ممکن نہیں ہو سکتا۔

سب سے زبردست دلیل هے ابدی زندگی کے لئے رومیوں 8باب38تا39آیت میں، "کیونکه مجھ کو یقین هے که خدا کی جو محبت همارے خداوند مسیح یسوع میں هے اس سے هم کو نه موت جدا کرسکیگی نه زندگی۔ نه فرشتے نه حکومتیں۔ نه حال کی نه استقبال کی چیزیں۔ نه قدرتیں نه بلندی نه پستی نه کوئی اور مخلوق"۔ هماری ابدی حفاظت کی بنیاد خدا کی محبت هے یه ان کے لئے هے جو نجات پا چکے هیں۔ هماری ابدی حفاظت یسوع نے خریدی هے، باپ نے وعده کیا هے اور پاک روح نے مهر کی هے۔ اور خدا انسان نہیں کہ جھوٹ بولے۔ ہم مکمل طور پر خدا پر بھروسہ کر سکتے ہیں کہ اُس کی باتیں لاتبدیل ہیں اور اُس کے وعدے ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں


سوال: مسيحيوں كے لئے بپتسمه كي كيا اهميت هے؟

جواب:
مسيحي بپتسمه كلام مقدس كے مطابق ايک بيروني گواہي هے كه ايماندار كے اندر كيا تبديلياں رونما هوئي ہيں۔ مسيحي بپتسمه ايک مثال هے كه كيسے ايک ايماندار مسيح كے ساتھ مرا، دفن هوا اور جي اُٹھا۔ كلام مقدس اعلان كرتا هے كه "كيا تم نهيں جانتے كه ہم جتنوں نے مسيح يسوع ميں شامل هونے كا بپتسمه ليا تو اسكي موت ميں شامل هونے كا بپتسمه ليا؟ پس موت ميں شامل هونے كے بپتسمه كے وسيله سے هم اسكے ساتھ دفن هوئے تاكه جس طرح مسيح باپ كے جلال كے وسيله سے مُردوں ميں سے جلايا گيا اسي طرح ہم بھي نئي زندگي ميں چليں"﴿روميوں6باب3تا4آيت﴾۔ مسيحي بپتسمه ميں پاني ميں غوطه لينے كا عمل ظاہر كرتا هے کہ ہم يسوع مسيح كے ساتھ دفن هوئے ہيں۔ پاني سے باهر نكلنے كا عمل اس بات كو ظاہر كرتا هے كه ہم مسيح كے ساتھ جي اُٹھے ہيں۔

مسيحي بپتسمه ميں دو چيزيں بپتسمه لينے والے كو پوری كرني پڑتي ہيں ﴿1﴾بپتسمه لينے والا شخص يسوع مسيح كو اپنا نجات دہنده مانتا هو اور ﴿2﴾بپتسمه لينے والا شخص اچھي طرح جانتا هو كه بپتسمه كس چيز كا نشان هے۔

اگر كوئي شخص جانتا هے كه يسوع مسيح هي نجات دهنده هے ، سمجھتا هے كه مسيحي بپتسمه ايک قدم هے اس بات كا كه وه تمام لوگوں كے سامنے يسوع مسيح پر اپنے ايمان كا اظهار كرتا هے، اور چاهتا هے كه اسے بپتسمه ديا جائے۔ تب كوئي وجه نهيں كه اس ايماندار كو بپتسمه نه ديا جائے۔ كلام مقدس كے مطابق مسيحي بپتسمه صرف تابعداری كي طرف ايک قدم هے ، لوگوں كے سامنے اس بات كا اظهار كه ميں يسوع مسيح پر ايمان ركھتا هوں يہي نجات هے۔ مسيحي بپتسمه ضروری هے كيونكه يه تابعداري كي طرف ايک قدم هے، اور لوگوں ميں يسوع مسيح پر ايمان كا اظهار اور اس كے ساتھ عهد هے ، اور يسوع مسيح كي موت ، دفنايا جانا، اور جي اُٹھنے كا نشان هے


سوال: كلامِ مقدس تثليث كے بارے ميں كيا تعليم ديتا هے؟

جواب:
مسیحی نقطه نگاه سے سب سے مشکل چیز تثلیث هے جس کو کوئی بھی آسانی سے بیان نهیں کرسکتا۔ تثلیث ایک ایسا بھید هے جس کو مکمل طور پر سمجھنا ایک عام انسان کے لیے بهت مشکل هے، آئیں اس کوعلیحده علیحده بیان کریں۔ خدا هم سب سے لامحدود حد تک بهت بڑا هے۔ اسی لیے هم تصور بھی نهیں کرسکتے که اسے مکمل طور پر سمجھیں۔ کلام مقدس بتاتی هے که خدا باپ هے، یسوع خدا هے، اور پاک روح خدا هے۔ کلام مقدس یه بھی بتاتی هے که خدا صرف اور صرف ایک هے۔ اگرچہ هم تثلیث کے تنیوں اقنوم کے تعلق کو الگ الگ سمجھتے هوئے جان سکتے هیں ایک هی وقت میں، انسانی ذهن کے لیے اسے سمجھنا بهت هی مشکل هے۔ تاهم اس کا یه بھی مطلب نهیں که یه سچ نهیں یا اس کی بنیاد کلام مقدس کی تعلیمات کے مطابق نهیں۔

لفظ تثلیث کو پڑھتے هوئے اس بات کو ذهن میں رکھیں که یه لفظ کلام مقدس میں استعمال نهیں هوا۔ یه ایک محاورا هے جو خدا کی الوهیت کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ، که یه حقیقت هے که تینوں اقنوم هیں جو همیشه سے موجود هیں جو خدا کی شخصیت کو پورے طور پر مکمل کر تے هیں۔ سمجھنا چاهیے که یه همیں تین خداؤں کی طرف مائل نهیں کرتے۔ تثلیث یه هے که ایک خدا میں یه تین شخصیات هیں اور لفظ تثلیث استعمال کرنا کوئی غلط بات نهیں۔ حالانکه یه لفظ کلام مقدس میں موجود هی نهیں۔ مختصر لفظ تثلیث کهنا اس کے بجائے که تین اقنوم یا تین شخصیات کهنا ایک خدا کے لئے۔ اگر یه آپ کے لئے کسی مشکل کا سبب هے تو اس سمجھئے : لفظ دادا یا نانا کلام مقدس میں کهیں بھی استعمال نهیں هوا۔ پھر بھی هم جانتے هیں که دادے اور نانے کلام مقدس میں موجود تھے۔ ابراهم یعقوب کا دادا تھا۔ اس لیے آپ کو لفظ تثلیث سے اتنا پریشان هونے کی ضرورت نهیں۔ اس کی اصل اهمیت کیا هوگی که تثلیث کا جو تصور کلام مقدس میں بیان کیا گیا هے وه کلام مقدس میں موجود هے۔ دوسرے لفظوں میں اس کا آغاز یوں هو سکتا هے ، کلام مقدس کی آیات میں تثلیث کو واضع طور پر بیان کیا گیا هے۔

پهلا۔ ایک خدا هے﴿استثنا 6باب4آیت؛ 1۔کرنتھیوں8باب4آیت؛ گلتیوں3باب20آیت؛ 1۔تیمتھس2باب5آیت﴾۔

دوسرا۔ تثلیث میں تین اشخاص شامل هیں﴿پیدایش 1باب1آیت؛ 1باب26آیت؛ 3باب22آیت؛ 11باب7آیت؛ یسعیاه 6باب8آیت؛ 48باب16آیت؛ 61باب1آیت؛ متی 3باب16تا17آیت؛ 28باب19آیت؛ 2۔کرنتھیوں13باب14آیت﴾۔ پرانے عهد نامے میں عبرانی کا علم بهت مددگار تھا۔ پیدایش1باب1آیت میں اسم جمع الوهیم استعمال هوا هے۔ پیدایش 1باب26آیت؛ 3باب22آیت؛ 11باب7آیت اور یسعیاه6باب8آیت میں اسم معرفه"هم"استعمال هوا هے۔ یه "الوهیم "اور "هم" ایک سے زیاده کے لیے استعمال هوئے هیں بغیر سوال کے۔ انگریزی میں آپ کے پاس صرف دو هی اشکال ہیں واحد یا جمع، عبرانی میں آپ کے پاس تین اشکال هیں ، واحد ، دوهرااور جمع۔ دوهرا صرف اور صرف دو هی کے لیے هے۔ عبرانی میں دوهری اشکال استعمال هوئی هیں۔ دوهری چیزوں کے لیے جیسے آنکھیں ، کان، هاتھ۔ لفظ "الوهیم"اور اسم معرفه "هم"جمع کی اشکال هیں۔ یه یقینا دو سے زیاده کے لیے هیں۔ اور ان کو تین یا تین سے زیاده کے لیے استعمال کیا جا سکتا هے ﴿باپ، بیٹا، پاک روح﴾۔

یسعیاه 48باب16آیت اور 61باب1آیت میں بیٹا بولتا هے جب باپ یا پاک روح کے بارے میں بات کرتا هے۔ یسعیاه 61باب1آیت کو لوقا 4باب14تا19آیت سے موازنه کریں اور دیکھیں که بیٹا کیا کهتا هے۔ متی 3باب16تا17آیت یسوع مسیح کے بپتسمه کے واقع کو بیان کرتی هے۔ دیکھیں که اس میں خدا پاک روح ، خدا بیٹے کے اوپر اترتا هے جبکه خدا باپ کهتا هے که وه بیٹے سے خوش هے۔ متی 28باب19آیت اور 2۔کرنتھیوں13باب14آیت اس کی مثالیں هیں که تین مختلف اشخاص تثلیث هیں۔

تیسرا۔ تثلیث کے ممبران مختلف جگهوں پر ایک دوسرے سے فرق هیں۔ پرانے عهدنامے میں "خدا"فرق هے"خداوند"﴿پیدایش19باب24آیت؛ هوسیع1باب4آیت﴾۔ خدا کا بیٹا ﴿2زبور7اور12آیت؛ امثال30باب2تا4آیت﴾۔ "پاک روح" "خدا"سے فرق هے ﴿گنتی27باب 18آیت﴾اور"خدا"﴿زبور51باب10تا12آیت﴾۔ خدا بیٹا خدا باپ سے فرق هے ﴿45زبور6تا7آیت؛ عبرانیوں1باب8تا9آیت﴾۔ نئے عهد نامے میں یوحنا14باب16تا17آیت جهاں یسوع سے خدا باپ سے بات کرتا هے که وه پاک روح کو بطور مدد گار بھیجے ۔ یه ظاهر کرتا هے که یسوع مسیح یه نهیں سمجھتا که وه اپنے آپ کو خدا باپ پاک روح نهیں سمجھتا۔ یسوع مسیح انجیل میں بهت سی جگهوں پر خدا کو باپ سمجھتے هوئے بات کرتا هے کیا وه اپنے آپ سے بات کرتا هے؟ نهیں۔ وه تثلیث کی دوسری شخصیت باپ سے بات کرتا هے۔

چوتھا۔ تثلیث کا هر ممبر خدا هے باپ خدا هے﴿یوحنا6باب27آیت؛ رومیوں1باب7آیت؛ 1۔پطرس1باب2آیت﴾، بیٹا خدا هے ﴿یوحنا1باب1اور14آیت؛ رومیوں9باب5آیت؛ کلسیوں2باب9آیت؛ عبرانیوں1باب8آیت؛ 1۔یوحنا5باب20آیت ﴾، پاک روح خدا هے ﴿اعمال5باب3تا4آیت؛ 1۔کرنتھیوں3باب16آیت﴾۔ ایک جو سب میں رهتا هے وه پاک روح هے ﴿رومیوں8باب9آیت؛ یوحنا14باب16تا17آیت؛ اعمال2باب1تا4آیت﴾۔

پانچواں۔ تثلیث میں ماتحتی:کلام مقدس اس بات کو ظاهر کرتا هے که پاک روح باپ اور بیٹے کا ماتحت هے اور بیٹا باپ کا ماتحت هے ۔ یه ان کا آپسی رشته هے اور تثلیث میں شامل شخص دوسرے کی طاقت کو جھٹلا نهیں سکتا۔ مختصر یه وه علاقه هے جس کو همارے محدود خیالات نهیں جان سکتے کیونکه خدا لامحدود هے ۔ بیٹے کے بارے میں دیکھیں لوقا22باب24آیت؛ یوحنا5باب36آیت؛ یوحنا20باب 21آیت؛ 1۔ یوحنا4باب14آیت۔ پاک روح کے بارے میں دیکھیں یوحنا14باب16اور 26آیت؛ 15باب26آیت؛ 16باب7آیت اور خاص طور پر یوحنا16باب13تا14آیت۔

چھٹا۔ تثلیث کے ممبران کا انفرادی کام:باپ هی همارے وجود ذریعه هے۔ ﴿1﴾کائنات﴿1۔کرنتھیوں8باب6آیت؛ مکاشفه4باب11آیت﴾۔ ﴿2﴾خدائی مکاشفه ﴿مکاشفه1باب1آیت﴾۔ ﴿3﴾نجات﴿یوحنا3باب16تا17آیت﴾ اور﴿4﴾یسوع انسانی کام﴿یوحنا5باب17آیت؛ 14باب10آیت﴾، باپ نے هی یه تمام چیزیں بنائی هیں۔

بیٹا وه اهلکار هے جس کے ذریعے باپ مندرجه ذیل کام کرتا هے ﴿1﴾کائنات کی بناوٹ اور دیکھ ریکھ ﴿1۔کرنتھیوں8باب6آیت؛ یوحنا1باب3آیت؛ کلسیوں1باب16تا17آیت۔ ﴿2﴾خدائی مکاشفه ﴿یوحنا1باب1آیت؛ متی11باب27آیت؛ یوحنا16باب12تا15آیت؛ مکاشفه 1باب1آیت﴾اور ﴿3﴾ نجات﴿2۔کرنتھیوں5باب19آیت؛ متی1باب21آیت؛ یوحنا4باب42آیت﴾۔ باپ یه ساری چیزیں بیٹے کے ذریعے کرتا هے جو ایک اهلکار کی طرح کا م کرتا هے۔

پاک روح کے ذریعے خدا مندرجه ذیل کام سرانجام دیتا هے ﴿1﴾کائنات کی بناوٹ اور دیکھ ریکھ ﴿پیدایش 1باب2آیت؛ ایوب26باب13آیت؛ 104زبور30آیت﴾۔ ﴿2﴾خدائی مکاشفه ﴿یوحنا16باب12تا15آیت؛ افسیوں3باب5آیت؛ 2۔پطرس1باب21آیت﴾۔ ﴿3﴾نجات ﴿یوحنا3باب6آیت؛ ططس 3باب5آیت؛ 1۔پطرس1باب2آیت﴾ اور﴿4﴾یسوع مسیح کے کام ﴿یسعیاه 61باب1آیت؛ اعمال10باب38آیت﴾۔ اب باپ یه ساری چیزیں پاک روح کی قوت کے ذریعے سرانجام دیتا هے۔

مشهور تمثیلیں بھی تثلیث کو پورے طور پر بیان کرنے سے قاصر هیں۔ انڈه ﴿یا سیب﴾ اپنے خول میں پورا نهیں هوسکتا، سفیدی یا زردی انڈے کے حصے هیں، نه که اپنے آپ میں انڈه هیں۔ باپ بیٹا اور پاک روح خدا کے حصے نهیں هیں یه سب اپنے آپ میں خدا هیں۔ پانی کی مثال کسی حد تک بهتر مگر پھر بھی تثلیث کو بتانے کے لیے پورے طور پر مکمل نهیں۔ مائع ، بھاپ اور برف پانی کی تین اشکال هیں۔ باپ ، بیٹا اور پاک روح خدا کی اشکال نهیں هیں، بلکه هر ایک خود خدا هے۔ اس لیے یه مثالیں همیں تثلیث کی مکمل تصویر دکھاتی هیں ، یه تصویر پورے طور پر مکمل نهیں هے۔ لامحدود خدا محدود قسم کی مثالوں سے بیان نهیں کیا جا سکتا۔ تثلیث پر غور نه کرتے هوئے اصل میں صرف خد ا کی الوهیت پر نگاه کرنے کی ضرورت هے اور کیونکه خدا کی خدائی همارے وجود سے کهیں زیاده لامحدود هے ،"واه خدا کی دولت اور حکمت اور علم کیاهی عمیق هے اسکے فیصلے کس قدر ادراک سے پرے اور اسکی راهیں کیا هی بے نشان هیں ۔ خداوند کی عقل کو کس نے جانا؟ یاکون اسکا صلاح کار هوا؟ "﴿رومیوں11باب33تا34آیت﴾۔


سوال: كلامِ مقدس مسيحي ده يكي كے بارے ميں كيا كهتا هے؟

جواب:
ده يكي ايک ايسا معامله جس سے آج بهت سے مسيحي نبردآزما ہيں۔ بهت سي كليسياؤں ميں ده يكي پر بهت زور ديا جاتا هے۔ ايک ہي وقت ميں، بهت سے مسيحي اپني شكرگزارياں كلامِ مقدس كي ترغيب و نصيحت كي روشني ميں خدا كو پيش كرنے سے انكار كرتے هيں۔ ده يكي يا خوشي سے دينا، باعثِ بركت هے۔ افسوس كے ساتھ، يه عمل آج گرجا گھروں ميں سے ختم هوتا جارہا هے۔

ده يكي پرانے عهدنامے كا تصور هے۔ ده يكي شريعت كے مطابق ايک قانون تھا جس كے مطابق تمام اسرائيلي اپني كمائي يا پيداوار کا% 10 ﴿دس في صد﴾حصه خيمه اجتماع يا گرجا گھر ميں لاتے ﴿احبار27:30؛ گنتي18:26؛ استثنا14:24؛ 2 تواريخ31:5﴾۔ پرانے عهدنامے ميں كچھ لوگوں نے ده يكي كو ايک قسم كا ٹيكس ادا كرنا كا ايک طريقه سمجھا تاكه كاهنوں اور لاوی جو قربان گاه ميں آيا جايا كرتے تھے ان كي ضروريا ت كو پورا كيا جا سكے۔ نيا عهد نامه ميں ده يكي كا حكم كهيں بھي نهيں، يهاں تک كه مسيحي كسي قسم كے شرعي ده يكي كے نظام كو مانيں۔ پولوس بيان كرتا هے كه ايماندار كو چاهيے كه وه اپني آمدني كا كچھ حصه كليسيا ﴿گرجا گھر﴾كي مدد كے لئے ركھے ﴿1 كرنتھيوں16:1 2﴾۔

نيا عهد نامے كهيں بھي يه نهيں كهتا كه اپني آمدني خاص حصه ﴿في صد﴾ الگ ركھا جائے، مگر صرف يه كها گيا ..."اپني آمدني كے موافق كچھ اپنے پاس ركھ چھوڑا كرے... "﴿1 كرنتھيوں16:2﴾۔ مسيحي كليسيائيں خاص طور پر پرانے عهدنامے كے مطابق % 10 ﴿في صد﴾ده يكي ليتي ہيں اور اسے لاگو كرتي ہيں جيسے "يه كم از كم تجويز كرده"حصه مسيحيوں كے ليے ضروری هے۔ تاہم ، مسيحي ده يكي كو دينا ضروری نهيں جانتے۔ وه اتنا ہي ديتے ہيں جتنا وه دے سكتے ہيں جيسے .."اپني آمدني كے موافق كچھ اپنے پاس ركھ چھوڑا كرے... "۔ اكثر اس كا مطلب يه هے كه ہميں ده يكي سے زياده بھي دينا هوتا هے، اكثر اس كا مطلب يه هے كه ہميں ده يكي سے كم بھي دينا هوتا هے۔ يه سب ايک مسيحي كي استطاعت پر منحصر هے اور كليسيا كي ضرورت پر، هر ايک مسيحي كو چاهيے كه وه بڑی سرگرمي سے دعا اور خدا سے حكمت كے لئے طالب رهے جيسا كه وه دوسرے كاموں ميں شريک هے ويساہي ده يكي دينے ميں بھي مرد هو يا عورت شريک هو .﴿يعقوب1:5﴾۔ "جس قدر هر ايک نے اپنے دل ميں ٹھہرايا هے اسي قدر دے نه دريغ كركے اور نه لاچاری سے كيونكه خدا خوشي سے دينے والے كو عزيز ركھتا هے"﴿2 كرنتھيوں9:7﴾۔ اِن سب باتوں سے بڑھکر دہ یکی اور ہدیہ جو بھی ادا کیا جائے خالص دلی سے کیونکہ یہ بھی خداوند کی عبادت کا ایک حصہ ہے اور مسیح کے بدن کی خدمت کرنا ہے۔ اوربہت سارے ممالک میں آج کے دور میں ہدیہ اور دہ یکی سے پوری دنیا میں انجیل کی منادی کا کام کیا جاتا ہے اور یہی ایک اِس پیسے کے سہی استعمال کا زریعہ ہے جس میں ہمیں شاید دہ یکی سے بڑھکر بھی دینا پڑسکتا ہے تاکہ اُن لوگوں تک بھی انجیل کی خوشخبری کا پیغام پہنچ سکے جو آج تک بھی اپنے منجی یسوع المسیح سے بے خبر ہیں۔


سوال: كلامِ مقدس طلاق اور دوباره شادي كے بارے ميںكيا كهتي هے؟

جواب:
سب سے پهلے، طلاق كے بارے میں كسی كے كچھ بھی خیالات هوں كلام مقدس كے یه الفاظ یاد ر کھنا ضروری ہیں جو کہ ملاكی 2باب16آیت میں هیں"خداوند اسرائیل كا خدا فرماتا هے میں طلاق سے بیزار هوں "۔ كلام مقدس كے مطابق شادی كے بارے میں خدا كا منصوبه هے زندگی بھر كا عهد۔ "پس وه دو نهیں بلكه ایک جسم هیں۔ اس لئے جسے خدا نے جوڑا هے اسے آدمی جدا نه كرے"﴿متی19باب6آیت﴾۔ خدا نے جانا كه جب دو گناه سے بھرے هوئے انسان شادی كرتے هیں تو طلاق وجود میں آتی هے۔ پرانے عهدنامے میں ، اس نے كچھ قوانین بنائے جو كه طلاق یافته لوگوں كے حقوق كے لئے تھے خاص طور پر عورتوں كے لئے ۔ ﴿استثنا24باب1تا4آیت﴾۔ یسوع مسیح نے اس بات كو ظاهر كیا كه یه قوانین لوگوں کی سخت دلی کے باعث بنائیں گئے ، یه نهیں كه خدا ایسا چاهتا تھا ﴿متی 19باب8آیت﴾۔

بحث اس بات پر ختم هوتی هے جبكه طلاق اور دوباره شادی كی اجازت كلام مقدس میں یسوع مسیح كے ان الفاظ كے گرد گھومتی هے جهاں انهوں نے ﴿متی5باب32آیت اور19باب9آیت﴾ كها هے ۔ شاید"سوائے حرامكاری " كے كلام مقدس میں یهی وه واحد چیز هے جو ممكنا طور پر خدا كی طرف سے طلاق اور دوباره شادی كی اجازت دیتا هے۔ بهت سے متراجم اس بات كو ایک" مستثنیٰ اصول "سمجھتے هیں اور ایسے حواله دیتے هیں كه حرامكاری جو منگنی هو جانے كے بعد هو ۔ یهودی رسم و رواج میں ایک آدمی اور ایک عورت كو شادی شده تصور كیا جاتا تھا جبكه ابھی صرف ان كی منگنی هی هو جائے۔ بدكاری هی اس نسبت یا تعلق كو توڑنے كے لئے ایک جائزه وجه هے جس سے طلاق هو سكتی هے۔

تاهم، یونانی لفظ كا ترجمه "حرامكاری"كیا گیا هے اس لفظ كا مطلب هے كه هر طرح كی جنسی حرامكاری۔ اس كا مطلب هے بدكرداری، عصمت فروشی، زناكاری وغیره۔ یسوع مسیح نے كها كه طلاق اسی صورت میں هو سكتی هے جب جنسی حرامكاری كا گناه سرزد هو۔ جنسی تعلقات ایک شادی شده زندگی كا خاص اور ایک عهد هے "وه دونوں ایک تن هو ں گے"﴿پیدائش2باب24آیت؛ متی19باب5آیت؛ افسیوں5باب31آیت﴾۔ اسلئے شادی كے اس مقدس عهد كو صرف جنسی آسودگی كے لئے توڑنا طلاق كے لیے ایک جائز وجه هے۔ اِس سے مراد ہے کہ اگر کوئی مرد اپنی بیوی کو کسی اور مرد کے ساتھ جنسی تعلقات میں شامل پائے تو وہ اپنی بیوی کو بائبل مقدس کے مطابق طلاق دے سکتا ہے ورنہ کوئی دوسرا رستہ یا پھر دوسری وجہ بائبل میں موجود نہیں ہے۔ اگر ایسا هے ، یسوع مسیح اس حوالے میں دوباره شادی كے بارے میں جانتے هیں، "اور میں تم سے كهتا هوں كے جو كوئی اپنی بیوی كو حرامكاری كے سواكسی اور سبب سے چھوڑ دے اور دوسری سے بیاه كرے وه زنا كرتا هے اور جو كوئی چھوڑی هوئی سے بیاه كرے وه بھی زنا كرتا هے"﴿متی19باب9آیت﴾۔ یه ظاهر كرتا هے كه طلاق اور دوباره شادی كی اجازت هے صرف اسی وقت جب اس ممنوع اصول كو توڑا جائے یا كوئی اس كو جیسا بھی سمجھے۔ یه یاد ركھنا ضروری هے كه صرف وه فریق دوباره شادی كر سكتا هے جو پاک هوں۔ اگرچے یه بات ان آیات میں لكھی هوئی نهیں ، طلاق كے بعد دوباره شادی خدا كی طرف سے رحم اور ایک اضافی بخشش هے كه جس نے اس كا گناه كیا هے ، اس كے لئے نهیں جس نے جنسی حرامكاری كی هے۔ ایسا بھی هو سكتا هے كه گنهگار شخص بھی دوباره شادی كرلے، مگر اس طرح كا كوئی خیال ان آیات میں نهیں آیا۔

كچھ لوگ 1كرنتھیوں7باب15آیت كو ایک اور رعایت سمجھتے هیں جو دوباره شادی كے لئے اجازت دیتی هے اگر كوئی بے ایمان شخص كسی ایماندار كو طلاق دے ۔ تاهم مگر ان آیات میں یه نهیں لكھا كه وه دوباره شادی كرے، لیكن یه كها گیا هے كه باایمان شخص كے لئے ضروری نهیں كه وه اپنی شادی شده عهد كو جاری ركھے اگر كوئی بے ایمان شخص اسے چھوڑنا چاهیے ۔ كچھ اس كو گالی سمجھتے هیں ﴿شوهر/بیوی اور بچے﴾ كه یه ایک جائزوجه هے طلاق كے لئے اور نه هی ان كی كوئی تفصیل كلام مقدس میں موجود هے۔ جبكه یه اس مسئلے كے بارے میں ٹھیک هے، یه بالكل كوئی عقل مندی نهیں كه هم كلام مقدس كے بارے میں پهلے سے كوئی نتیجه اخذ كریں۔

اكثر هم بحث میں دور چلے جاتے هیں اس رعایت كے بارے میں جو كه سچ هے كه "حرامكاری"كا كوئی بھی روپ هو طلاق اس كی بخشش هے۔ ، طلاق كی ضرورت نهیں۔ یهاں تک كه جب كوئی جوڑا زناكاری كا ارتكاب كرتا هے ، خدا كے فضل كے ذریعے سے ، معافی كو سمجھتا هے اور شادی شده زندگی كا دوباره آغاز كرتا هے ۔ خدا همیں بهت ساری چیزوں سے معاف كرچكا هے۔ یقینا هم اس كی تمثیل كو سامنے ركھتے هوئے زناكاری جیسے گناه كو بھی معاف كر سكتے هیں ﴿افسیوں4باب32آیت﴾۔ تاهم بهت دفعه دیكھا گیا هے كه ایک فریق تو یه حاصل نهیں كرتا اور جنسی حرامكاری جاری ركھتا هے اس لئے وهاں متی19باب9آیت هر طرح سے پوری اترتی هے۔ دیكھا گیا هے كه بهت سارے لوگ طلاق كے بعد فوراً شادی كر لیتے هیں جبكه خدا چاهتا هے كه وه غیر شادی شده هی رهیں۔ خدا اكثر لوگوں كو بغیر شادی هی كے بلاتا هے اس لیے كه ان كی توجه صرف اور صرف ایک طرف هی هو ﴿1۔كرنتھیوں7باب32تا35آیت﴾۔ طلاق كے بعد دوباره شادی كرلینا كچھ جگهوں پر تو ممكن هے، مگر اس كا یه مطلب نهیں كه صرف یهی ممكن هے۔

یه نهایت هی افسوناک هے كه طلاق كی شرح مسیحی ایمانداروں میں بے ایمانوں كی نسبت زیاده هے۔ كلامِ مقدس بهت هی سختی سے اور واضع طور پربتاتا هے كه خدا طلاق سے نفرت كر تا هے﴿ملاكی2باب16آیت﴾ اور یه صلح اور معافی ایک ایماندار كی زندگی كی علامت هے ﴿لوقا 11باب4آیت؛ افیسوں4باب32آیت﴾۔ پھر بھی خدا جانتا هے كه طلاق واقع ہو سکتی ہے ۔اگرچہ اس كے بچوں میں بھی ۔ ایک طلاق یافته دوباره شادی شده ایماندار بالكل یه محسوس نه كرے كه خدا اس سے كم پیار كرتا هے، یهاں تک كه اس كی طلاق اور دوباره شادی اس مستثنیٰ اصول﴿متی19باب 9آیت﴾كے دائرے میں آتی هو یا نهیں۔ خدا اكثر گناه سے بھری هوئی نافرمانیوں كو بھی مسیحیوں كی اچھائی كے لئے استعمال كر تاهے۔

بائبل مقدس کے مطابق ہمیں اپنی زندگیوں کو خاندانوں کو خداوند کے خوف میں گزارنا چاہیے تا کہ کبھی بھی نوبت اِس بات تک نہ آئے کیونکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ ۹۰ فیصد طلاق ہمیشہ غصہ کی حالت میں دی جاتی ہیں۔ تو ہمیں اپنی زندگیوں کو صبرو تحمل کے ساتھ گزارنا چاہیے اور جب غصہ آ جائے تو وقتی طور پر ایک دوسرے سے کچھ دیر کے لیے دور چلے جائیں تاکہ دونوں کو ٹھنڈے دماغ سے سوچنے کا موقع ملے اور پھر ہم غور کر سکیں کہ خدا کو طلاق سے نفرت كر تا هے﴿ملاكی2باب16آیت﴾۔ کیونکہ لکھا ہے کہ غصہ تو کروں لیکن گناہ نہ کروں


سوال: كلام مقدس شادي سے پهلے جنسي تعلقات كے بارے ميں كيا كهتا هے؟

جواب:
هر قسم کی بداخلاقی اور حرامکاری کے ساتھ ساتھ شادی سے پهلے جنسی حرامکاری کو کلام مقدس میں سختی سے منع کیا گیا هے ﴿اعمال15باب20آیت؛ رومیوں1باب29آیت؛ 1۔کرنتھیوں5باب1آیت؛ 6باب13اور 18آیت؛ 7باب2آیت؛ 10باب8آیت؛ 2۔کرنتھیوں12باب21آیت؛ گلتیوں5باب19آیت؛ افسیوں5باب3آیت؛ کلسیوں3باب5آیت؛ 1۔تھسلنکیوں4باب3آیت؛ یهوداه7آیت﴾۔

کلام مقدس اِس سوال کا جواب ۱۔کرنتھیوں 7باب2آیت میں بڑے واضع طور پر فرماتا ہے کہ "لیکن حرامکاری کے اندیشہ سے ہر مرد اپنی بیوی اور ہر عورت اپنا شوہر رکھے"۔ اِس آیت میں مقدس پالوس فرماتے ہے کہ شادی ہر ایک جنسی بیماری کا علاج ہے جس سے انسان بہت سارے جنسی گناہوں سے بچ سکتا ہے۔ ۱۔کرنتھیوں 7باب2آیت میں شادی کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے کیونکہ ہر کوئی شخص اپنے آپ پر ضبط نہیں کر سکتا۔ اِس لیے بائبل مقدس شادی پر زور دیتی ہے تا کہ آپ اپنے اخلاقی دائر ے میں رہتے ہوئے گناہ سے بچ سکیں۔

کلام مقدس شادی سے پهلے هر قسم کے پرهیز کا حکم دیتا هے۔ شادی سے پهلے جنسی تعلقات بالکل ایسے هی هیں جیسے زناکاری اور اس جیسے دوسرے گناه، کیونکه ان میں آپ اس شخص سے جنسی تعلقات بنا رهے هوتے هیں جس سے آپ کی شادی نهیں هوئی هوتی۔ جنسی تعلقات صرف اور صرف ایک شوهر اور اسکی بیوی کے درمیان وه جنسی تعلقات هیں جن کی خدا نے باقاعده اجازت دی هوئی هے ﴿عبرانیوں 13باب4آیت﴾۔ بائبل مقدس میں بے شمار ایسے حوالہ جات موجود ہیں جن میں شادی سے پہلے جنسی تعلقات کو گناہ بتا یا گیا ہے۔ اور خدا نے صرف اور صرف جنسی تعلقات جو کہ شوہر اور بیوی کے درمیان ہیں اُن کو جائز قرار دیا ہے۔

شادی سے پهلے جنسی تعلقات کئی وجوهات کی وجه سے بهت عام هوچکے هیں ۔ هم بهت دور نهیں جاتے بلکه اس بات پر نظر کرتے هیں که هم جنسی آسودگی حاصل کرنے یا هم پیدائش کے کام کو جاری رکھنے کے لئے ایسا کرتے هیں۔ هاں جنسی تعلقات آسودگی دیتے هیں پر خدا نے اسے اس لیے بنایا تھا وه چاهتا هے که مرد اور عورت جنسی آسودگی حاصل کریں ﴿مگر شادی شده بندھن میں ره کر﴾۔ تاهم، جنسی تعلقات کا اصل مقصد آسودگی حاصل کرنا نهیں، بلکه نسلِ انسانی کو جاری رکھنا ۔ خدا نهیں چاهتا که هم شادی سے پهلے جنسی تعلقات کے قانون کو توڑیں صرف آسودگی حاصل کرنے کے لئے، مگر همیں ناپسندیده حمل اور ایسے ماں باپ جو اولاد پیدا نه کرنا چاهیں یا اس کے لیے تیار نه هوں۔ سوچیں که هماری دنیا کتنی خوبصورت هو اگر هم جنسی آسودگی کے لیے خداکے بنائے گئے اصولوں پر عمل کریں ۔ کچھ جنسی تعلقات کی وجه سے منتقل هونے والی بیماریاں ، کچھ بغیر شادی کے مائیں، کچھ نه چاهے حمل، کچھ اسقاطِ حمل وغیره۔ پرهیز هی وه اصول هے جو شادی سے پهلے جنسی تعلقات کو روکنے کے لئے همیں ماننے کی ضرورت هے۔ پر هیز زندگیاں بچاتا هے، نومولود بچوں کو بچاتا هے۔ جنسی تعلقات کو ایک مناسب اهمیت دیتا هے، اور سب سے زیاده خدا کو عزت دیتا هے


سوال: كلام مقدس شراب نوشي /مے نوشي كے بارے ميں كيا كهتي هے؟ كيا شراب/مے پينا مسيحيوں كے لئے گناه هے؟

جواب:
كلام مقدس ميں بهت سي آيات شراب سے دور رهنے كے لئے لوگوں کو خبر دار کرتی ھیں۔﴿احبار10باب9آيت؛ گنتي6باب3آيت؛ استثنا14باب26آيت؛ 29باب6آيت؛ قضاۃ13باب4آيت،7آيت،14آيت؛ 1۔سموئيل1باب15آيت؛ امثال 20باب1آيت؛31باب4اور6آيت؛يسعياه5باب11اور22آيت؛24باب9آيت؛28 باب7آيت؛ 29 باب9آيت؛56باب12آيت؛ميكاه 2باب11آيت؛ لوقا 1باب15آيت﴾۔

تاهم، كلام مقدس مسيحيوں كو مے نوشي جيسے انگوری مے اور ايسي دوسری نشه آور چيزيں جن ميں الكوحل موجود هو منع نهيں كرتا۔ در حیقیت، بائبل میں چند حوالاجات اس بات کو مثبت انداز میں پیش کرتے ھیں۔ واعظ9 باب 7 آیت میں یوں مرقوم ھے" خوشدلی سے اپنی مے پی" زبور 104 باب 15 آیت میں لکھا ھے کہ خدا نے انسان کو مے دی " جو انسان کے دل کو خوش کرتی ھے"۔ عاموس 9 باب 14 آیت میں کہا گیا ھے، کہ اپنے تاکستان سے مے پینا خدا کی رحمتوں کے نشانات میں سے ایک ھے۔یسعیاہ 55باب 1آیت میں حوصلہ افزائی کی گئی ھے، کہ"ہاں ،آو دودھ اور مےبے زر اور بے قیمت خریدو ۔۔۔"

خدا الکحول کے بارے میں مسیحیوں کو جو حکم دیتا ھے کہ وہ شراب میں متوالے نہ ھوں۔﴿افسیوں 5 باب 18 آیت﴾۔ كلام مقدس شراب ميں متوالا هونے اور اسكے اثرات سے سختي سے روكتا هے ﴿امثال 23باب29تا 35آيت﴾۔ مسيحيوں كو يه حكم بھي هے كه وه اپنے جسموں كو اپنے اوپر حكومت نه كرنے ديں ﴿1۔كرنتھيوں6باب12آيت؛ 2۔پطرس2باب19آيت﴾۔ كلام مقدس مسيحيوں كو هر اس چيز سے منع كرتا هے كه وه ايسے كام نه كريں جن كه وجه سے دوسرے مسيحي حوصله پا كر ايسے گناه كريں جو انكے ايمان كے مخالف هوں﴿1۔كرنتھيوں8باب9تا13آيت﴾۔ ان اصولوں كي روشني ميں يه بهت مشكل دكھائي ديتا هے كه كوئي مسيحي يه كهے كه وه شراب نوشي خدا كے جلال كے لئے هے ﴿1۔كرنتھيوں10باب31آيت﴾۔

.خداوند يسوع مسيح نے پاني كو مے بنايا۔ يه ديكھا گيا هے كه يسوع اكثر موقعوں پر مے پيتے تھے ﴿يوحنا2باب1تا11آيت؛ متي26باب29آيت﴾۔ نئے عهد نامے كے وقتوں ميں ، پاني بهت زياده صاف ستھرا نه تھا۔ صحت و صفائي كي جديد سهولتوں كے بغير، پاني بيكٹيريا ، وائرسز اور دوسری تمام مضرصحت چيزوں سے بھرا هوا تھا۔ يه سچ هے كه آج كي تيسري دنيا كے ممالک ميں ايسا هي هے۔ اس لئے، لوگ اكثر مے پيتے تھے ﴿يا انگور كا رس﴾ كيونكه اس ميں مضر صحت اثرات بهت كم پائے جاتے تھے۔ 1۔تيمتھس5باب25آيت ميں ، پولوس تيمتھس كو سمجھاتا هے كه پاني پينا بند كر دے ﴿جس كي وجه سے اس كے معدے ميں كچھ مسئله تھا﴾ اور اسكي بجائے مے كو كام ميں لائے۔ يوناني لفظ ميں مے كے لئے كلام مقدس ميں استعمال هوا وه عام زندگي ميں مے كے لئے استعمال هوتا هے۔ ان دنوں ميں ، جو مے بنائي جاتي تھي وه اتني تيز نه تھي مگر جتني آج كے دور ميں هوتي هے۔ يه كهنا غلط هوگا كه وه انگوروں كا رس تھا، مگر يه كهنا بھي غلط هوگا كه يه اس مے كي مانند هے جو هم آج استعمال كرتے هيں۔ پھر، كلام مقدس ميں مسيحيوں كو مے ، انگوروں كے رس اور اسي طرح كي دوسري پينے والي چيزيں جن ميں الكوحل موجود هو سختي سے منع نهيں كرتا۔ الكوحل خود سے هميں گناه سے ناپاک كرتي هے۔ اس كے باوجود نشے ميں دھت هونا اور متوالے هو كر شراب كا عادي هونے سے ايک مسيحي كو سختي سے اجتناب كرنا چاهيے﴿افسيوں5باب18آيت؛ 1۔كرنتھيوں6باب12آيت﴾۔ كلام مقدس ميں كچھ اصول هيں، تاهم، كلام مقدس كے مطابق اس دليل كي حمايت كرنا بهت مشكل هے كه اگر كوئي مسيحي شراب پيتا هے اور كتني بھي مقدار ميں پيتا هے تو كياوه خدا كو خوش كرتا هے


سوال: كلام مقدس جوا كھيلنے كے بارے ميں كيا كهتا هے؟ كيا جوا كھيلنا گناه هے؟

جواب:
جوا کھیلنے کو ایسے بیان کیا جاتا هے "خطرے میں پڑنا زر کو زیاده کرنے کی کوشش میں جو کے قانون کے خلاف هے"۔ کلام مقدس خاص طور پر جوا کھیلنا، شرط لگانا یا قرعه اندازی کوبہت بڑا گناہ نہیں کهتا۔ لیکن کلام مقدس همیں خبردار کرتا هے ، بهرحال زر کی دوستی سے دور رهیں ﴿ 1۔تیمتھس6باب10آیت؛ عبرانیوں13باب5آیت﴾۔ کلام مقدس همار ی حوصله افزائی کرتا هے که "جلدی امیر هونے کی"کوشش سے دور رها جائے ﴿امثال 13باب11آیت؛ 23باب5آیت؛ واعظ 5باب10آیت﴾۔ جوا خاص طور پر اُس شخص کی نظر کا محور ہوتا ہے جو کہ لالچی ہے اور جلد اور آسانی سے امیر هونے کے لیے ورغلایا جاتا ہے۔

جوا کھیلنے میں کیا بُرائی هے؟ جوا کھیلنا ایک مشکل امر ہے کیونکه اگر یه میانه روی سے کھیلا جاتا هے اور صرف اهم موقوں پر ، تو بھی یه زر کا ضیاع هے لیکن یه لازمی طور پر "برائی "نهیں۔ لوگ هر طرح کے کاموں میں پیسے ضائع کرتے هیں۔ جوا کھیلنا کم یا زیاده پیسے کا ضیا ع پھر فلمیں دیکھنا ﴿بهت سارے معاملوں میں ﴾، غیر ضروری مهنگا کھانا کھانایا غیر ضروری اشیاء خریدنا۔ ایک هی وقت میں حقیقت یه هے که دوسری چیزوں میں پیسه ضائع کرنا جوا کھیلنے کو واجب نهیں ٹھرا تا۔ پیسے کو ضائع نهیں کرنا چاهیے۔ زائد پیسے کو مستقبل کی ضروریات اور اچھے کاموں کے لیے بچا کررکھنا چاهیے جوئے کے ذریعے ضائع نهیں کرنا چاهیے۔

کلام مقدس میں جوا کھیلنے کے بارے میں:جبکه کلام مقدس میں جوا کھیلنے کے بارے میں صاف صاف نهیں بتایا گیا، یه "قسمت"اور "موقع"کے کاموں کو بیان کرتا هے۔ مثال کے طور پر احبار کی کتاب میں قرعه کے ذریعے نذر کی قربانی اور سوختنی قربانی کے لیے بروں کو الگ کیا۔ یشوع نے مختلف قبیلوں کی زمین کو تقسم کرنے کے لیے قرعه ڈالا۔ نحمیاه نے یه جاننے کے لیے قرعه ڈالا که کون یروشیلم کی دیواروں کے اندر رهے گا اور کون نهیں رهے گا۔ شاگردوں نے قرعه ڈالا یهوداه کے جگه شاگرد چننے کے لیے۔ امثال 16باب33آیت کهتی هے، "قرعه گود میں ڈالا جاتا هے پر اس کا سارا انتظام خدا وند کی طرف سے هے"۔ کلام مقدس میں کهیں بھی جوا کھیلنا یا موقع کا استعمال تفریح کے لیے نهیں هوا یا خد ا کے پیروکاروں نے اسے عادت کے طور پر پیش کیا هو۔

جوا خانے اور قرعه اندازیاں: جوا خانے تمام طرح کی کاروباری تدبیروں کے ذریعے جوا کھیلنے والوں کو زیاده پیسے بنانے کے لیے ورغلاتے هیں۔ وه انهیں کم قیمت یا مفت شراب فراهم کرتے هیں، جو شرابیوں کی حوصله افزائی کرتی هے اور اسطرح ان کی شعوری فیصله کرنے کی قوت کمزور هو جاتی هے۔ جوا خانے میں هر چیز بڑی هوشیاری سے زیاده پیسے بٹورنے کے لیے تیار کی هوتی هے اور واپسی میں کچھ نهیں ملتا، سوائے ناپائیدار اور کھوکھلی خوشی کے علاوه۔ قرعه اندازیوں کے ذریعے ایسی چیزوں کو بنا کر پیش کیا جاتا هے جیسے تعلیم کے لیے چنده جمع کرنا یا سماجی پروگرام۔ بهرحال تحقیق سے پته چلا هے که قرعه اندازی میں شامل هونے والے اکثر وه لوگ هوتے هیں جو قرعه اندازی کی ٹکٹ کے لیے پیسے خرچ کرسکتے هوں۔ "جلد امیر هونے"کا سبز باغ دیکھنا ان لوگ کے لیے بهت بڑا اشتعال هے جو بڑی مایوسی کا شکار هیں۔ جیتنے کے مواقع بهت کم هوتے هیں، جس کے نتیجے میں بهت سارے لوگ اپنی زندگیاں تباه کردیتے هیں۔

کیوں قرعه اندازی کھیلنا خدا کو خوش نهیں کرتا:بهت سارے لوگ یه دعویٰ کرتے هیں که وه قرعه اندازی کھیل رهے هیں یا جوا کھیل رهے هیں اس سے وه گرجا گھر کو چنده بھی دیتے هیں یا کچھ اور اچھے کام۔ جبکه یه اچھا مقصد بھی هو سکتا هے، حقیقت یه هے که کچھ جوا کھیلنے والے جیت کی رقم کو اچھے کاموں پر صرف کرتے هیں۔ تحقیق کرنے سے پته چلتا هے که بهت سے لوگ جو قرعه اندازی میں جیتتے هیں وه بهت هی بُرے مالی حالات کا شکار هوتے هیں اور قرعه اندازی کے انعام کو جیتنے کے کچھ سالوں بعد وه ایسے هی هوجاتے هیں جیسے وه پهلے تھے۔ کچھ اگر کوئی هے، حقیقت میں پیسے کو اچھے کاموں کے لیے دیتا هے۔ مزید، خدا کو همارا پیسے نهیں چاهیے اپنے کام کو دنیا میں سرانجام دینے کے لیے ۔ امثال 13باب11آیت کهتی هے، "جو دولت بطالت سے حاصل کی جائے کم هو جائے گی۔ لیکن محنت سے جمع کرنے والے کی دولت بڑھتی رهے گی"۔ خدا اقتدارِ اعلیٰ هے اور وه کلیسیا کی ضرورت کے لیے اچھے اور ایماندار ذریعے سے مهیا کرتا هے ۔ کیا تمجید هوگی اگر اس کو ایسا پیسه دیا جائے جو منشیات سے کمایا هو وه پیسه جوبینک سے چوری کیا گیا هو؟ خدا کو کوئی ضرورت نهیں یا وه ایسا پیسه چاهتا هو جو "چُرایا "گیا هو غریبوں سے جلد امیر هونے کے لالچ میں۔

پهلا تیمتھس6باب10آیت همیں بتاتی هے، "کیونکه زر کی دوستی هر قسم کی برائی کی ایک جڑ هے جس کی آرزو میں بعض نے ایمان سے گمراه هو گر اپنے دلوں کو طرح طرح کے غموں سے چھلنی کر لیا"۔عبرانیوں13باب5آیت اعلان کرتی هے، "زر کی دوستی سے خالی رهو اور جو تمهارے پاس هے اسی پر قناعت کروکیونکه اس نے خود فرمایا هے که میں تجھ سے هر گز دستبردار نه هونگا اور کبھی تجھ نا چھوڑنگا"۔ متی 6باب24آیت اعلان کرتی هے، "کوئی آدمی دو مالکوں کی خدمت نهیں کرسکتا کیونکه یا تو ایک سے عدوات رکھے گا اور دوسرے سے محبت ۔ یا ایک سے ملا رهے گا اور دوسرے کو ناچیز جانے گا۔ تم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نهیں کرسکتے"۔


سوال: كلامِ مقدس كے مطابق جسم پر نقوش /جسم كو چھيدوانے كے بارے ميں كيا كهتا هے؟

جواب:
پرانے عهدنامے کے قانون میں اسرائیلیوں کو حکم دیا گیا، "تم مُردوں کے سبب سے اپنے جسم کو زخمی نه کرنا اور نه اپنے اوپر کچھ گُدوانا۔ میں خداوند هوں"﴿احبار19باب28آیت﴾۔ اگرچه، آج کے ایماندار پرانے عهدنامے کے قانون کے تابع نهیں هیں﴿رومیوں10باب4آیت؛ گلتیوں3باب23تا25آیت؛ افسیوں2باب15آیت﴾، حقیقت میں وهاں پر جسم پر نقوش بنوانے کے خلاف حکم تھا همارے لئے سوال کی وجه بنتا هے۔ نیا عهدنامے کچھ نهیں کهتا که ایماندار کو جسم پر نقوش بنوانے چاهیے یا نهیں۔

جسم پر نقوش بنوانے یا چھیدوانے کے تعلق سے ، ایک اچھے امتحان سے معلوم کیا جاسکتا هے که هم ایمانداری سے ، اچھے ایمان سے، خدا سے کهیں که وه آپ کو برکت دے اور آپ کی مخصوص حرکات کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کرے۔ "پس تم کھاؤیا پیو یا جو کچھ کرو سب خدا کے جلال کے لئے کرو"﴿1۔کرنتھیوں10باب31آیت﴾۔ نیا عہد نامہ جسم کو چھیدوانے اور نقوش بنوانے کے بارے میں حکم نهیں دیتا ، لیکن یه همیں کوئی معقول وجه بھی نهیں دیتا هے که هم جسم پر نقوش بنوانے یا جسم چھیدوانے سے خدا پر ایمان رکھیں۔

ایک اور مسئله جو زیر غور هے وه هے شرم وحیا۔ کلام مقدس همیں هدایت دیتا هے که هم حیا دار لباس زیب تن کریں ﴿1۔تیمتھس2باب9آیت﴾۔ حیادار لباس پهننے کی ایک هی وجه سب کچھ واضع کر دیتی هے که کپڑوں کے ذریعے پورے طور پر ڈھکا هونا چاهیے۔ بهرحال، حیادار لباس پهننے کا یه مطلب نهیں که اپنے آپ کو توجه مرکوز کروانے کے لئے بنایا سنوارا جائے۔ وه لوگ جو اپنے آپ کو حیادار لباس سے سنوارتے هیں وه اپنے آپ پر توجه مرکوز نهیں کرواتے۔ جسم پر نقوش بنوانا اور جسم کو چھیدوانا لازمی طور پر اپنی طرف توجه مرکوز کروانے کے لئے هوتا هے۔ اسطرح، جسم پر نقوش بنوانا اور جسم چھیدوانا با حیا طریقه نهیں۔

اس مسئله پر نوشتوں کے اهم اصول جن میں کلامِ مقدس خاص طور پر نهیں بتاتا که اگر یهاں شک کی کوئی گنجائش هے جس سے خدا خوش هوتا هے، تو پھر یه بهتر هے که ایسی حرکات کی طرف متوجه نه هوا جائے۔ "مگر جو کوئی کسی چیز میں شبه رکھتا هے اگر اس کو کھائے تو مجرم ٹھهرتا هے اس واسطے کے وه اعتقاد سے نهیں کھاتا اور جو کچھ اعتقاد سے نهیں وه گناه هے"﴿رومیوں14باب23آیت﴾۔ همیں یاد رکھنے کے ضرور ت هے که همارے جسم مزید برآں هماری روحوں کو خریدا گیا هے ان کا خدا کے ساتھ تعلق هے۔ اگرچه 1۔کرنتھیوں6باب19تا20آیت برائے راست جسم پر نقوش بنوانے یا جسم کو چھیدوانے کو بیان نهیں کرتی، پر همیں ایک اصول دیتی هے ، "کیا تم نهیں جانتے که تمهارا بدن روح القدس کا مقدس هے جو تم میں بسا هوا هے اور تم کو خدا کی طرف سے ملا هے ؟ اور تم اپنے نهیں۔ کیونکه قیمت سے خریدے گئے هو۔ پس اپنے بدن سے خدا کا جلال ظاهر کرو"۔ یه عظیم سچ همیں حقیقی طرز عمل بتاتا هے که هم نے کیا کرنا هے اور هم نے اپنے جسموں کے ساتھ کهاں جانا هے اگر همارے جسم خدا کے ساتھ تعلق رکھتے هیں توهمیں یه یقینی طور پر جاننا چاهیے که همارے پاس اسکی واضع "اجازت"هے که اس سے پهلے که هم"اپنے جسم پر نشان بنوائیں"نقوش کے ساتھ یه جسم کو چھیدوانے سے۔


سوال: كيا عورتوں كو پادري بن كر/تبلغي طور پر خدمت كرني چاهيے؟

جواب:
یهاں آج کی کلیسیا میں شاید اس سے زیاده بحث کسی اور مسئلے پر نهیں هوتی هوگی کے عورتوں کو کلیسیا میں بطور تبلغی بن کر خدمت کرنی چاهیے۔ نتیجے کے طور پر، یه بهت ضروری هے که اس مسئلے کو صرف اس لئے نه دیکھاجائے که مرد وں کا مقابلہ عورتو ں کے ساتھ کیا جا رہا ہے ۔ یهاں عورتیں هیں جو یقین رکھتی هیں که عورتوں کو پادریوں کی طرح خدمت نهیں کرنی چاهیے اور کلام مقدس کلیسیا میں عورتوں کی تبلغ پر پابندی لگاتا هے اور یهاں مرد هیں جو یقین رکھتے هیں که عورتیں کلیسیا میں تبلغیوں کی طرح خدمت کرسکتی هیں۔ یه کوئی برتری یا تفریق کا مسئله نهیں۔ یه کلام مقدس کے مطابق تشریح کامسئله هے۔

پهلاتیمتھس2باب11تا12آیت بیان کرتی هے ، "عورت کو چپ چاپ کمال تابعداری سے سیکھنا چاهیے۔ اور میں اجازت نهیں دیتا که عورت سکھائے یا مرد پر حکم چلائے بلکه چپ چاپ رهے"۔ کلیسیا میں خدا مردوں اور عورتوں کے لئے مختلف قانون مقرر کرتا هے ۔ اسی لئے بنی نوع انسان کو پیدا کیا گیا﴿1۔تیمتھس2باب13آیت﴾اور جس رسته سے گناه دنیا میں داخل هوا﴿2۔تیمتھس2باب14آیت﴾۔ خدا پولوس رسول کے نوشتوں کے ذریعے عورتوں کے مردوں کو روحانی تعلیم دینے پر پابندی لگاتا هے۔ یه عورتوں کو پادریوں کی طرح خدمت کرنے سے باز رکھتا هے، جس میں یقینی طور پر تبلغ بھی شامل هے، تعلیم دینا اور مردوں پر روحانی تعلیم دینے کا اختیار بھی۔

یهاں پر عورتوں کی کلیسیا میں خدمت بطور پادریوں کی طرح خدمت کرنے میں بهت سے "اعتراض"هیں۔ ایک خاص بات یه هے که پولوس عورتوں کے تعلیم دینے پر پابندی لگاتا هے کیونکه پهلی صدی میں عورتیں خاص طور پر غیر تعلیم یافته تھیں۔ بهر حال، 1تیمتھس2باب11تا14آیت میں کهیں بھی ان کے تعلیمی معیار کو بیان نهیں کیا گیا، اگر تعلیم کلیسیا میں خدمت کے لئے قابلیت تھی تو یسوع کے زیاده ترشاگر د اس معیار پر پورے نه اترتے۔ دوسرا خاص اعتراض یه که پولوس نے صرف افسیوں کی عورتوں کو تعلیم دینے سے روکا﴿1۔تیمتھس کاخط جو تیمتھس کو لکھا گیا جو اس وقت افسیوں کی کلیسیا میں پادری تھا﴾۔ افسس کا شهر ارتمس کی دیوی کے مندر کے لئے مشهور تھاایک جھوٹی یونانی /رومی دیوی۔ عورتوں کو ارتمس کی دیوی کی پرستش کرنے کا اختیار تھا۔ بهرحال، 1۔تیمتھس کے خط میں کهیں بھی ارتمس کی دیوی کو بیان کیا جاتا، نه تو پولوس بیان کرتا هے که ارتمس کی دیوی کی پرستش کی وجه سے 1۔تیمتھس 2باب11تا12آیت میں پابندیاں هیں۔

ایک تیسرا خاص اعتراض یه که پولوس صرف شوهروں اور بیویوں کا حواله دے رها هے، عام مردوں اور عورتوں کونهیں۔ یونانی الفاظ میں1۔تیمتھس 2باب11تا14آیت میں شوهروں اور بیویوں کا حواله دیا جاتا هے۔ بهرحال، الفاظ کا بنیادی مطلب هے مرد اور عورتیں۔ مزید، ایسے هی یونانی الفاظ آیت 8تا10میں استعمال هوتے هیں۔ کیا صرف شوهر هی بغیر غصه اور تکرار کے پاک هاتھوں کو اُٹھا کر دعا کیا کریں﴿آیت8﴾؟ کیا صرف عورتیں هی حیادار لباس پهنیں، اچھے اعمال رکھیں، اور خدا کی پرستش کریں﴿آیت9تا10﴾؟یقینا نهیں۔ 8تا10آیت واضع طور پر مردوں اور عورتوںکا حواله دیتی هیں، صرف شوهروں اور بیویوں کا حواله نهیں دیتیں۔ یهاں سیاق و سباق میں کچھ بھی ایسا نهیں هے جو یه ظاهر کرتا هے که جو شوهروں اور بیویوں کو پابند کرے آیت11تا14میں۔

اس کے علاوه ایک اور اعتراض جو خواتین پادری اور تبلغ کرنے والیوں کے رشتے کی تشریح کرتا هے، مریم، دبوره،خُلده ، پرسکه، فیبے وغیره۔ عورتوں جو کلامِ مقدس کے مطابق پیشوائی کرتی تھیں۔ یه اعتراض ناکام هوجاتا هے جب معنی خیز عنصر کو جانا جائے۔ دبوره کے تعلق سے، تیره مرد منصفوں میں وه اکیلی عورت منصف تھی۔ خُلده کے تعلق سے، وه اکیلی نبیه تھی درجنوں مرد نبیوں کے درمیان جو کلامِ مقدس میں درج هیں۔ مریم کا پیشوائی کا تعلق صرف اس لئے تھا که وه موسیٰ اور هارون کی بهن تھی۔ عتلیاه اور ایز بل ٹھوس مثالیں جو اپنے آپ کو دیوی کی طرح منواتی تھیں۔

اعمال کی کتاب 18باب میں، پرسکله اور اکوله کو مسیح کی وفادار خدمت کرنے والیوں کی طرح پیش کیا گیا هے۔ پرسکله کا نام پهلے بتایا گیا هے غالبااس کا مطلب یه هے که وه خدمت میں اپنے شوهر سے زیاده نمایاں تھی۔ بهرحال، پرسکله نے کهیں بھی یه بیان نهیں کیا که وه کلیسیائی خدمت سرانجام دے رهی هے یه 1تیمتھس 2باب11تا14آیت کے الٹ هے۔ پرسکله اور اکوله اپلوس کو اپنے گھر لے کر آئیں اور وه دونوں اسے تعلیم دینے لگیں، خدا کے کلام کو بهت اچھے طریقے سے اسے بیان کیا ﴿اعمال18باب26آیت﴾۔

رومیوں16باب1آیت میں فیبے کو "پادری "سمجھا جائے بجائے اسکے کے "خادمه"۔ اس کا یه مطلب نهیں که فیبے کلیسیا میں تعلیم دیتی تھی۔ "تعلیم کے قابل "بزرگوں کی اهلیت دی گئی، لیکن پادریوں کی نهیں ﴿1۔تیمتھس 3باب1تا13آیت؛ ططس1باب6تا9آیت﴾۔ ایلڈر/پشپ/ڈیکن کو ایسے بیان کیا گیا هے جیسے "ایک بیوی کا شوهر"، "ایک آدمی جس کے بچے یقین رکھتے هوں"، اور"آدمی جو عزت کے قابل هو"۔ مزید برآں، 1۔تیمتھس 3باب1تا13آیت میں اور ططس 1باب6تا9آیت میں مردانه اسموں کا خاص استعمال کیا گیا هے جوحواله دینے کے لئے ایلڈر/پشپ/ڈیکن۔

پهلا تیمتھس2باب11تا14آیت کی وضع اس "وجه " کو مکمل طور پر صاف بتاتی هے۔ آیت13شروع هوتی هے"لئے"اور"وجه "سے شروع هوتی هے که پولوس نے آیت11تا12میں کیا بیان کیا هے۔ کیوں عورت تعلیم نهیں دے سکتی یا مرد کے اوپر اخیتار نهیں رکھ سکتی؟ کیونکه "پهلے آدم بنایا گیااسکے بعد حوا۔ اور آدم نے فریب نهیں کھایا بلکه عورت فریب کھا کر گناه میں پڑ گئی"۔ یهی وجه هے۔ خدا نے پهلے آدم کو بنایا اور پھر حوا کو جو آدم کی "مددگار"تھی۔ تخلیق کی یه عالمگیر ترتیب انسانی معاشرے میں خاندانوں پر لاگو هوتی هے ﴿افسیوں5باب22تا23آیت﴾ اور کلیسیا پر۔ یه حقیقت جس سے حوا نے فریب کھایا ایک اور وجه هے جس سے عورتیں پادریوں کی طرح خدمت نهیں کرسکتیں یا مردوں پر روحانی اختیار نهیں رکھ سکتیں۔ یه لوگوں کو اس بات پر یقین کرنے کے لئے آماده کرتا هے که عورتیں تعلیم نهیں دے سکتیں کیونکه وه آسانی سے گناه میں گر سکتی هیں۔ اس پر بات کی جاسکتی هے ، لیکن اگر عورتیں بهت آسانی سے گناه میں پڑ جاتی هیں تو کیوں انهیں بچوں کو تعلیم دینے کی اجازت دی گئی ﴿جو آسانی سے گناه میں پڑ جاتے هیں﴾ اور دوسری عورتوں کو ﴿جو اور بھی زیاده آسانی سے گناه میں پڑ سکتی هیں﴾؟ یه وه نهیں جو الفاظ میں بیان کیا گیا هے۔ عورتیں تعلیم نهیں دے سکتیں یا مردوں پر روحانی اختیار نهیں رکھ سکتیں کیونکه حوا گناه میں گر گئی تھی۔ جس کے نتیجے میں خدا نے مردوں کو ابتدائی کلیسیا میں تعلیم کا اختیار دیا۔

عورتیں سبقت لے جاتی هیں ان تحفوں میں جسے مهمان نوازی، شفقت، سیکھانا اور مدد کرنے میں۔ بهت ساری کلیسیاؤں کی خدمت کا انحصار عورتوں پر هے۔ کلیسیا میں جو عورتیں دعا یا نبوت کرتی هیں ان پر پابندی نهیں هے ﴿1۔کرنتھیوں11باب5آیت﴾، صرف مردوں پر روحانی تعلیم کا اختیار نهیں رکھتیں۔ کلامِ مقدس میں کهیں بھی عورتوں کو پاک روح کے تحفوں کو استعمال کرنے کی ممانعت نهیں۔﴿1۔کرنتھیوں12باب﴾۔ عورتیں ویسے هی جس طرح سے مرد دوسروں کو تربیت دینے کے لئے بلائے جاتے هیں پاک روح کے پھلوں کو ظاهر کرتی هیں ﴿گلتیوں5باب22تا23آیت﴾، اورکھوئے هوؤں کے لئے خوشخبری کا اعلان کرنا ﴿متی28باب18تا20آیت؛ اعمال1باب8آیت؛ 1۔پطرس3باب15آیت﴾۔

خدا نے صرف مردوں کو مقرر کیا که وه کلیسیا میں روحانی تعلیم کا اختیار رکھ کر خدمت کریں۔ یه اس لئے نهیں که مرد اچھے استاد هوتے هیں، یا کیونکه عورتیں کمتر یا کم ذهین هوتی هیں﴿جو که یه مسئله نهیں﴾۔ ساده الفاظ میں یه که خدا نے کلیسیا کو اس طرح کام کرنے کے لئے مقرر کیا۔ مرد روحانی پیشوائی کے لئے مقرر کئے گئے هیں۔ اپنی زندگیوں میں اپنے الفاظ کے ذریعے۔ عورتوں کو کم اختیار کے کردار میں پیش کیا گیا هے۔ عورتوں کی حوصله افزائی کی گئی هے که وه دوسری عورتوں کو تعلیم دیں﴿ططس2باب3تا5آیت﴾۔ کلامِ مقدس عورتوں کے بچوں کو تعلیم دینے سے منع نهیں کرتا۔ صرف ایک چیز سے عورتوں کو منع کیا گیا هے که وه نه تو مردوں کو تعلیم دینے یا مردوں پر روحانی اختیار رکھنے سے۔ اس طرح منطقی طور پر اس میں عورتوں کا پادریوں کی طرح کام کرنا /تبلغ کرنا بھی شامل هے۔ یه کسی بھی طرح سے عورتوں کو کم اهمیت نهیں دیتا، جس کا مطلب هے مگر انکو کلیسیا میں خدمت کے لئے مقرر کرتا هے که اس عهد پر نظر کریں که کیسے خدا نے انهیں اپنی برکتوں سے نوازاهے


سوال: غير زبانوں كي نعمت كيا هے؟ کیا غير زبان كي نعمت آج كي دنيا كے ليے هے؟

جواب:
غیر زبان میں بولنا پهلی دفعه اس وقت هوا جب پنتکوست کے دن اعمال2باب1تا4آیت۔ شاگرد باهر نکلے اور هجوم سے کلام مقدس کو بیان کیا، وه ان سے ان کی اپنی هی زبان میں بات کررهے تھے، "مگر اپنی اپنی زبان میں ان سے خدا کے بڑے بڑے کاموں کا بیان سنتے هیں"﴿اعمال2باب11آیت﴾۔ یونانی لفظ جس کا ترجمه زبانیں کیا گیا هے اس کا ادبی مطلب بولیاں هے۔ اس لیے غیر زبان کی نعمت وه زبان هے جس کو آدمی نه جان سکے اور وهی جانے جو اس زبان کو سمجھ سکتا هو۔ 1۔کرنتھیوں12اور14باب میں پولوس معجزانه نعمتوں کے بارے میں بیان کرتا هے، وه بتاتا هے که ، "پس اے بھائیوں اگر میں تمهارے پاس آکر بیگانه زبانوں میں باتیں کروں اور مکاشفه یا علم یا نبوت یا تعلیم کی باتیں تم سے نه کهوں توتم کو مجھ سے کیا فائده هو؟ ﴿1۔کرنتھیوں14باب6آیت﴾۔ پولوس رسول کے مطابق اور وعدے کے ساتھ جو زبانیں اعمال میں بیان کی گئی هیں ، غیرزبان میں بولنا اس ایک شخص کے لیے تو اچھا هے جو مرد یا عورت اس پیغام کو سمجھتا هے مگر دوسرے سب کے لیے یه بے فائده هے۔ اس وقت تک جب تک کوئی دوسرا اس کا ترجمه نه کرے۔

ایک شخص جس کو غیر زبانوں کا ترجمه کرنے کی نعمت ملی هے ﴿1۔کرنتھیوں12باب30آیت﴾سمجھ سکتا هے که غیر زبان بولنے والا شخص کیابول رها هے جبکه وه مرد یا عورت جو اس زبان کو بول رهی هے نهیں جانتی که کیا بول رها هے یا رهی هے۔ غیر زبان کا ترجمه کرنے والااس وقت غیر زبان بولنے والے کا پیغام دوسروں تک پهنچا رها هوتا هے تاکه سب سمجھ سکیں۔ "اس سبب سے جو بیگانه زبان میں باتیں کرتا هے وه دعا کرے که ترجمه بھی کر سکے ﴿1۔کرنتھیوں14باب13آیت﴾۔ پولوس غیرزبانوں کے بارے میں اس زبردست نتیجے پر پهنچا، "لیکن کلیسیا میں بیگانه زبان میں دس هزار باتیں کهنے سے مجھے یه زیاده پسند هے که اوروں کی تعلیم کے لیے پانچ هی باتیں عقل سے کهوں"﴿1۔کرنتھیوں14باب19آیت﴾۔

کیا غیر زبان کی نعمت آج کے دور کے لیے هے؟ 1۔کرنتھیوں13باب8آیت بتاتی هے که زبانیں جاتی رهیں گی، اگرچہ یه ناقص جاتا رهے گا جب "کامل"آئیگا 1۔کرنتھیوں13باب10آیت۔ کچھ نقطوں میں یه فرق زبانوں ، نبوت، اور حکمت "ختم هو جائیگی"، زبانوں کے ساتھ "ختم هو جائیں گی"یه ایک ثبوت هے که یه زبان جب کامل آئیگا تو جاتی رهیں گی۔ هوسکتا هے که یه واضع طور پر اس آیت سے بیان نه هوئی هو۔ پھر بھی کچھ آیات همیں راه دکھاتی هیں جیسے یسعیاه 28باب11آیت اور یوایل2باب28تا29آیت ثبوت هے که غیر زبان خدا کانشان هے آخیر زمانے کے لئے۔ 1۔کرنتھیوں14باب22آیت بیان کرتی هے که غیرزبان بے ایمانوں کے لئے ایک نشان هے۔ اس بیان کے مطابق غیر زبان کی نعمت یهودیوں کے لیے ایک تنبیه هے که خدا اسرائیل کا انصاف کرنے کے لیے آنے والا هے۔ جنهوں نے یسوع مسیح کو نجات دهنده ماننے سے انکار کیا تھا۔ اسی لیے جب خدا نے اسرائیل کو جانچااور﴿70اے ڈی میں جب رومیوں کے ذریعے یروشلیم کو تباه کیا ﴾تو غیر زبان کی نعمت نے اس کے اس مقصد کو پھر پورا نه کیا ۔ جبکه یه بھی هوسکتا هے، غیرزبان کا ابتدائی مقصد پورا هو گیا هو مگر اسے موقوف نه کیا گیا هو۔ مگر کلام مقدس اس بات کی حمایت نهیں کرتا که غیرزبان کی نعمت کو موقوف کر دیا گیا هے۔

ایک هی وقت میں اگر غیر زبانیں آج کی کلیسیا میں بولی جاتی هیں۔ یه کلام مقدس کے وعده کے ذریعے هو رها هے۔ یه زبان حقیقی اور حکمت سے پُر هے ﴿1۔کرنتھیوں14باب10آیت﴾۔ اس کا مقصد خدا کے کلام کو اس آدمی تک پهنچنا جو دوسری زبان کو جانتا هو ﴿اعمال2باب6تا12آیت﴾۔ یه حکم اس عهد کے ساتھ هے که جو خدا پولوس رسول کی معرفت دیتا هے، "اگر بیگانه زبان میں باتیں کرنا هو تو دو دو یا زیاده سے زیاده تین تین شخص باری باری سے بولیں اور ایک شخص ترجمه کرے۔ اور اگر کوئی ترجمه کرنے والا نه هو تو بیگانه زبان بولنے والا کلیسیا میں چپکا رهے اور اپنے دل سے اور خدا سے باتیں کرے"﴿1۔کرنتھیوں14باب27تا28آیت﴾۔ 1۔کرنتھیوں14باب33آیت میں یه بھی لکھا هے ، "کیونکه خدا ابتری کا نهیں بلکه امن کا بانی هے۔ جیسا مقدسوں کی سب کلیسیاؤں میں هے "۔

خدا یقینا غیرزبان کی نعمت اس مرد یا عورت کو دیتا هے جو کسی غیر زبان بولنے والے شخص سے مخاطب هوا چاهے ۔ پاک روح حاکم اعلیٰ هے جو روحانی نعمتوں کو بانٹتا هے ﴿1۔کرنتھیوں12باب11آیت﴾۔ صرف یه تصور کریں که یه مبلغین کتنے فائده مند هو سکتے هیں ۔ اگر جو کسی زبان سیکھانے والے سکول میں نهیں گئے اور یه بڑی هی روانی سے لوگوں سے ان کی اپنی هی زبان میں بات کرتے هیں۔ تاهم خدا ایسا کرنا نهیں چاهتا۔ زبانیں اسی طرح نهیں بولی جاتیں جیسے که یه نئے عهد نامے میں بولی جاتیں اس کے باوجود درحقیقت یه ایک بهت هی کامیاب اور مفید هے۔ ایمانداروں کی زیاده اکثریت جو غیرزبان کی نعمت کو استعمال کرتے هیں ایسا نهیں کرتے جیسا که کلام مقدس میں اوپر بیان کیا گیا هے ۔ یه حقیقت همیں اس نتیجے تک پهنچاتی هے که غیرزبانوں کی نعمت موقوف هوگئی هے، یا کم از کم یه خدا کے منصوبے میں آج کی کلیسیاؤں میں بهت کم پائی جاتیں هیں۔

جو لوگ یه سمجھتے هیں که غیر زبان کی نعمت ایک "دعائیه زبان"هے انکے اپنے اخلاقی اقدار کو بهتر بنانے کے لیے، وه اپنے اس تصور کو 1۔کرنتھیوں14باب4آیت اور14باب28آیت، "جو بیگانه زبان میں باتیں کرتا هے وه اپنی ترقی کرتا هے اور جو نبوت کرتا هے وه کلیسیا کی ترقی کرتا هے"۔ باب14میں پولوس رسول اس بات پر زور دیتا هے که غیر زبان کا ترجمه هو نا ضروری هے ، دیکھیں 14باب5تا12آیت۔ پولوس رسول آیت 4میں کیا کهتا هے ، "اگر تم غیر زبان بغیر ترجمه کے بولتے هو تم کچھ نهیں کرتے سوائے اس کے لیے که اپنے آپ کو ٹھیک کرتے هو۔ اپنے آپ کو دوسروں سے زیاده روحانی ظاهر کرتے هو۔ اگر تم غیر زبان میں بولتے هو اور ساتھ ترجمه بھی کرتے هو تو سب کے لیے بھلائی کرتے هو"۔ نیا عهد نامه کهیں بھی اس بات کی هدایت نهیں کرتا که آپ دعا میں غیر زبان کا استعمال کریں۔ نیا عهد نامه کهیں بھی غیر زبان کو "دعائیه زبان"نهیں بتاتا یا خاص طور پر یه نهیں بتاتا که غیر زبان "دعائیه زبان"هے۔ مزید یه که اگر غیر زبان دعائیه زبان هے تو یه صرف خود هی کی بهتری هے، کیا یه ناانصافی نهیں ان سے جن کے پاس غیر زبان کی نعمت نهیں اور جو خود کو بهتربنانے کے قابل نهیں هوئے؟ 1کرنتھیوں12باب29تا30آیت واضع طور پر یه بتاتی هے که هر ایک کو غیر زبان کی نعمت نهیں ملی


سوال: غيرقوم ميں شادي كے بارے ميں كلامِ مقدس كيا كهتا هے؟

جواب:
پرانے عهدنامے میں اسرائیلوں کو حکم دیا گیا که وه غیرقوم میں شادی نه کریں﴿استثناء 7باب3تا4آیت﴾۔ اسرائیلوں کو یه حکم دینے کی وجه یه تھی که اگر وه ان قوموں کے ساتھ شادی کرتے هیں جو بتوں کے بچاری، آگ کو پوجنے والے یا کافر هیںتووه غلط رستے پر چلے جائیں گے۔ نئے عهدنامے میں بھی همیں ایسا هی قانون ملتا هے، مگر ایک مختلف انداز سے: "بے ایمانوں کے ساتھ ناهموار جُوئے میں نه جُتوکیونکه راستبازی اور بے دینی میں کیا میل جول؟ یا روشنی اور تاریکی میں کیا شراکت؟ "﴿2۔کرنتھیوں6باب14آیت﴾۔ ایسے جیسے اسرائیلی ﴿ایماندار جو ایک سچے خدا کو مانتے﴾ان کو حکم دیا گیا تھا که بے ایمانوں کے ساتھ شادی نهیں کرنی، پس مسیحیوں ﴿ایماندار جو ایک سچے خدا کو مانتے﴾کو حکم ملا هے کے وه بے ایمانوں میں شادی نه کریں۔ اس سوال کا جواب یه هے که نهیں، کلامِ مقدس یه نهیں کهتا که دوسری قوموں میں شادی غلط هے۔

ایک انسان مرد یا عورت کا اسکے کردار کی وجه سے پته چلتا هے، اسکی جلد کے رنگ کی وجه سے نهیں۔ هم سب کو محتاط هونا چاهیے کے کسی کی طرفداری نه کریں، نه تو دوسروں کے ساتھ نسلی تعصب﴿یعقوب2باب1تا10آیت، خاص طور پر 1اور 9آیت دیکھیں﴾۔ ایک مسیحی مرد یا عورت کا اپنے جیون ساتھی چننے کا معیار یه هونا چاهیے که وه ایسے ساتھی کی تلاش کرے جو مسیحی هو ﴿2۔کرنتھیوں6باب14آیت﴾، وه جو یسوع مسیح پر ایمان لانے کی وجه سے دوباره پیدا هوا هو﴿یوحنا3باب3تا5آیت﴾۔ مسیح پر ایمان، جلد کے رنگ کی وجه سے نهیں، کلامِ مقدس کے مطابق شریک حیات کا انتخاب کرنا۔ غیر قوم میں شادی کرنا صحیح یا غلط کا مسئله نهیں، لیکن حکمت، فهم اور دعا۔

صرف ایک وجه سے غیر قوم میں بڑی احتیاط سے شادی کی جاتی هے کیونکه مختلف نسلوں سے ملے هوئے جوڑوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا هے کیونکه ان کو قبول کرنا دوسروں کے لئے مشکل هوگا۔ بهت سے غیر قوم شادی شده جوڑوں سے امتیازی سلوک کیا جاتا هے اور ان کی تضحیک کی جاتی هے، کئی بار تو ان کے اپنے خاندانوں میں سے۔ کچھ غیرقوم میں شادی شده جوڑوں کو مشکلات کا سامنا اس وقت هوتا هے جب انکے بچوں کا رنگ انکے والدین یا بهن بھائیوں سے فرق هوتا هے۔ غیرقوم میں شادی شده جوڑوں کو ان چیزوں کو مدِ نظر رکھنے کی ضرورت هے اور ان کو اس کے لئے تیار رهنا چاهیے، که انهیں شادی کرنی چاهیے۔ پھر، اگرچے، صرف کلامِ مقدس کی پابندی اس وقت هے که مسیحی جس سے شادی کرنے جا رها هے کیا وه دوسرا شخص مسیح کے بدن کا حصه هے


سوال: اپني موت اور جي اُٹھنے كے درميانی تين دنوں ميں يسوع كهاں تھا؟

جواب:
1 پطرس 3باب18تا19آیت بیان کرتی هے، "اس لئے که مسیح نے بھی یعنی راستباز نے ناراستوں کے لئے گناهوں کے باعث ایک بار دکھ اُٹھایا تاکه هم کو خدا کے پاس پهنچائے۔ وه جسم کے اعتبار سے تو مارا گیا لیکن روح کے اعتبار سے زنده کیا گیا۔ اسی میں اس نے جاکر ان قیدی روحوں میں منادی کی"۔

فقره "روح کے اعتبار سے18 "آیت میں کی بناوٹ بالکل اس فقر ے کے مطابق جیسے ، "جسم کے اعتبار سے"۔ اس لئے ایک هی وقت میں لفظ "روح"کا تعلق لفظ "جسم"سے ملانانهایت مناسب هے ۔ جسم اور روح مسیح کے جسم اور روح هیں۔ لفظ "روحانی اعتبار سے زنده کرنا"، اس حقیقت کی طرف توجه دلاتا هے که مسیح جس نے گناهوں کو برداشت کیا اور موت نے اس کی جسمانی روح کو باپ سے جدا کردیا ﴿متی 27باب46آیت﴾۔ جسم اور روح کے درمیان فرق هے، جیسے متی 27باب41آیت اور رومیوں1باب3تا4آیت، اور نه کے مسیح کے جسم اور پاک روح کے درمیان۔ جب مسیح کی گناه کے عوض کفارہ مکمل ہو گیا ، اس کے روحانی شراکت پھر سے بحال هو گئی جو ٹوٹ چکی تھی۔

1پطرس 3باب18تا22آیت بیان کرتیں هیں ایک اهم تعلق کو جو مسیح کی تکالیف ﴿آیت 18﴾اور اس کے جلال ﴿آیت 22﴾کے درمیان هے۔ صرف پطرس هی اس بارے میں ٹھیک معلومات دیتا هے که ان دونوں واقعات میں کیا هوا تھا۔ لفظ "منادی"آیت19میں کوئی عام لفظ نهیں جو نئے عهد نامے میں انجیل کی خوشخبری کے لئے استعمال هو ا هے۔ اس لے لغوی معنی هیں پیغام دینے والا۔ یسوع نے دکھ اُٹھا یا اور صلیب پر جان دی، اس کے جسم کو قبر میں رکھا گیا، اور اس کی روح نے مرنا تھا جب اس نے گناه کرنا تھا۔ مگر اس کی روح زنده هوگئی اور اسے با پ کو دے دیا گیا۔ پطر س کے مطابق، کچھ وقت کے لئے اپنی موت اور جی اُٹھنے کے درمیان یسوع نے ایک اهم اعلان کیا "قیدی روحوں"میں جاکر۔

شروع میں پطرس لوگوں کو حواله دیتا هے که "جان"۔"روح"نهیں﴿1۔پطرس3باب20آیت﴾۔ نئے عهدنامے میں لفظ "روحوں"کا استعمال فرشتوں اور بُری روحوں کو بیان کرتا هے، بنی نوع انسان کو نهیں؛ اور 22آیت اس کے ٹھیک مطلب کو ظاهر کرتی هے۔ مزید کلامِ مقدس میں کهیں بھی نهیں بتایا گیا که یسوع دوزخ میں گیا۔ اعمال2باب31آیت کهتی هے که وه "عالمِ ارواح"میں گیا ﴿نئی امریکن معیاری بائبل﴾، لیکن "عالمِ ارواح "دوزخ نهیں۔ لفظ "عالمِ ارواح "مُردوں کے عالم کا حواله دیتا هے، ایک عارضی جگه جهاں وه دوباره جی اُٹھنے کا انتظار کر رهے هیں۔ مکاشفه 20باب11تا15آیت ﴿نئی امریکن معیاری بائبل﴾یا نیا بین الاقوامی ایڈیشن دونوں کے درمیان واضع فرق بتاتا هے۔ جهنم همیشه رهنے والی اور آخری مقام هے گمراه هوئے لوگوں کے لئے۔ عالمِ ارواح ایک عارضی جگه هے۔

همارے خداوند نے اپنی روح باپ کو سونپ دی، مر گیا اور کچھ وقت موت اور دوباره جی اُٹھنے کے درمیان موت کی وادی میں گیا جهاں اس نے روحانی حالت میں پیغام دیا ﴿یقینی طور پر گنهگار فرشتوں کو؛ دیکھیں یهوداه 6آیت﴾جو کسی نه کسی طرح سے نوح کے زمانه کے طوفان سے پهلے سے تعلق رکھتے تھے۔ آیت 20بتاتی هے ۔ پطرس همیں نهیں بتاتا هے که وه ان قیدی روحوں کے بارے میں کیا اعلان کرتا هے، لیکن یه چھٹکارے کا پیغام نهیں هوسکتا جب تک فرشتے نجات نهیں پاتے ﴿عبرانیوں2باب16آیت﴾۔ یه یقینی طورپر شیطان اور اسکے لشکر پر فتح کا اعلان تھا ﴿1۔پطرس 3باب22آیت؛ کلسیوں2باب15آیت﴾۔ افسیوں 4باب8تا10آیت بھی ظاهر کرتی هے که مسیح "فردوس "میں گیا﴿لوقا16باب20آیت؛ 23باب43آیت ﴾اور ان سب کو آسمان میں لے گیا جو مرنے سے پهلے اسکی موت پر یقین رکھتے تھے ۔ یه حواله اس واقع کو تفصیل سے نهیں بتاتا که کیا هوا تھا، لیکن کلامِ مقدس کے زیاده تر عالم اس کے مطلب سے متفق هیں "قیدیوں کو قید میں سے چھڑایا"۔

پس، سبھی کہتے هیں که کلام مقدس مکمل طور پر واضع نهیں بتاتا که مسیح نے اپنی موت اور دوباره جی اُٹھنے کے درمیان تین دنوں میں کیا کیا۔ یه ظاهر کرتا هے ، اگرچه وه گرے هوئے فرشتوں اور بے ایمانوں پر فتح کی تبلغ کررها تھا۔ کیا هم یه یقین سے جان سکتے هیں که یسوع لوگوں کونجات کے لئے دوسرا موقع نهیں دے رهاتھا۔ کلام مقدس همیں بتاتا هے که ہم موت کے بعد عدالت کا سامنا کریں گے ﴿عبرانیوں 9باب27آیت﴾ ، دوسرا موقع نهیں هے۔ یهاں پر کوئی حقیقی اور واضع جواب نهیں هے که یسوع نے اپنے مرنے اور جی اُٹھنے کے درمیان کیا کیا۔ شاید یه وه راز هے جس کو هم اس وقت جانیں گے جب هم اسکے جلال میں جائیں گے


سوال: كياپالتو جانور آسمان پر جائیں گے؟ كيا پالتور جانور/جانورروحيں ركھتے هيں؟

جواب:
کلامِ مقدس کوئی خاص تعلیم نهیں دیتا هے آیا که پالتو جانور یا جانور "روحیں"رکھتے هیں یا آیا پالتو جانور یا جانور آسمان میں جائیں گے۔ بهرحال هم کلامِ مقدس کے کچھ ساده قوانین کو لیتے هیں اور کچھ روشنی اس موضع پر ڈالتے هیں۔ کلامِ مقدس بیان کرتا هے که دونوں آدمی ﴿پیدایش2باب7آیت﴾اور جانور ﴿پیدایش1باب 30آیت؛ 6باب17آیت؛ 7باب15اور 22آیت﴾ زندگی کا دم رکھتے هیں۔ بنی نوع انسان اور جانوروں کے درمیان بنیادی فرق یه هے کہ انسان کو خدا نے اپنی صورت پر بنایا ﴿پیدایش 1باب26تا27آیت﴾۔ لیکن جانوروں کو خدا نے اپنی صورت پر نهیں بنایا۔ خدا کی صورت پر پیدا هونے کا مطلب هے که انسان خداکی طرح هے، روحانی خوبیوں کے ساتھ، ذهن کے ساتھ، جذبات، اور مرضی اور موت کے بعد بھی زندگی جاری رکھتا هے۔ اگر پالتو جانور یا جانور ایک "روح"رکھتے هیں تا غیر مادی شکل رکھتے هیں ، اسلئے یه ضرور ایک مختلف اور کمزور "خوبی "هو گی۔ اس فرق کا مطلب هے که پالتو جانور یا جانور وں کی "روحیں"موت کے بعد زندگی نهیں رکھ سکتی ۔

ایک اور عنصر اس سوال میں غور کرنے کے لئے هے که خدا نے جانوروں کو پیدا کیا جیسے اس نے پیدا یش میں تخلق کرنے کے عمل کو کیا۔ خدا نے جانوروں کو پیدا کیا اور کها که یه اچھے هیں ﴿پیدایش 1باب25آیت﴾۔ اس لئے ، یهاں کوئی وجه نهیں هے که کیوں وهاں نئی زمین میں جانور نهیں هونگے﴿مکاشفه 21باب1آیت﴾۔ یسوع مسیح کی هزار ساله بادشاهت میں وهاں یقینی طور پر جانور هونگے ﴿یسعیاه 11باب6آیت؛ 65باب25آیت﴾۔ یه کهنا ناممکن هے که یقینی طور پر خواه ان میں کچھ جانور ممکن هے پالتو جانور جن کو هم اس زمین پر رکھتے هیں۔ هم یه جانتے هیں که صرف خدا هی جب هم آسمان میں جائیں گے تو هم اس کے هر فیصله کے ساتھ متفق هونگے وه جو کچھ بھی هوں


سوال: كلام مقدس دئنوساروںكے بارے ميں كيا كهتا هے؟ كيا كلام مقدس ميں دئنوساروں كا ذكر هے؟

جواب:
مسیحی لوگوں کے درمیان دنیا کے آغاز سے ڈائنوساروںکا موضوع کلام مقدس میں لمبی جاری رهنے والی بحث کا حصه هے مناسب تشریح پیدایش میں هے اور کیسے مادی ثبوتوں کی وضاحت هم اپنے اردگرد پاتے هیں۔ وه جو زمین کوبہت پرانی سمجھتے اور متفق هیں که کلام مقدس میں ڈائنوساروں کا ذکر موجود نهیں، کیونکه ان کی اسم وه فعل کی گردان کے نقشے میں ڈائنوسار پهلے آدمی کے دنیا میں آنے سے لاکھوں سال پهلے مر گئے۔ جن آدمیوں نے کلام مقدس کو لکھا انهوں نے ڈائنوساروں کو کبھی بھی زنده نهیں دیکھا۔

جو زمین کی کم پرانی هونے پر یقین رکھتے هیں وه متفق هیں که کلام مقدس میں ڈائنوساروںکا ذکر هے اگرچه یهاں کبھی لفظ ڈائنوساراستعمال نهیں هوا۔ یهاں پر اسکی بجائے عبرانی کا لفظ "تانی این"استعمال کیا گیا هے۔ تانی این کو انگریزی بائبل میں مختلف طرح سے بیان کیا گیا هے؛ کچھ اس طرح سے "سمندری عفریت"، کسی وقت اسکو "سانپ"کها گیا۔ اس کا عام طور پر ترجمه "اژدھا"کیا گیا هے۔ تانی این کسی طرح کا بهت بڑا رینگنے والا جانور نظر آتا تھا اس طرح کی مخلوق کا ذکر تقریباً 30بار پرانے عهدنامے میں آیا هے اور یه پانی اور خشکی دونوں میں پائے جاتے تھے۔

مزید ان رینگنے والے بڑے جانوروں کا ذکر تقریباً سارے پرانے عهدنامے میں هے، کلام مقدس کچھ مخلوقوں کے جوڑوں کو ایسے بیان کرتا هے جس کی وجه سے کچھ عالم یقین رکھتے هیں که لکھنے والے ڈائنوساروں کا ذکر کر رهے تھے۔ بهیموتھ کو خدا کی بڑی ترین مخلوق میں سے کها گیا تھا، ایک دیو جس کی دم دیودار کے درخت کی مانند تھی ﴿ایوب40باب15آیت﴾۔ کچھ عالم بهیموتھ کی شناخت هاتھی یا هپوپوٹیمس کی طرح کرتے هیں۔ دوسرا نقطه یه هے که هاتھی اور هپوپوٹیمس بهت چھوٹی دم رکھتے هیں جو دیودار کے درخت سے مشابه نهیں هے۔ ڈائنوسارجسے بریکیوسارس اور ڈپلڈکس کی طرح تھے اور دوسرا وه ایک لمبی دم رکھتے تھے جو آسانی سے دیودار کے درخت سے مشابه هو سکتی هے۔

تقریباً هر قدیم تهذیب ایسا فن رکھتی هے جس میں بڑے رینگنے والے جانوروں یا مخلوق شامل هے۔ سنگتراشی، دستکاری اور چکنی مٹی کی مورتیں شمالی امریکه میں پائی گئی هیں جو جدید ڈائنوساروں کی مصوری سے مشابه هے ۔ جنوبی امریکه میں پهاڑوں پر خاکے بنا کر بیان کیا گیا هے که آدمی ڈپلڈکس جیسی مخلوق پر سواری کرتے رهے هیں۔ حیران کن طور پر ریچھ ٹرائیسراٹاپس کی تصویروں سے ملتا جلتا هے ۔ ٹیراڈیکٹل اور ٹرائناسارس ریکس کے جیسی مخلوقات۔ رومی نقش نگاری، میان کی شعری اور بیبلیون شهر کی دیواریں جوطبی حالات کے لحاظ سے انسانی تهذیب کے بدلنے کی تصدیق کرتی هیں۔ دیومالائی قصوں کے ساتھ اس سرگذشت جیسے مارکو پولو اور ملیون کے قصے میں خزانے کی حفاظت کرنا والا درنده۔ جد ید دور میں آگاهی هوتی هے که اگرچه ان کے ساتھ زبردست شک والا رویه اختیار گیاجووقت پر مشکلات کا سامنا کرکے قائم رهتے هیں۔

مزید براں مرکوز بالیشر اور تاریخی ثبوتوں کی ٹھوس بنیاد ڈائنوساروںاور انسانوں کی موجودگی کازبردست ثبوت هے، یهاں اور طبی ثبوت بھی هیں جیسے شمالی امریکه اور وسطی مغربی ایشائی میں انسانوں اور ڈائنوساروں کے پیروں کے نشان پتھروں پر ایک جگه پر پائے گئے هیں۔

پس کیا کلام مقدس میں ڈائنوساروں کا ذکر هے؟ پس معاملات طے نهیں پائے۔ یه اس چیز پر منحصر هے که کیسے آپ موجود ثبوتوں کی تشریح کرتے هیں۔ یهاں GotQuestions.orgپر هم زمین کو کم پرانی هونے پر یقین رکھتے هیں که ڈائنوسار اور انسان اکٹھے موجود تھے۔ هم یقین رکھتے هیں که ڈائنوسار طوفان کے بعد مر گئے تھے ،اس کی وجه ڈرامائی طور پر ماحول کی تبدیلی هے اور حقیقت هے یه که انسان نے ان کا شکار بڑی بے رحمی سے کیا جس کی وجه سے وه زمین پر باقی نه رهے


سوال: قائن كي بيوي كون تھي؟ كيا قائن كي بيوي اسكي بهن تھي؟

جواب:
كلامِ مقدس واضع طور پر نهيں كہتا کہ قائن كي بيوی كون تھي۔ صرف ممكن جواب يه تھا كه قائن كي بيوی اسكي بهن تھي يا بھتيجي يا پوتي وغيره تھي۔ كلامِ مقدس قائن یہ نہیں بتاتا کہ قائن کی عمر کیا تھی جب اُس نے ہابل كو قتل كيا ﴿پيدايش 4باب8آيت﴾۔ وه دونوں كسان تھے، وه دونوں مكمل طور پر جوان هوچكے تھے، هوسكتا هے كه وه اپنے اپنے خاندان يا كنبے كو چلا رهے هوں۔ آدم اور حوا كے يقيني طور پر اور بھي بچے تھے قائن اورہابل كے علاوه جب ہابل كو قتل كيا گيا ان كے يقيني طور پر بعد ميں بهت سے بچے تھے ﴿پيدايش 5باب4آيت﴾۔ درحقيقت قائن ہابل كو مارنے بعد اپني زندگي كے بارے ميں فكر مند تھا﴿پيدايش4باب14آيت﴾ يه ظاہر كرتا هے كه ان كے اور بھي بچے هونگے يا شايد ان كے پوتے يا اس وقت آدم اور حوا كے پڑپوتے هوں۔ قائن كي بيوی ﴿پيدايش 4باب17آيت﴾آدم اور حوا كي بيٹي يا پوتي تھي۔

جب آدم اور حوا پہلے ﴿اور صرف﴾ بني نوع انسان تھے، ان كے بچوں كے پاس آپس ميں شادی كرنے كے علاوه اور كوئي پسند نه هوگي۔ خدا نے آپس ميں شادی كرنااس وقت تک منع نهيں كيا جب تک دنيا ميں بهت سے لوگ هوگئے تھے اور آپس ميں شادي كرنا ضروری نه تھا ﴿احبار18باب6تا18آيت﴾۔ قريبي رشتے داروں سے مباشرت كرنے كے نتيجے ميں پيدائشي طور پر ذہني طور پر كمزور بچے پيدا هوتے هيں اور دو لوگ موروثي طور پر ايک هي خاصيت ركھيں﴿مثال كے طور پر ايک بھائي يا بہن﴾ ان كے بچوں ميں موروثي طور پر زياده خامياںہوتي ہيں كيونكه دونوں كے والدين ميں ايک جيسي ہي خامياں هوتي ہيں۔ جب مختلف خاندانوں سے بچے پيدا هوتے هيں يه شازونادر ہي هوتا هے كه دونوں والدين ميں ايک هي طرح كي خامياں هوں گي۔ انسان موروثي ترتيب بڑي تيزی كے ساتھ صديوں سے "خراب "هورهي هے جس سے موروثي بيمارياں بھي بڑھ گئي ہيں، اور ايک نسل سے دوسري نسل ميں منتقل هورهي ہيں۔ آدم اور حوا ميں كسي قسم كي موروثي خامياں نهيں تھيں، اسلئے وه بہت بہتر تھے اور ان كي پہلي كچھ نسليں بہت زياده صحت مند تھيں جبكه اب ہم ايسے نہيں۔ آدم اور حوا كے كچھ بچے ايسے تھے، جن ميں موروثي خامياں تھیں۔ جس كے نتيجے ميں ، آپس ميں شادی كرنا ان كے لئے نقصان ده نهيں تھا۔ يه عجيب لگتا هے اور سوچنے سے نفرت هوتي هے كه قائن كي بيوي اسكي بهن تھي۔ شروع ميں، جب خدا نے ايک آدمي اور ايک عورت سے شروع كيا، دوسری نسل كے پاس كوئي اور پسند نه تھي كه وه آپس ميں شادي كريں


سوال: كلامِ مقدس هم جنس پرستي كے بارے ميں كيا كهتا هے؟ كيا هم جنس پرستي گناه هے؟

جواب:
كلامِ مقدس هميں لگاتار بتاتا هے كه هم جنس پرست حركات گناه هيں﴿پيدايش 19باب1تا13آيت؛ احبار18باب12آيت؛ روميوں1باب26تا27آيت؛ 1۔كرنتھيوں6باب9آيت﴾۔ روميوں1باب26تا27آيت خاص كرتعليم ديتی هے كه هم جنس پرستي كا نتيجه خدا كا انكار اور خدا كی نافرمانی هے۔ جب لوگ مسلسل گناہ میں مشغول رہتے ہیں اور بے اعتقار ہو جاتے ہیں۔ كلامِ مقدس بتاتا هے كه خدا نے بھی ان كو "ناپسنديده عقل كے حوالے كرديا"اور وه هر طرح کی ناراستی اور بدخواهی كے گناه سے بھر گئے اور خدا سے عليحدگی نے ان كی زندگی كو بے اثر اور نااميد بنا ديا۔ 1كرنتھيوں6باب9آيت اعلان كرتی هے كه هم جنس پرستی كرنے والے "بدكار"خدا كی بادشاهی كے وارث نه هونگے۔

خدا نے انسان كو هم جنس پرستی كی خواهش كے ساتھ پيدا نهيں كيا۔ كلام مقدس هميں بتاتا هے كه انسان گناه كی وجه سے هم جنس پرست بنا ﴿روميوں1باب24تا27آيت﴾، اور آخر كار خود اپنی پسند كی وجه سے۔ شاید ايک شخص هم جنس پرستی سے متاثر هونے والی كفيت کے ساتھ پيدا هوتا هے، بالكل اسی طرح جيسے لوگ تشدد كی رغبت كے ساتھ پيدا هوتے هيں اور دوسرے گناهوں سے۔ يه گناه كو پسند كرنے والے شخص كو معاف نهيں كرتی، چاهے وه اپنی گناه آلودہ فطرت کے باعث ہی گناہ کرے۔ اگر كوئی شخص غصه يا طيش كے بهت زياده اثر سے پيدا هوتا هے، كيا يه اسے ٹھيک بناتی هے كه وه اپنی ان خواهشوں سے دور رهے؟ يقينا نهيں بلکل اسی طرح ہم جنس پرستی کو اپنی خواہش کو زریعہ نہیں بنایا جا سکتا۔

بهرحال، كلامِ مقدس هم جنس پرستی كوكسی اور گناه سے "عظيم "نهيں بتاتا۔ تما م گناه خدا كی دل شكنی كرتے هيں۔ هم جنس پرستی ان بهت سارے گناهوں كي فهرست ميں سے ايک هے جو کہ بیان کیے گئے ہیں۔ 1۔كرنتھيوں6باب9تا10آيت بتاتی هے كه جو شخص ايسے كام كريگا وه خدا كی بادشاهی سے دور كرديا جائيگا۔ كلامِ مقدس كے مطابق خدا كی معافی کا دروازہ ہر ایک کے لیے ویسے ہی کھلا ہے جیسے کہ وه هم جنس پرست هو، بدكار هو، بت پرست هو، خونی هو، قاتل ، چور وغيره۔ بلکہ خدا وعدہ بھی کرتا ہے کہ وہ آپکو طاقت دے گا کہ آپ گناہ ہو قابو پا سکیں جس میں ہم جنس پرستی بھی شامل ہے۔ اور یہ وعدہ اُن تمام لوگوں کے لیے ہے جو مسیح یسوع پر ایمان رکھتے ہیں کہ اُن کی نجات مسیح کے صلیب پر کفارہ کے باعث ہے۔ ۱۔ کرنتھیو ں چھ باب ۱۱ آیت۔ ۲۔کرنتھیوں ۵ باب کی ۱۷ آیت۔ فلپیوں ۴ باب کی ۱۳ آیت


سوال: مشت زني كيا يه كلامِ مقدس كے مطابق گناه هے؟

جواب:
کلامِ مقدس میں خاص طور پر مشت زنی کا ذکر نهیں اور نه یه بیان کیاگیا هے که مشت زنی کرنا گناه هے۔ نه هی کوئی سوال هے، پھر بھی، لیکن جیسے مشت زنی کرنے کے لئے عمل کیے جاتے هیں وه گناه هیں۔ مشت زنی کرنا شهوت سے بھرے خیالات کا آخری نتیجه هے، جنسی جذبات کو ابھارنا، اور یا فحش تصاویر۔ یه وه مشکلات هیں جن سے روکنے کی ضرورت هے۔ اگر شهوت اور جنسی طور پر ابھارنے والی چیزوں کو ترک کیا جائے اور ان پر قابو پایا جائے تو مشت زنی کا مسئله کوئی مسئله نهیں هوگا۔

مقدس صحائف میں اونان کے بارے میں پیدائش ۳۸ باب کی ۹ اور ۱۰ آیت میں ایک واقع بیان کیا گیا ہے۔ اور کچھ لوگ اس بات کی تشریح یوں کرتے ہیں کہ اپنے نطفہ کو زمین پر گرا دینا گناہ ہے۔ کچھ بھی ہو، یہ درست نہیں کہ کلام کا یہ حصہ ہمیں کیا فرماتا ہے۔ یہ حصہ ہمیں بتاتا ہے کہ خدا نے اونان کو ملامت کی اِس وجہ سے نہیں کہ وہ اپنا نطفہ زمین پر گرایا تھا۔ بلکہ اِس وجہ سے کہ اُس نے کوتاہی کی تھی اپنی زمہ داری کو سرانجام دینے میں، جو کہ ایک بھائی ہونے کے ناطے اُس پر فرض تھی۔ کلام کا یہ حصہ مشت زنی سے متعلق نہیں ہے۔بلکہ خاندانی زمہ داری میں کوتاہی سے متعلق ہے۔

اور دوسرا کلام کا حصہ جو ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہےمشت زنی ایک گناہ ہے وہ ہے مقدس متی کی انجیل ۵باب اور ۲۷ تا ۳۰ آیات تک ۔ جس میں مسیح یسوع برُی خواہشات سے بھری سوچ سے کے متعلق فرماتے ہے کہ۔ "تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ زنا نہ کرنا۔ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جس کسی نے بُری خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کہ وہ اپنے دل میں اُسکے ساتھ زِنا کر چکا۔ ۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر تیرا دہنا ہاتھ تجھے ٹھوکر کہلائے تو اُسکو کاٹکر اپنے پاس سے پھینک دے کیونکہ تیرے لیے یہی بہتر ہے۔" تو بھی کلام کے اِس حصہ میں بہت واضع فرق نظرا ٓتا ہے کہ یہ مشت زنی سے متعلق نہیں ہے۔ تو بھی یہ مشت زنی کی طرف ہلکا ساآشارہ تو ہو سکتا ہے۔ لیکن واضع مشت زنی کے بارے میں نہیں۔

تو بھی کلام مقدس غیر مبہم طور پر یہ فرماتا ہے کہ مشت زنی گناہ ہے، اوریہ ضروری نہیں ہے کہ کوئی عمل برائے راست ہماری رہنمائی نہیں کرتا کہ مشت زنی گناہ ہے تو بھی بائبل مقدس میں یہ واضع طور پر بتا یا گیا ہے کہ مشت زنی بُری خواہشات کی پیداوا ر ہے اورساتھ ہی ساتھ جنسی بدکرداری اور گندی تصوریریں دیکھنا بھی گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔ اور اگر خواہش کا گناہ، اور غیر اخلاقی سوچ اور فحاش نگاری انسان پر حاوی ہو جاتے ہیں تو پھر مشت زنی خود بخود اپنی جگہ بنالے گی۔ اور بہت سارے لوگ اپنے آپ کو قصور وار تصور کرتے ہیں جب وہ مشت زنی کے گناہ میں ملوث ہوتے ہیں۔ تو اُن کا یہی عمل اُن کی توبہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔

کلامِ مقدس همیں بتاتا هے که جنسی بدکرداری کی موجودگی سے بھی بچنا هے ﴿افیسوں5باب3آیت﴾۔ "اور تمارے درمیان حرامکاری اور کسی طرح کی ناپاکی کا ذکر تک بھی نہ ہو۔ اور نہ ہی کسی قسم کی ناپاکی تمارے درمیان پائی جائے"۔ میں نے نهیں دیکھا کے کتنے مشت زنی کرنے والوں کے یه امتحان پاس کیا هے۔ کسی وقت ایک اچھی جانچ که کوئی چیز گناه هے یا نهیں آپ دوسروں کوبڑے فخر سے بتائیں گے که آپ نے کیا کیا۔اگر ایسی کسی چیز کے بارے میں دوسروں کو پته چلے جس سے آپ پریشان هوں یا شرمنده هو، یه بهت ممکن هے که یه گناه هے۔ ایک دوسرا امتحان اس کو ایمانداری سے جانچنے کا یه هے، سچے دل سے، خدا سے یه کهیں که وه آپ کو برکت دے اور اپنے کام کے لئے اچھے مقصد کے لئے استعمال کریں۔ میں ایسے نهیں سوچتا که مشت زنی کوئی ایسا کام هے جس پر هم "فخر"کر سکیں یا حقیقی طور پر خدا کا شکر ادا کریں۔

کلامِ مقدس همیں تعلیم دیتاهے ، "پس تم کھاؤ یا پیو یا جو کچھ کرو سب خدا کے جلال کے لئے کرو"﴿1۔کرنتھیوں10باب31آیت﴾۔ اگر یهاں شک کی کوئی جگه هے که اس سے خدا خوش هوتا هے، تو پھر یه اچھا هے که اسے ترک کردیا جائے۔ مشت زنی کے بارے میں یهاں شک کی گنجائش هے۔ " جو کچھ اعتقاد سے نهیں وه گناه هے"﴿رومیوں14باب23﴾۔ مجھے نهیں پته کے کیسے، کلامِ مقدس کے مطابق ، مشت زنی سے خدا کی تمجید هوتی هے۔ مزید، همیں یه یاد رکھنے کی ضرورت هے که همارے جسم ، هماری روحیںنجات پا چکی هیں اور خدا کی ملکیت هیں۔ "کیا تم نهیں جانتے کے تمهارا بدن روح القدس کا مقدس هے جو تم میں بسا هوا هے اور تم کو خدا کی طرف سے ملا هے؟ اور تم اپنے نهیں ۔ کیونکه قیمت سے خریدے گئے هو۔ پس اپنے بدن سے خدا کا جلال ظاهر کرو"﴿1۔کرنتھیوں6باب19تا20آیت﴾۔ یه عظیم سچ همیں برداشت کرنا هوگا که هم کیا کرتے هیں اور اپنے بدنوں کے ساتھ کهاں جائیں گے۔ پس، ان اصولوں کی روشنی میں ، میں یقینی طور پر کهتا هوں کی مشت زنی کرنا کلا مِ مقدس کے مطابق گناه هے۔ میں یقین نهیں کرتاکه مشت زنی کرنا خدا کو خوش کرتا هے، بدکرداری کی موجودگی سے بچیں، یا آزمائش میں پورے اتریں تاکه خدا همارے جسموں پر ملکیت رکھے