روح القدس کے بارے سوالات

سوال: پاك روح كون هے؟

جواب:
یهاں پر پاک روح کی شناخت کے بارے میں بهت سی غلط رائے قائم هیں۔ کچھ کا خیال هے که پاک روح پُر اسرار قوت هے۔ دوسرے سمجھتے هیں که پاک روح غیرشخصی خدائی طاقت هے جو مسیح کے پیروکاروں کو میسر هے۔ پاک روح کی شناخت کے بارے میں کلامِ مقدس کیا کهتا هے؟ کلامِ مقدس کهتا هے که پاک روح خدا هے۔ کلامِ مقدس بتاتا هے که پاک روح ایک خدائی شخصیت بھی هےجو کہ رکھتی ہے ایک ذهین ، جذبات، اور ایک اراده۔

حقیقت میں پاک روح خدا هے جو بهت سے نوشتوں میں نظر آتا هے جیسے اعمال5باب3تا4آیت۔ اس آیت میں پطرس نے حننیاه سے کها که کیوں تم نے روح القدس سے جھوٹ بولا اور اسے بتایا که اس نے صرف"آدمیوں سے جھوٹ نهیں بولا بلکه خدا سے"۔ یه واضع اعلان کرتا هے که پاک روح سے جھوٹ بولنا خدا سے جھوٹ بولنا هے۔ هم جان سکتے هیں که پاک روح هی خدا هے کیونکه وه خدا کے کردار کی صفات رکھتا هے۔ مثال کے طور پر حقیقت میں پاک روح هر وقت هرجگه موجود هوتا هے 139زبور 7تا8آیت میں دیکھتے هیں "میں تیری روح سے بچ کر کهاں جاؤں یا تیری حضوری سے کدھر بھاگوں؟ اگر آسمان پر چڑھ جائوں تو تو وهاں هے۔ اگر میں پاتال میں بستر بچھاؤں تو دیکھ تو وهاں بھی هے"۔ پھر 1۔کرنتھیوں2باب10آیت میں هم پاک روح کو سب کچھ جاننے والے که کردار میں دیکھتے هیں۔ "لیکن هم پر خدا نے ان کوروح کے وسیله سے ظاهر کیا کیونکه روح سب باتیں بلکه خدا کی ته کی باتیں بھی دریافت کرلیتا هے۔ کیونکه انسانوں میں کون کسی انسان کی باتیں جانتا هے سوائے انسان کی اپنی روح کے جو اس میں هے؟ اسی طرح خدا کے روح کے سوائے کوئی خدا کی باتیں نهیں جانتا"۔

هم جان سکتے هیں که پاک روح یقینا ایک شخصیت هے کیونکه وه ذهن ، جذبات اور اراده رکھتا هے۔ پاک روح جانتا اور سوچتا هے ﴿1۔ کرنتھیوں2باب10آیت﴾۔ پاک روح رنجیده هوتا هے﴿افسیوں4باب30آیت﴾۔ روح هماری شفاعت کرتا هے ﴿رومیوں8باب26تا27آیت﴾۔ پاک روح اپنی مرضی سے فیصلے کرتا هے ﴿1۔ کرنتھیوں12باب7تا11آیت﴾۔ پاک روح خدا هے، تثلیث کا تیسرا جز یا پھر "شخصیت "هے۔ جیسے خدا، پاک روح حقیقی طور پر تسلی دینے والا اور مشوره دینے والے کی طرح کام کرتا هے جیسے یسوع نے وعده کیا تھا که وه کریگا ﴿یوحنا 14باب16آیت، 26آیت؛ یوحنا15باب26آیت﴾۔


سوال: کس طرح ہم روُح القدس حاصل کرتے ہیں؟

جواب:
پُولوس رسول نے واضح طور پر سکھایا کہ ہم رُوح القدس اُس وقت حاصل کرتے ہیں ۔ جب ہم مسیح سوع کو اپنے نجات دہیندہ کے طور پر مانتے ہیں ۔ پہلا کرنتھیوں ۱۲ باب اُس کی ۱۳ آیت بیان کرتی ہے، " کیونکہ ہم سب نے خواہ یہودی ہوں خقاہ یونانی ۔ خواہ غلام، خواہ آزاد ۔ ایک ہی روح کے وسیلہ سے ایک بدن ہونے آیت ہمیں بتاتی ہے کہ اگر9 باب اُسکی 8کے لیے بپتسمہ لیا اور ہم سب کو ایک ہی رُوح پلایا گیا ۔" رومیوں

ایک شخص رُوح القدس نہیں رکھتا ہے ، وہ (مرد) یا وہ (عورت) مسیح سے تعلق نہیں رکھتا ہے۔ " لیکن تم جسمانی نہیں بلکہ رُوحانی ہو بشرطیکہ خُدا کا رُوح تم میں بسا ہوا ہے۔ مگر جس میں مسیح کا روح نہیں وہ اُس آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ رُو القدس اُن سب کے لیے جو ایمان 14 اور 13 باب اُس کی 1 افیسوں 1کا نہیں ۔"

رھتے ہیں نجات کی مہر ہے۔" اور اُسی میں تم پر بھی جب تم نے کلامِ حق کو سُنا جو تمھاری نجات کی خوشخبری ہے اور اُس پر ایمان لائے پاک موعُودہ روح کی مہر لگی۔" وہی خُدا کی ملکیت کی مخلصی کے لیے ہماری میراث کا بیعانہ ہے ۔ تاکہ اُس کے جلال کی ستاءش ہو۔"

یہ تین پیرے اِس کو واضع کر دیتے ہیں کہ رُوح القدس نجات کے موقع پر حاصل ہوتی ہے ۔ پولُس یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم سب نے ایک ہی روُح سے بپتسمہ لیا اور سب کو ایک ہی رُوح دیا گیا ۔ اگر کسی بھی طرح سے کرنتھس کے ایماندار روح القدس نہیں رکھتے تھے ۔ رومیوں۸ باب اُسکی ۹ آیت نہایت مضطوط ہے، یہ بیان کرتی ہے کہ اگر ایک شخص رُوح نہیں رکھتا ہے تو وہُ مسیح میں سے نہیں تاہم رُوح کا ہونا، نجات کے ہونے کا باب اُسکی Iایک شناختی پہلو ہے مزید یہ ہے کہ رُوح القدس " نجات کی مہر " نہیں ہو سکتی ہے ۔ (افسیوں آیت) اگر وہ اِسے نجات کے موقع پر حاصل نہیں کرتا ہے تو۔ بہت سارے کلام کے اقتباسات اِسے بہت 13-14

زیادہ واضع بنادتے ہیں کہ ہماری نجات اُس وقت محفوظ ہو جاتی ہے جب ہم مسیح کو نجات دہندہ کے طور پر قبول کرتے ہیں ۔ نتیجہ کے طور پر ہم کس طرح سے رُوح القدس حاصل کرتے ہیں؟ ہم رُوح القدس سادگی سے خداوند یسوع مسیح کو اپنے نجات دہندہ کے طور پر قبول کرنے سے حاصل کرتے ہیں ۔ (یوحنا 16-3:5) جب ہم روُح القدس حاصل کرتے ہیں؟ رُوح القدس اُس وقت جب ہم ایمان لاتے ہیں ہماری مستقل ملیکت ہو جاتا ہے۔


سوال: روُح القدس کا بپتسمہ کیا ؟

جواب:
رُوح القدس کے بپتسمہ کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ ایسا کام جہاں نجات کے موقع پر ایماندار مسیح کے ساتھ ملاپ ہیں اور مسیح کے جسم میں دوسرے ایمانداروں کے ساتھ ملاپ میں خُدا کی رُوح موجود ہوتی ہے۔ پہلا کرنتھیوں 12 باب اُسکی 12 اور 13 آیت روح القدس کے بپتسمہ کے بارے میں بائیبل میں مرکزی پیرا ہے ۔ "کیونکہ ہم نے سب نے خواہ یہودی ہوں خواہ یونانی ، خواہ آزاد۔ ایک ہی رُوح کے وسیلہ سے ایک بدن ہونے کے لیے بپتسمہ لیا اور ہم سب کو ایک ہی رُوح پلایا گیا"۔ (1 کرنتھیوں 13-12) جبکہ رومیوں 6باب اُسکی ۱ سے 4 آیت تک خاص طور خُدا کی رُوح کا ذکر نہیں کرتیں ہیں ۔ یہ پہلا کرنتھیوں کے پیرا سے ملتی جُلتی زبان میں خُدا کے سامنے ایماندار کی حالت کو بیان کرتیں ہیں " پس ہم کیا کہیں ؟ کیا گناہ کرتے رہیں تاکہ فضل زیادہ ہو؟ ہرگز نہیں۔ ہم جو گُنا ہ کے اعتبار سے مرگئے کیونکر آءنید کو زندگی گرزاریں؟ کیا تم نہیں جانتے کہ ہم جنتنوں نے مسیح یوسع میں شامل ہونے کا بپتسمہ لیا تو اُسکی موت میں شامل ہونے کا بپتسمہ لیا۔ پس موت میں شامل ہونے کے بپتسمہ کے وسیلہ سے ہم اُس کے ساتھ دفن ہوئے تاکہ جس طرح مسیح باپ کے جلال کے وسیلہ سے مُردوں میں سے جلایا گیا اُسی طرح ہم بھی نئں زندگی میں چلیں "۔

یہ بیان کردہ حقائق روح کے بپتسمہ کے لیے ہماری سمجھ بوجھ کو استحکام دینے کے لیے مدد کے لیے بہت ضروری ہیں ۔ پہلا کرنتھیوں 12 باب اُسکی 13 آیت صاف صاف بیان کرتی ہے کہ سب نے بپتسمہ لیا، بالکل اَس طراح سب کو روح پلایا گیا (روح میں رہتے ہوئے) ۔ دوسرا کلام میں کہیں بھی اَس کے ساتھ بپتسمہ لینے کا نہیں بتایا گیا یا رُوح سے یا روُح القدس سے بپتسمہ لینے کے کسی بھی معنی میں ایمانداروں کو نہیں بتایا گیا ہے ۔ یہ اشارہ کرتا ہے کہ تمام ایماانداروں نے اِ س کا تجربہ کیا ۔ تیسرا افیسوں 4 باب اُسکی 5 آیت روُح کے بپتسمہ کا حوالہ دیتی ہے ۔ اگر معاملہ یہ ہے تو رُوح کا بپتسمہ ہر ایماندار کے لیے حقیقی ہے جیسے کہ "ایک ایمان " اور "ایک باپ" ہیں۔

نتیجہ کے طور پر روُح القدس دو چیزیں کرتا ہے ۔1۔ یہ ہمیں مسیح کے بدن سے جوڑتا ہے ۔ 2۔ یہ مسیح کے ساتھ ہمارے مصلوب ہونے کو حقیقیت بناتا ہے ۔ اُس کے جسم میں سے ہونے کا مطلب ہے کہ ہم نئ زندگی میں اُس کے ساتھ اُٹھائے جاتے ہیں (رومیوں6باب اُسکی 4 آیت ) پھر ہمیں اِس جسم کو باضابطہ طور پر چلانے کے لیے اپنے روحانی تحاءف کو عمل میں لانا چاہیے جیسا کہ1 کرنتھیوں 12 باب اُسکی 13 آیت کے مضمون میں بیان کیا گیا ہے ۔ ایک رُوح میں بپتسمہ لینے کا عمل کلیسیاء کو متحد کرنے کی بنیاد کے طور پر کام کرتا ہے جیسا کہ افسیوں4 باب اُسکی 5 آیت میں ہے ۔ رُوح کے بپتسمہ کے وسیلہ سے مسیح کے ساتھ اُسکی موت، دفن ہونے اور جی اُٹھنے میں شامل ہونا گناہ سے کی قوت سے اور نئ زندگی میں ہمارے چلنے کے لیے بنیاد قائم کرتا ہے ۔ ، )2:12کُلسیوں (رومیوں10-6:1


سوال: رُوح القدس کے خلاف کمہ کفر بکنا کیا ہے؟

جواب:
آیت تک اور متی 30 سے 22 باب اُسکی 2 "روُح القدس کے خلاف کلمہ کفر بکنے کے تصور کی مرقس آیت تک میں نشان دہی کی گئں ہے۔ کفر بکنے کی اصطلاھ کی وضاحت عام طور پر 22 باب اُسکی 12 گستاخانہ بے حرمتی " کے طور پر کی جاتی ہے یہ اصطلاح اِس طرح کے گناہوں جیسا کہ خُدا کو ملامت کرنا یا دانستہ طور پر خُدا سے متعلقہ چیزوں کی کم مائںگی کرنے پر لاگو ہو سکتی ہے ۔ اس کا مطلب چند برائںاں خُدا کے ساتھ منسوب کرنا بھی ہے یا اُس کی چند اچھائںوں کا انکا ر ہے جو ہمیں اُس (خدا ) کے ساتھ منسوب کرنی آیت 32آیت اور 31باب اُسکی 12چاہئںں ۔ تاہم کفر بکنے کا یہ معاملہ ایک مخصوص معاملہ ہے ، جسے متی

فریسی ایک ناقابل اِنکار ثبوت کو دیکھ چکے تھے کہ یسوع روُح القدس کی قوت میں معجزے کر رہا تھا، اِس کے باوجود وہ دعوٰی کرتے تھے کہ خُداوند بدروحوں کے سردار "بعلز بول " کی مدد سے کر رہا ہے ۔ اب غور کریں کہ آیت میں یسوع اُن کے لیے مخصوص رویہ رکھتا ہے جو " رُوح القدس کے خلاف کفر بکتے 30 باب اُسکی 3مرقس

ہیں ۔ اِس کفر بکنے کا تعلق اُس شخص کے ساتھ ہے جو یسوع مسیح کے رُوح سے بھرے ہونے کی بجائے روحوں کے سردار کی مدد لینے کو قبول کرتا ہے ۔ نتیجے کے طور پر رُوح القدس کے خلاف کفر بکنے کا یہ خاص واقعہ آج کے دور میں نقل نہیں ہو سکتا ہے۔ یسوع مسیح زمین پر نہیں ہے، وہ خُدا کے داہنے ہاتھ بیٹھا ہوا ہے۔ کوئں بھی یسوع مسیح کو ایک معجزہ کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا ہےاور پھر اِسے رُوح کی بجائے شیطان کی قوت سے منسوب کرے۔ اِس کی نزدیک ترین مثال ایک نجات یافتہ شخص کی تبدیل شدہ زندگی کے معجزے کو رُوح القدس کے اثرات کی بجائے شیطان کی قوت سے منسوب کرنا ہوگا۔

آج کے دور میں رُوح القدس کے خلاف کفر بکنا جو کہ ایک ناقابل معافی گناہ ہے۔ مسلسل بے ایمانی کی حالت ہے ۔ اُس شخص کے لیے کوئں معافی نہیں جو بے ایمانی کی حالت میں مرتا ہے ۔ یسوع المیسح میں بھروسہ رکھنے کے لیے روُح القدس کے عمل کا مسلسل انکار اُس کے خلاف نا قابلِ معافی کفر بکنا ہے ۔ یاد رکھیں کہ آیت میں کیا بیان ہواہے؟ "کیونکہ خُدا نے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اُس نے اپنا اکلوتا 16باب اُسکی 3یوحنا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئں اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔" مزید اِسی باب میں آیت ہے ۔ " جو بیٹے پر ایمان لاتا ہے ہمیشہ کی زندگی اُس کی ہے لیکن جو بیٹے نہیں مانتا زِندگی کو نہ دیکھے ) ۔ صرف ایک حالت میں ہیں کسی ایک شخص کی معافی 3:36گا بلکہ اُس پر خُدا کا غضب رہتا ہے ۔" (یوحنا نہیں ہو پائے گی یہ ہے کہ وہ " جو اُس پر ایمان رکھتے ہیں " اُن میں سے نہیں ہے کیونکہ یہ وہ ہے جو " بیٹے کا انکار" کرتا ہے۔


سوال: میں روُح القدس کے ساتھ کس طرح بھر سکتا ہوں ؟

جواب:
رُوح اُلقدس کے ساتھ بھرنے کو سمجھنے کے لیے یوحنا 14:16 آیت ایک اہم آیت ہے، جہاں یسوع نے وعدہ کیا کہ روُح ایمانداروں میں انڈیلی جائے گی اور یہ انڈیلنا مستقل ہو گا۔ یہ رُوح سے بھرے جانے سے انڈیلا جانا ممتاز ہے ۔ مستقل طور پر رُوح کا انڈیلا جانا چُنے ہوئے ایمانداروں کے لیے ایک انتخاب نہیں ہے ۔ بلکہ تمام ایمانداروں کے لیے ہے ۔ کلام میں بہت سارے حوالے ہیں جو اِس نتیجہ کی معاونت کرتے ہیں ۔

پہلا، میسح میں تمام ایمانداروں کو بغیر کسی زبانی قانون کے روح القدس کا تحفہ دیا ہے ، اور مسیح میں ایمان رکھنے کے سوا کوئں شرط اِس تحفے پر نہیں رکھی جاتی ہے ۔ (یوحنا 39-7:37) ۔ دُوسرا رُوح القدس نجات کے وات دیا جاتا ہے ۔ (افسیوں 1:13) گلتیوں 3 باب اُس کی 2 آیت بالکل اِسی طرح کی سچائں پر زور دتی ہے، یہ کہتے ہوئے کہ روح کا انڈیلا جانا ایمان لانے کے وقت وقوؑ پذیر ہوتا ہے ۔ تیسرا روُح القدس ایمانداروں میں مستقل طور پر رہتی ہے ۔ روُح القدس ایمانداروں کو ایک پیشگی کے طور پر دیا جاتا ہے ۔ یا مسیح میں ان کی مستقبل کی عظمت کی تصدیق کے لیے دیا جاتا ہے ۔ (11 کرنتھیوں 1:22، افیسوں 4:30) ۔

یہ روح القدس کے بھرے جانے کے مقابلے میں ہے جس کا حوالہ افسیوں 5:18 میں دیا گیا ہے۔ ہمیں مکمل طور پر روح القدس لینا چاہیے جو کہ وہ ہمیں مکمل طور پر بھر دے اس تناظر میں مکمل بھر دے ۔ رومیوں 8:9 اور افیسوں 14-1:13 آیت بیان کرتیں ہیں کہ وہ ہر ایماندار میں رہتا ہے ، لیکن وہ رنجیدہ ہو سکتا ہے ۔ (افسیوں 4:30) اور ہم میں اُس کا یہ کام بجھ بھی سکتا ہے ۔ (1 تھسلنیکیوں 5:19) ۔ جب ہم اِیسا ہونے کی اجازت دیتے ہیں تو ہم روح کے بھر جانےاور ہم میں اُس کی قوت اور ہم میں اُس کی قوت کا تجربہ نہیں کرتے ہیں ۔ روح القدس سے بھرے جانے اُسے ہماری زندگیوں کے ہر حصے پر ہمیں راستہ دکھانے، اور کنڑول کرنے کے لیے مکمل اختیار ہو جاتا ہے، تب اُس کی قوت ہمارے وسیلہ سے جدوجہد کرتی ہے ۔ تاکہ ہم جو کریں وہ خُدا کے اچھا ہو۔ روح القدس سے بھرنا ظاہری اعمال پر ہی لاگو نہیں ہوتا ہے، بلکہ یہ ہمارے باطنی خیالات اور ہمارے اعمال کی تحاریک پر بھی لاگو ہوتا ہے ۔ زبور 19:14 آیت کہتی ہے ، میرے منُہ کا کلام اور میرے دل کا خیال تیرے حضور مقبل ٹھہرے ۔ اے خداوند! اے میری ثتان اور میرے جذبہ دینے والے!

گُناہ روح القدس کے بھرے جانے میں رکاوٹ ہے، اور خُدا کی تابعداری یہ ہے کہ کس طرح روح کے بھرے جانے کو برقرار رکھنا ہے ۔ افیسوں 5 باب اُسکی 18 آیت حکیم دتی ہے کہ ہم روُح سے بھرے جاتے ہیں ، تاہم یہ روح القدس سے بھرے جانے کے لیے دُعا نہیں ہے جو کہ اِس عمل کو پُورا کرتی ہے ۔ صرف خُدا کے حکموں کی تابعداری روح کو ہم میں کام کرنے کی اجازت دیتی ہے ۔ کیونکہ ہم ابھی تیک گناہ کے زیر اثر ہیں ، ہر وقت روح سے بھرا جانا ناممکن ہے ۔ جب ہم گناہ کرتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ جلدی سے خُدا کے سامنے تو یہ کریں اور روح القدس سے بھرنے جانے کے ہمارے معاہدے کو بحال کریں


سوال: میں کس طرح جان سکتا ہوں کہ میرا روحانی تحفہ کیا ہے؟

جواب:
یہاں پر کوئی جادوئی فارمولا یا قطعی آزماءش نہیں ہے جو کہ ہمیں واضح طو ر پر بتا سکے کہ ہمارے روحانی تحائف کیا ہیں ۔ روح القدس تحائف ایسے تقسیم کرتا ہے ۔ جیسے وہ چاہتا ہے ۔ (1کرنتھیوں 11-12:7) مسیحیوں کے لیے ایک عام مسلئہ یہ ہے کہ وہ اپنے روحانی تحفے میں بہکاوے میں آجاتے ہیں، جو کہ ہم صرف خُدا کی خدمت کے لیے حاصل کرتے ہیں اس معمالے میں جس میں ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم تحفہ سے نوازے گئے ہیں ۔ یہ ایسا نہیں کیہ روحانی تحائف کس طرح کام کرتے ہیں خُدا ان تمام باتوں میں تابعداری سے اپنی خدمت کروانے کے لیے ہمیں بُلاتا ہے ۔ وہ ہمیں تحفے یا تحائف سے آراستہ کرے گا جن کی ہمیں اُس مقصد کو پورا کرنے کے لیے ضرورت ہو جس کے لیے ہمیں بُلایا گیا ہے۔

روُحانی تحائف کو پانے کی شناخت بہت سارے طریقوں سے پوری ہوسکتی ہے ۔ روُحانی تحائف کی آزمائش یا نئں دریافٹ ، جبکہ ان پر مکمل تُوکل نہیں ہوسکتا ہے ، ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دے سکتے ہیں یہ تحائف کہاں ہوسکتے ہیں ۔ دوسروں سے تصدیق بھی ہمارے روھانی تحائف یافتہ ہونے کو تقویت دیتی ہے۔ دوسرے لوگ جو ہمیں خُداوند کی خدمت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔ ایک روحانی تحفے کی پہچان کرلیتے ہیں جو کہ استعمال ہے اور ہمیں عرصے سے ملا ہوا ہے لیکن ہم اُس کی پہچان نہیں کر پاتے ، دُعا بھی اہم ہے ۔ ایک شخص جو واضح طور پر جانتا ہے کہ کس طرح سے ہمیں روحانی تحفہ ملا ہے ، وہ جانتا ہے تحفہ دینے والا بذاتِ خود روح القدس ہے ۔ ہم خُدا سے یہ دکھانے کے کے لیے کہہ سکتے ہیں کہ ہم کس طرھ کا تحفہ دیا گیا ہے اِس لئے ہم اپنے روھانی تحفے کا اُس کے جلال کے لیے بہتر استعمال کر سکتے ہیں ۔

جی ہاں، خُدا کچھ کو استاد بننےکا کہتا ہے اور انہیں سکھانے کا تحفہ دیتا ہے ۔ خُدا کچھ کو نوکر بننے کا کہتا ہے اور انہیں مدد کرنے کا تحفہ بخشتا ہے۔ تاہم خاص طور پر یہ جانتے ہوئے کہ ہماری روحانی تحائف ہمیں ہمارے نوازے ہوئے علاقہ سے باہر خُدا کی خدمت کرنے سے بری نہیں کرتے ۔ کیا یہ جاننا فائدہ مند ہے کہ خُدا نے ہمیں کون سے تحائف سے نوازا ہے ؟ بے شک ایسا ہی ہے ۔ روُحانی تحائف پر بہت زیادہ توجہ دینا غلط ہے ۔ کہ ہم خُدا کی خدمت کے دُوسرے مواقعے کھو دیتے ہیں؟ جی ہاں ، اگر ہم خدا کے کام کے لیے وقف ہیں، وہ ہمیں اُس روحانی تھفے سے نوازے گا جس کی ہمیں ضرورت ہے۔


سوال: کیا روُح کے معجزنہ تحاءف آج کے دور کے لیے ہیں؟ کیا روُح محزانہ تحاءف رُک گئے ہیں ؟

جواب:
اولین یہ جاننا اہم ہے کہ سوال یہ نہیں ہے آیا کہ خُدا آج کے دور میں ابھی تک معجزے کرتا ہے ۔ اِیسا دعویٰ کرنا مضحکہ خیزاور بائیبل کے مطابق نہیں ہے کہ خُدا لوگوں کو شفاء گونگوں کو بولنا اور معجزانہ علامات اور حیران کن باتیں آج کے طور میں نہیں کرتا ہے ۔ سوال روح کے معجزانہ تحائف ہیں جو کہ بنیادی طور پر پہلا باب باب میں بیان کیے گئے ہیں، آج کے دور میں کلیسیا میں کام کر رہے ہیں ۔ سوال یہ بھی 14 سے 12کرنتھیوں

نہیں ہے کہ کیا رُوح القدس کسی کو ایک معجزانہ تحفہ دے سکتا ہے ؟ سوال یہ ہے آیا کہ روُح القدس آج کے دور میں معجزانہ تحائف بانٹ رہا ہے؟ اُوپر والے بیان سے مبرا، ہم پوری طرح جانتے ہیں کہ روح القدس اپنی مرضی کے مطابق تحائف بانٹنے میں آزاد ہے۔

اعمال کی کتاب اور خطوط میں معجزوں کی ایک بڑی تعداد رسولوں اور اُن کے قریبی معاونین نے کی ہے ۔ پوُلُس ہمیں اس کی وجہ بتایا ہے ۔ کہ ایسا کیوں ہوا؟ " رسوُل ہونے کی علامتیں کمال صبر کے ساتھ نشانوں اور عجیب ) ۔ اگر مسیح میں ہر 12:12 کرنتھیوں II کاموں اور معجزوں کے وسیلہ سے تمہارے درمیان ظاہر ہوئیں ۔ "( ایماندار نشان، عجیب کام اور معجزے کسی بھی طرح سے ایک رسول کی نشاندہی کرنے والی علامات نہیں آیت ہمیں بتاتی ہے کہ یسوع معجزے ، عجیب کام اور نشانات کے اختیارسے22اُسکی 2کتیں ہیں ۔ اعمال سرفراز تھا۔ بالکل اِسی طرح رسول جو معجزے وہ کرتے تھے اں کی وجہ سے خُدا کی طرف سے حقیقی پیامبر تھے ۔ آیت میں پولُس اور برنابس کے کیے گئے معجزات سے اِس خوشخبری کے پیغام کی 3 ب اُسکی 14 اعمال تصدیق ہورہی ہے ۔

باب بنیادی طور پر رُوح کے تحائف کے متعلق ہے۔ اِس نفیس مضمون سے ایسا 14 اور 12 کرنتھیوں اُس کی I ۔ ہم یہ(12:8-10, 28-30) لگتا ہے کہ "عام" مسیحیوں کو اکثر اوقات معجزانہ تحائف دیئے گئے تھے ۔ نہیں بتاتے کہ یہ کیسے واقع ہوا ۔ جو کچھ ہم اُوپر پڑھ چکے ہیں ۔ اُس میں سے کہ رسولوں کو نشان اور عجیب کاموں سے "نشان زدہ " کیاگیا تھا، یہ ایسے لگتا ہے کہ "عام " مسیحیوں کو معجزانہ تحائف دئے جانا ایک زبانی قانون تھا ناکہ ایک اصول تھا ۔ رُسولوں اور اُن کے قریبی ساتھیوں کے علاوہ ، نیا عہد نامہ یہاں پر خاص طور پر روُح کے معجزانہ تحائف سے کام کرنے والے افراد کو بیان کرتا ہے۔

یہ جاننا بھی بہت اہم ہے کہ ابتدائی کلیسیا کے پاس مکمل بائیبل نہیں تھی جیساکہ ہم آج کے دور میں کرتے ۔ تا ہم ابہام، تعلیم، حکمت کے تحائف (3:16-17 ہیں ۔ (تیمتھیس کا دوسرا خط ( تیمتھیس کا دوُسرا خط مسیحیوں کے لیے یہ جاننے کے لیے ضروری تھے ھو خُدا وند خُدا اُن میں کرے گا۔ ابہام کا تحفہ ایمانداروں کو خُدا کی طرف سے نئں سچائں اور مکاشفہ کو بیان کرنے کے قابل بناتا ہے ۔ اب بائیبل میں خُدا کا مکاشفہ مکمل ہے، "الہامی" تحائف کی آخر کار بالکل اُسی طرح کی استعداد جیسا کہ نئے عہد نامے میں تھی ان کی مزید ضروت نہ تھی۔

خُدا ہر روز لوگوں کو معجزانہ طور پر شفا دیتا ہے۔ خُدا آج بھی ہم سے کلام کرتا ہے ، خواہ قابل سماعت آواز میں، ہمارے ذہنوں میں ، یا محسوسات یا احساسات کے وسیلہ سے اوقات یہ معجزات ایک مسیحی کے وسیلہ سے ہوتے ہیں۔ تاہم یہ چیزیں روُح کے معجزانہ تحائف کے لیے ضروری نہیں ہیں ۔ معجزانہ تحائف کا بنیادی مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ انجیل سچی ہے اور یہ کہ رسُول خُدا کے سچے پیامبر ہیں ۔ بائیبل بالکل یہ نہیں کہتی ہے کہ معجزانہ تحائف رُک چکے ہیں ۔ بلکہ یہ اِس کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے کہ وہ کیوں اِ س خاص وقت میں وقوع پذیر نہیں ہوئے جیسا کہ نئے عہد نامے میں بیان کیے گئے ہیں ۔


سوال: غير زبانوں كي نعمت كيا هے؟ کیا غير زبان كي نعمت آج كي دنيا كے ليے هے؟

جواب:
غیر زبان میں بولنا پهلی دفعه اس وقت هوا جب پنتکوست کے دن اعمال2باب1تا4آیت۔ شاگرد باهر نکلے اور هجوم سے کلام مقدس کو بیان کیا، وه ان سے ان کی اپنی هی زبان میں بات کررهے تھے، "مگر اپنی اپنی زبان میں ان سے خدا کے بڑے بڑے کاموں کا بیان سنتے هیں"﴿اعمال2باب11آیت﴾۔ یونانی لفظ جس کا ترجمه زبانیں کیا گیا هے اس کا ادبی مطلب بولیاں هے۔ اس لیے غیر زبان کی نعمت وه زبان هے جس کو آدمی نه جان سکے اور وهی جانے جو اس زبان کو سمجھ سکتا هو۔ 1۔کرنتھیوں12اور14باب میں پولوس معجزانه نعمتوں کے بارے میں بیان کرتا هے، وه بتاتا هے که ، "پس اے بھائیوں اگر میں تمهارے پاس آکر بیگانه زبانوں میں باتیں کروں اور مکاشفه یا علم یا نبوت یا تعلیم کی باتیں تم سے نه کهوں توتم کو مجھ سے کیا فائده هو؟ ﴿1۔کرنتھیوں14باب6آیت﴾۔ پولوس رسول کے مطابق اور وعدے کے ساتھ جو زبانیں اعمال میں بیان کی گئی هیں ، غیرزبان میں بولنا اس ایک شخص کے لیے تو اچھا هے جو مرد یا عورت اس پیغام کو سمجھتا هے مگر دوسرے سب کے لیے یه بے فائده هے۔ اس وقت تک جب تک کوئی دوسرا اس کا ترجمه نه کرے۔

ایک شخص جس کو غیر زبانوں کا ترجمه کرنے کی نعمت ملی هے ﴿1۔کرنتھیوں12باب30آیت﴾سمجھ سکتا هے که غیر زبان بولنے والا شخص کیابول رها هے جبکه وه مرد یا عورت جو اس زبان کو بول رهی هے نهیں جانتی که کیا بول رها هے یا رهی هے۔ غیر زبان کا ترجمه کرنے والااس وقت غیر زبان بولنے والے کا پیغام دوسروں تک پهنچا رها هوتا هے تاکه سب سمجھ سکیں۔ "اس سبب سے جو بیگانه زبان میں باتیں کرتا هے وه دعا کرے که ترجمه بھی کر سکے ﴿1۔کرنتھیوں14باب13آیت﴾۔ پولوس غیرزبانوں کے بارے میں اس زبردست نتیجے پر پهنچا، "لیکن کلیسیا میں بیگانه زبان میں دس هزار باتیں کهنے سے مجھے یه زیاده پسند هے که اوروں کی تعلیم کے لیے پانچ هی باتیں عقل سے کهوں"﴿1۔کرنتھیوں14باب19آیت﴾۔

کیا غیر زبان کی نعمت آج کے دور کے لیے هے؟ 1۔کرنتھیوں13باب8آیت بتاتی هے که زبانیں جاتی رهیں گی، اگرچہ یه ناقص جاتا رهے گا جب "کامل"آئیگا 1۔کرنتھیوں13باب10آیت۔ کچھ نقطوں میں یه فرق زبانوں ، نبوت، اور حکمت "ختم هو جائیگی"، زبانوں کے ساتھ "ختم هو جائیں گی"یه ایک ثبوت هے که یه زبان جب کامل آئیگا تو جاتی رهیں گی۔ هوسکتا هے که یه واضع طور پر اس آیت سے بیان نه هوئی هو۔ پھر بھی کچھ آیات همیں راه دکھاتی هیں جیسے یسعیاه 28باب11آیت اور یوایل2باب28تا29آیت ثبوت هے که غیر زبان خدا کانشان هے آخیر زمانے کے لئے۔ 1۔کرنتھیوں14باب22آیت بیان کرتی هے که غیرزبان بے ایمانوں کے لئے ایک نشان هے۔ اس بیان کے مطابق غیر زبان کی نعمت یهودیوں کے لیے ایک تنبیه هے که خدا اسرائیل کا انصاف کرنے کے لیے آنے والا هے۔ جنهوں نے یسوع مسیح کو نجات دهنده ماننے سے انکار کیا تھا۔ اسی لیے جب خدا نے اسرائیل کو جانچااور﴿70اے ڈی میں جب رومیوں کے ذریعے یروشلیم کو تباه کیا ﴾تو غیر زبان کی نعمت نے اس کے اس مقصد کو پھر پورا نه کیا ۔ جبکه یه بھی هوسکتا هے، غیرزبان کا ابتدائی مقصد پورا هو گیا هو مگر اسے موقوف نه کیا گیا هو۔ مگر کلام مقدس اس بات کی حمایت نهیں کرتا که غیرزبان کی نعمت کو موقوف کر دیا گیا هے۔

ایک هی وقت میں اگر غیر زبانیں آج کی کلیسیا میں بولی جاتی هیں۔ یه کلام مقدس کے وعده کے ذریعے هو رها هے۔ یه زبان حقیقی اور حکمت سے پُر هے ﴿1۔کرنتھیوں14باب10آیت﴾۔ اس کا مقصد خدا کے کلام کو اس آدمی تک پهنچنا جو دوسری زبان کو جانتا هو ﴿اعمال2باب6تا12آیت﴾۔ یه حکم اس عهد کے ساتھ هے که جو خدا پولوس رسول کی معرفت دیتا هے، "اگر بیگانه زبان میں باتیں کرنا هو تو دو دو یا زیاده سے زیاده تین تین شخص باری باری سے بولیں اور ایک شخص ترجمه کرے۔ اور اگر کوئی ترجمه کرنے والا نه هو تو بیگانه زبان بولنے والا کلیسیا میں چپکا رهے اور اپنے دل سے اور خدا سے باتیں کرے"﴿1۔کرنتھیوں14باب27تا28آیت﴾۔ 1۔کرنتھیوں14باب33آیت میں یه بھی لکھا هے ، "کیونکه خدا ابتری کا نهیں بلکه امن کا بانی هے۔ جیسا مقدسوں کی سب کلیسیاؤں میں هے "۔

خدا یقینا غیرزبان کی نعمت اس مرد یا عورت کو دیتا هے جو کسی غیر زبان بولنے والے شخص سے مخاطب هوا چاهے ۔ پاک روح حاکم اعلیٰ هے جو روحانی نعمتوں کو بانٹتا هے ﴿1۔کرنتھیوں12باب11آیت﴾۔ صرف یه تصور کریں که یه مبلغین کتنے فائده مند هو سکتے هیں ۔ اگر جو کسی زبان سیکھانے والے سکول میں نهیں گئے اور یه بڑی هی روانی سے لوگوں سے ان کی اپنی هی زبان میں بات کرتے هیں۔ تاهم خدا ایسا کرنا نهیں چاهتا۔ زبانیں اسی طرح نهیں بولی جاتیں جیسے که یه نئے عهد نامے میں بولی جاتیں اس کے باوجود درحقیقت یه ایک بهت هی کامیاب اور مفید هے۔ ایمانداروں کی زیاده اکثریت جو غیرزبان کی نعمت کو استعمال کرتے هیں ایسا نهیں کرتے جیسا که کلام مقدس میں اوپر بیان کیا گیا هے ۔ یه حقیقت همیں اس نتیجے تک پهنچاتی هے که غیرزبانوں کی نعمت موقوف هوگئی هے، یا کم از کم یه خدا کے منصوبے میں آج کی کلیسیاؤں میں بهت کم پائی جاتیں هیں۔

جو لوگ یه سمجھتے هیں که غیر زبان کی نعمت ایک "دعائیه زبان"هے انکے اپنے اخلاقی اقدار کو بهتر بنانے کے لیے، وه اپنے اس تصور کو 1۔کرنتھیوں14باب4آیت اور14باب28آیت، "جو بیگانه زبان میں باتیں کرتا هے وه اپنی ترقی کرتا هے اور جو نبوت کرتا هے وه کلیسیا کی ترقی کرتا هے"۔ باب14میں پولوس رسول اس بات پر زور دیتا هے که غیر زبان کا ترجمه هو نا ضروری هے ، دیکھیں 14باب5تا12آیت۔ پولوس رسول آیت 4میں کیا کهتا هے ، "اگر تم غیر زبان بغیر ترجمه کے بولتے هو تم کچھ نهیں کرتے سوائے اس کے لیے که اپنے آپ کو ٹھیک کرتے هو۔ اپنے آپ کو دوسروں سے زیاده روحانی ظاهر کرتے هو۔ اگر تم غیر زبان میں بولتے هو اور ساتھ ترجمه بھی کرتے هو تو سب کے لیے بھلائی کرتے هو"۔ نیا عهد نامه کهیں بھی اس بات کی هدایت نهیں کرتا که آپ دعا میں غیر زبان کا استعمال کریں۔ نیا عهد نامه کهیں بھی غیر زبان کو "دعائیه زبان"نهیں بتاتا یا خاص طور پر یه نهیں بتاتا که غیر زبان "دعائیه زبان"هے۔ مزید یه که اگر غیر زبان دعائیه زبان هے تو یه صرف خود هی کی بهتری هے، کیا یه ناانصافی نهیں ان سے جن کے پاس غیر زبان کی نعمت نهیں اور جو خود کو بهتربنانے کے قابل نهیں هوئے؟ 1کرنتھیوں12باب29تا30آیت واضع طور پر یه بتاتی هے که هر ایک کو غیر زبان کی نعمت نهیں ملی