الہیات کے بارے سوالا ت
سوال: منظم علم الہیات کیا ہے ؟
جواب:
" منظم ہونا " کسی چیز کو ایک نظام میں ہونے کا حوالہ دیتا ہے ۔ تاہم منظم علمِ الہیات ، علم ِ الہیات کے نظامات میں تقسیم ہے جو کہ اِس کے بہت سارے پہلووں کی وضاحت کر تے ہیں ۔ مثال کے طور پر بائبل کی بہت ساری کتابیں فرشتوں کے بارے میں معلومات فراہم کرتیں ہیں ۔ کوئی بھی کتاب فرشتوں کے بارے میں مکمل معلومات فراہم نہیں کرتیں ہیں ۔ منظم علم الہیات بائبل کی تمام کتابوں میں سے فرشتوں کے بارے میں تمام معلومات لیتا ہے اور اِن کو ایک فرشتوں کے بارے میں علم کے نام کے نظام میں منظم کرتا ہے ۔ یعنی کہ وہ منظم علم الہیات کے بارے میں ہے جس میں بائبل کی تعلیمات کو مطلق نظامات میں منظم کیا جاتا ہے ۔ ٹھیک ٹھیک علم ِ الہیات یا پیڑرولوجی خد باپ کا مطالعہ ہے ۔ کرسٹولوجی خدا بیٹے خداوند یسوع مسیح کے مطالعہ کا نام ہے ۔ پینویٹولوجی خدا روح القدس کے مطالعہ کا نام ہے ۔ بائبلیولوجی بائبل کے بارے میں مطالعہ کا نام ہے ۔ سیٹریولوجی نجات کے بارے مطالعے کا نام ہے ۔ ایسلوسولوجی کلیسیا کے بارے میں مطالعے کا نام ہے ۔ ایسٹولوجی آکری قت کے مطالعے کا نام ہے ۔ اینجولوجی فرشتوں کے بارے مطالعے کا نام ہے ۔ کرسچن اینتھروپولوجی مسیحی نکتہ نظر سے انسان کے بارے میں مطالعہ کرنے کا نام ہے ۔ ہماریوٹولوجی گناہ کے بارے میں مطالعے کا نام ہے ۔ منظم علم الہیات بائبل کو ایک منظم طریقہ کار میں سمجھنے اور سکھانے میں ہماری مدد کرنے کے لیے ایک اہم آلہ ہے ۔
منظم علمِ الہیات میں اضافی طور پر یہاں پر دوسرے طریقے ہیں جن میں علمِ الہیات تقسیم ہو سکتا ہے ۔ بائبل کا علم الہیات بائبل کی خاص کتاب ( یا کتابوں) کا مطالعہ ہے اور علمِ الہیات کے مختلف پہلووں پر زور دیتا ہے جن پر مرکوز ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر یوحنا کی انجیل جب سے یہ مسیح کی اعلیٰ ہستی پر بہت زیادہ مرکوز ہوتی ہے یہ بہت زیادہ حد تک محض مسیح کے بارے میں مطالعہ ہے ( یوحنا 1 : 1 ، 14 20 : 28 ، 10 : 30 ۔ 8 : 58 ) تاریخی علم الہیات عقائد کے بارے میں مطالعے کا نام ہے کہ کس طرح اُنہوں نے مسیحی کلیسیا میں صدیوں میں ترویج ہائی ہے ۔ راسخ العتقاد علم الہیات مخصوص مسیحی گروہوں کے عقائد کے مطالعے کا نام ہے یہ ترتیب شُدہ قائد ہیں ۔ مثال کے طور پر کیلونسٹک علم الہیات اور ڈسپینسیشنل علم الہیات ۔ ہم عصر علم الہیات اُن عقائد کے مطالعے کا نام ہے جو موجود ہ اوقات میں ترقی پا چُکے ہیں یا مقاِ ارتکاز میں آگئے ہیں ۔ یہ کوئی معاملہ نہیں ہے علمِ الہیات کے مطالعے کا طریقہ کیا ہے ، کیا اہم ہے کہ علم ِ الہیات کا مطالعہ کیا جاتا ہے ۔
سوال: مسیحٰی دُنیاوی جائزہ کیا ہے ؟
جواب:
ایک " دُنیاوی جائزہ" ایک مخصوص نکتہ نظر سے دُنیا کے قابلِ فہم مفہوم کا حوالہ دیتا ہے ، پھر ، ایک ،" مسیحی دُنیاوی جائزہ " مسیحی نکتہ نظر سے دُنیا کا ایک قابلِ فہم مفہوم ہے ۔ ایک شخص کا دُنیاوی جائزہ دُیا کے بارے میں اُس کے تمام عقائد کی ایک ہم آہنگ اُس کی " بڑی تصویر " ہے ۔ حقیقت کو سمجھنے کا اُس کا یہ طریقہ ہے ۔ ایک آدمی کا دُنیاوی جائزہ روز مرہ کے فیصلے کرنے کی بنیاد پر ہے اور تاہم یہ انتہائی اہم ہے ۔
ایک میز پر پڑا ہوا ایک سیب کئی لوگوں کو دکھائی دیتا ہے ۔ ایک پودوں کے علم کا ماہر سیب کو دیکھتا ہے اور اُس کی جماعت بندی کرتا ہے ۔ ایک فنکار ایک رُکی ہوئی زندگی کو دیکھتا ہے اور اِسے کاغذ پر بنا دیتا ہے ۔ ایک پنساری اس منافع بخش چیز کو دیکھتا ہے اور اِس کی تفصیل درج کرتا ہے ۔ ایہ بچہ دوپہر کا کھانا دیکھتا ہے اور اِسے کھا لیتا ہے ۔ ہم کیسے کسی بھی صورتحال پر نظر کر تے ہیں اِس کے زیرِ اثرہے کہ کیسے ہم دُنیا پر وسیع حد تک نظر رکھتے ہیں ۔ ہر دُنیاوی جائزہ ، مسیحٰ یا غیر مسیحٰی آخر کار ان تین سوالوں کی بابت بات کرتا ہے ۔
1۔ ہم کہاں سے آئے تھے ( اور ہم یہاں کیوں ہیں ؟)
2۔ دُنیا کے ساتھ کیا غلط ہو رہا ہے ؟
2 ۔ ہم کس طرح اِسے مستحکم بنا سکتے ہیں ؟
آج کل ایک مقبول دُنیاوی جائزہ فطرت پرستی ہے ۔ جو کہ اِس طرح کے تینوں سوالوں کے جواب دیتی ہے : 1 ) ہم کسی حقیقی مقصد کے بغیر فطرت کے اتفاقی عوامل کی پیداوار ہیں 2 ) ہم فطرت کا احترام نہیں کر تے جتنا ہمیں کرنا چاہیے ۔ 3) ہم حیاتیات کے علم اور تحفظ سے دُنیا کو بچا سکتے ہیں ۔ ایک فطرتی دُنیاوی جائزہ بہت سارے متعلقہ فلسفے پیدا کرتا ہے جیسا کہ اخلاقی ع؛اقیت ، نظریہ وجودیت، نتائجیت اور خیال پرستی۔
دوسری طرف ایک مسیحی دُنیاوی جائزہ بائبل کے مطابق تین سوالوں کے جواب دیتا ہے : 1 ) ہم دُنیا پر حکومت کرنے اور اِس کے ساتھ رفاقت کرنے کو تیارخدا کی مخلوق ہیں ( پیدائش 2 : 15 ، 1 : 27 ۔ 28 ) 2) ہم نے خدا کے خلاف گناہ کیا اور تمام دُنیا کو ایک لعنت کے زیر ِ اثر کر دیا ( پیدائش 3 باب ) 3) خدا بذاتِ خود دُنیا کو اپنے بیٹے یسوع مسیح کی قپربانی کے وسیلہ سے نجات دہا ہے ( پیدائش 3 : 15 ، لوقا 19 : 10 ) اور ایک دن مخلوق کو اُس کی پہلی کامل حالت میں بحال کرے گا ( یسعیاہ 65 : 17 ۔ 25 ) ایک مسیحی دُنیاوی جائزہ اخلاقی کاملیت ، معجزات ، انسانی عظمت اور نجات کے ممکن ہونے پر ایمان رکھھے کی طرف سے ہماری راہنمائی کرتا ہے ۔
یہ یاد رکھنا اہم ہے کہ ایک دُنیاوی جائزہ قابلِ فہم ہے ۔ یہ رقم سے لیکر اخلاقیات تک ، سیاست سے لیکر فن تک زندگی کے ہر پہلو وں کو اثر انداز کرتا ہے ۔ حقیقی مسیحیت کلیسیا کے استعمال کے لیے خیالات کے ایک بنڈل سے بڑھ کر ہے ۔ مسیحیت جیسا کہ بائبل میں سکھایا گیا ہے بذاتِ خود ایک دُنیاوی جائزہ ہے ۔ بائبل کبھی بھی ایک " مذہبی " اور ایک " آزا د خیال " زندگی کے درمیان امتیاز نہیں کر تی ہے ، یہاں پر صرف مسیحی زندگی ہی ہے ۔ یسوع بذاتِ خود دعویٰ کرتا ہے ، " راہ ، حق اور زندگی میں ہوں " ( یوحنا 14 : 6 ) اور ایسا کرنے میں ہمارا دُنیاوی جائزہ بن جاتا ہے ۔
سوال: کلونیت بمقابلہ آرمینیت ۔ کون سا نکتہ نظر ٹھیک ہے ؟
جواب:
کلونیت اور آرمینیت علمِ الہیات کے دو نظام ہیں جو کہ خدا کی حاکمیت اور نجات کے معاملے میں انسان کی ذمہ داری کے درمیان رشتے کی وضاحت کرنے کی کوششش کر تے ہیں ۔ کلونیت ایک فرانسیسی عالمِ الہیات کے نام پر ہے جو کہ 1509 عیسوی سے 1564 عیسوی تک زندہ رہا ۔ آرمینیت جیکو بس آرمینیس ایک ولندیزی عالمِ الہیات کے نام سے ہے جو کہ 1560عیسوی سے 1609 عیسوی تک زندہ رہا تھا ۔
دونوں نظاموں کا پانچ نکات کے ساتھ خلاصہ بیان کیا جا سکتا ہے ۔ کلونیت انسان کی مکمل خلقی بدی پر اعتقا رکھتی ہے جبکہ آرمینیت انسان کی جُزوی خلقی بدی پر اعتقاد رکھتی ہے ۔ مکمل خلقی بدی انسان کے پر پہلو کے گناہ کے سبب سے پراگندہ ہونے کو بیان کر تی ہے ، تاہم بنی نوع انسان اپنے ارادی یا غیر ارادی افعام کے سبب سے خدا تک رسائی حاصل کرنے کے اہل ہیں ۔ جُزوی خلقی بدی پر اعتقاد یہ بیان کرتا ہے کہ انسان کا ہر پہلو گناہ کے سبب سے پراگندہ ہے ۔ لیکن اِس حد تک نہیں ہے کہ وہ اپنے ارادی یا غیر ارادی افعال کے سبب خدا میں ایمان رکھنے کے قابل نہیں ہیں ۔
کلونیت میں یہ عقیدہ بھی شامل ہے کہ چناو غیر مشروط ہے جبکہ آرمینیت ایمان رکھتی ہے کہ چناو مشروط ہے ۔ غیر مشروط چناو کا نکتہ نظر یہ ہے کہ خدا افراد کو نجا ت کے لیے صرف مکمل طور پر اپنی مرضی کی بنیاد پر چُنتا ہے نہ کسی شخص میں پیدائشی طور پر موجود خصائل کی بنیاد پر چُنتا ہے ۔ مشروط چناو بیان کرتا ہے کہ خدا افراد کو نجات کے لیے اپنے بیش آگاہی کے علم کہ کون نجات کے مسیح میں ایمان رکھے گا ، اِس شرط کے سبب ے ایک فرس خدا کو منتخب کرنے کی بنیاد پر چُنتا ہے ۔
کلونیت کفارے کو محدود طور پر دیکھتی ہے جبکہ آرمینیت اِسے لا محدود طور پر دیکھتی ہے ۔ یہ پانچ نکات میں سب سے زیادہ اختلافِ رائے رکھنے والا نکتہ نظر ہے ۔ یہ پانچ نکات میں سے سیے زیادہ اختلاف ِ رائے رکھنے والا نکتہ ہے ۔ محدود کفارہ یہ عقیدہ ہے کہ یسوع صرف چُنے ہوئے لوگوں کے لیے مُوا ۔ لامحدود کفارہ یہ عقیدہ ہے کہ یسوع سب کے لیے مُوا ۔ لیکن یہ کہ اُس کی موت اُس وقت تک موثر نہیں ہوتی جب تک ایک شخص ایمان کے ساتھ اُسے قبول نہیں کرتا ہے ۔
کلونیت میں یہ عقیدہ شامل ہے کہ خدا کا فضل ناقابلِ مزاحمت ہے جبکہ آرمینیت بیان کر تی ہے کہ ایک شخص خدا کے فضل کی مزاحمت کر سکتا ہے ، ناقابلِ مزاحمت فضل دلیل دیتا ہے کہ جب خدا نجات کے لیے ایک شخص کو بُلاتا ہے یہ شخص حتمی طور پر نجات کی طرف آئے گا ۔ مزاحمت کے قابل فضل اِس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ خدا سب کو نجات کےلیے بُلاتا ہے ، لیکن یہ کہ بہت سارے لوگ اِس پُکار کی مزاحمت اور اِسے رد کر تے ہیں ۔
کلونیت اولیا کی استقامت پر اعتقاد رکھتی ہے جبکہ آرمینیت مشروط نجات پر اعتقاد رکھتی ہے۔ اولیا کی استقامت اِس خیال کا حوالہ دیتی ہے کہ ایک شخص جو کہ خدا کی طرف سے چُنا گیا ہے ایمان میں اور میسح کا مستقل انکار یا اُس سے جو انحراف نہیں کرے گا ۔ مشروط نجات کا نکتہ نظر یہ ہے کہ سیح میں ایک ایماندار اپنی آزاد مرضی سے مسیح سے منحرف ہو سکتا ہے اور اِس کے باعث اپنی نجات کھو دیتا ہے ۔
پس کلونیت بمقابلہ آرمینیت کی بحث میں کون ٹھیک ہے ؟ اِس بات پر غور کرنا دلچسپ امر ہے کہ مسیح کے جسم کی تنوع (بناوٹ) میں کلونیت اور آرمینیت کے تمام ہمہ قسم کے مرکبات موجود ہیں ۔ یہاں پر کُلونی پانچ نکات اور پانچ آرمینی نکات ہیں ، اور بالکل اِسی وقت تین کلونی نکات اور دو آرمینی نکات ہیں ۔ کچھ ایماندار دونوں نکتہ نظر ے کچھ طرح کے مرکب تک پہنچتے ہیں ۔ آخر کار یہ ہمارا نظریہ ہے کہ دونوں نظام اِس میں ناکام ہو جاتے ہیں جو کہ وہ ناقابلِ وضاحت کی وضاحت کرنے کی کوشش ر تے ہیں ۔ بنی نوع انسان اِس طرح کے کسی ایک خیال کو مکمل طور پر سمجھنے کی استعداد رکھنے کے اہل نہیں ہیں ۔ جی ہاں خدا بالکل آزاد ہے اور سب کچھ جانتا ہے ۔ جی ہاں بنی وع انسان کو نجات کے لیے مسیح میں ایمان لانے کا حقیقی فیصلہ کرنے کے لیے بُلایا جاتا ہے ۔ یہ دونوں حقائق ہمارے لیے اختلافِ رائے رکھتے ہیں لیکن خدا کی حکمت میں وہ بالکل ٹھیک احساس رکھتے ہیں ۔
سوال: پہلے سے متعین کر دینے کا عمل کیا ہے؟ کیا پہلے سے متعین کر دینے کا عمل ( پیش تر) بائبل کے مطابق ہے ؟
جواب:
رومیوں 8 : 29 ۔ 30 ہمیں بتاتی ہے ، " کیونکہ جن کو اُس نے پہلے سے جانا اُنکو پہلے سے مقر ر بھی کیا کہ اُس کے بیٹے کے ہمشکل ہوں تاکہ وہ بہت سے بھائیوں میں پہلوٹھا ٹھہرے ۔ اور جن کو اُس نے پہلے سے مقرر کیا اُنکو بُلایا بھی اور جنکو بُلایا اُنکو راستباز بھی ٹھہرایا اور جنکو راستباز ٹھہرایا اُنکو جلال بھی بخشا۔" افسیوں 1 باب اُس کی 5 اور 11 آیت بیان کر تی ہیں ۔ " اور اُس نے اپنی مرضی کے نیک ارادہ کے موافق ہمیں اپنے لیے پیش تر سے مقرر کیا کہ یسوع مسیح کے وسیلہ سے اُس کے لے پالک بیٹے ہوں ۔۔۔ اُسی میں ہم بھی اُس کے ارادہ کے موافق جو اپنی مصلحت سے سب کچھ کرتا ہے پیش تر سے مقرر ہو کر میراث بنے ۔" بہت سارے لوگ پیش تر سے مقرر ہونے کے عقیدے کی ایک مضبوط مخالفت کرتے ہیں ۔ تاہم پیش تر سے مقرر ہونا بائبل کے مطابق ایک عقیدہ ہے ۔ عقل و فہم ایک چابی کی طرح کہ بائبل کے مطابق پیش تر سے مقرر ہونے کا کیا مطلب ہے ۔
کلام میں پہلے سے مقرر کے لیے ترجمہ شُدہ الفاظ اوپر دئے گئے حوالوں میں یونانی لفظ
" سے ہیں جو کہ " وقت سے پہلے مقرر ہونا "، " مقرر کرنا " ، " وقت کے Proorozo”
آنے سے پہلے فیصلہ کرنا " ہیں ۔ پس وقت سے پہلے متعین کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا وقت کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے خاص چیزوں کو مقرر کر رہا ہے ۔ خدا نے وقت کے آنے سے پہلے کیا مقرر کیا تھا ؟ رومیوں 8 : 29 ۔ 30 کے مطابق خدا نے پہلے سے مقرر کیا تھا کہ مخصوص افراد اُس کے بیٹے کے ہمشکل ہوں گے ، بلائے جائیں گے ۔ اور راستباز ٹھہرائے اور جلال پائیں گے ۔ ضروری بات یہ ہے کہ خدا پہلے سے ہی تعین کرتا ہے کہ مخصوص افراد ہی نجات پائیں گے ۔ مسیح میں ایمانداروں کے چُنے جانے کے کلام کے بے شمار حوالے ہیں ( متی 24: 22، 31 ، مرقس 13 : 20، 27 ، رومیوں 8 : 33، 9 : 11 ، 11: 5 ۔ 7 28 ، افسیعں 1 : 11 ، کُلسیوں 3 : 12 ، 1 تھسلینکیوں 1 : 4 ، 1 تیمتھیس 2 : 10 ، ططس 1 : 1 ، 1 پطرس 1 : 1 ۔2، 2 : 9 2 پطرس 1 : 10 ) ۔ پہلے سے مقرر کرنے کا عقیدہ بائبل کا ہے کہ خدا اپنی حاکمیت میں نجات کے لیے مخصوص افراد کو چُنتا ہے ۔
پہلے سے مقرر کیے جانے کے عقیدے پر سب سے عام اختلاف یہ ہے یہ غیر منصفانہ ہے ۔ خدا کیوں مخصوص افراد کو چُنتا ہے اور دوسروں کو نہیں چُنتا ہے؟ یاد رکھنے کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ کوئی بھی نجات کا حق دا نہیں ہے ، ہم سب نے گناہ کیا ( رومیوں 3 : 23 ) ، اور سب ابدی ہلاک کے لائق ہیں ( رومیوں 6 : 23 ) ۔ ایک نتیجے کے طور پر خدا ہم میں سے سب کو دوزخ میں ابدی زندگی گزارنے کے اجازت دینے میں کامل منصف ہے ۔ تاہم خدا ہم میں سے کچھ کو نجات کے لیے چُنتا ہے ۔ وہ اُن لوگوں کے ساتھ غیر منصفانہ نہیں ہے جو چُنے نہیں جاتے ہیں کیونکہ وہ وہی وصول کر رہے ہیں جس کے وہ مستحق ہیں ۔ خدا کا چُننے کا عمل کا کچھ لوگوں کے لیے شفقت آمیز ہونا دوسروں کے لیے غیر منصفانہ نہیں ہے ۔ کوئی بھی خدا کی طرف سے کسی چیز کا بھی مستحق نہیں ہے ، لیکن کوئی بھی یہ اعتراض نہیں کر سکتا ہے اگر وہ خدا کی طرف سے کوئی چیز حاصل نہیں کرتا ہے ۔ اِس کی ایک مثال یہ ہو گی کہ ایک آدمی بیس لوگوں کے ہجوم میں پانچ لوگوں کو بے ترتیبی سے ہاتھ کے ساتھ رقم تقسیم کرتا ہے ۔ کیا پندرہ لوگ جنہوں نے رقم وصول نہ کی پریشان ہوں گے ؟ غالبا ً ایسا ہی ہو ۔ کیا اُن کو پریشان ہونے کا حق ہے ؟ نہیں اُن کو حق نہیں ہے کیوں َ کیوں آدمی ہر کسی کورقم دینے کا پابند نہیں تھا ۔ اُس نے واضح طور پر کچھ لوگوں کے ساتھ مہربانی کرنے کا فیصلہ کیا ۔
اگر خدا اُن کو چُن رہا ہے جو نجات پا چُکے ہیں تو کیا یہ ہماری آزادانہ مرضی اور مسیح میں ایمان رکھنے کو تباہ و برباد نہیں کرتا ہے ؟ بائبل بیان کر تی ہے کہ ہم انتخاب کا حق رکھتے ہیں ۔ وہ تمام جو یسوع مسیح میں ایمان رکھتے ہیں نجات پائیں گے ( یوحنا 3 : 16 ، رومیوں 10 : 9 ۔ 10 ) بائبل کبھی بھی یہ بیان نہیں کر تی ہے کہ خدا کسی کو بھی جو اُس میں ایمان رکھتا ہے یا کسی کو واپس بھیج دیا جو اُسے تلاش کر رہا ہے رد نہیں کر رہا ہے ۔ ( استثنا 4 : 29 ) خدا کی پر اسراریت میں پہلے سے مقرر کرنے کا عمل خدا سے وحشت زدہ ( یوحنا 6 : 44 ) اور نجات پر ایمان رکھنے والے ایک آدمی کے ساتھ ساتھ کام کرتا ہے ( رومیوں 1 : 16 ) خدا پہلے سے مقرر کرتا ہے کہ کون نجات پائے گا اور ہمیں نجات پانے کی خاطر مسیح کا انتخاب کرنا چاہیے ۔ دونوں حقائق مساوی طور پر سچے ہیں ۔ رومیوں 11 : 33 دعویٰ کر تی ہے ، " واہ ! خدا کی دولت اور حکمت اور علم کیا ہی عمیق ہے ! اُس کے فیصلے کس قدر ادراک سے پرے اور اُس کی راہیں کیا ہی بے نشان ہیں !" ۔
سوال: آمدِ ثانی سے قبل ہزار سالہ بادشاہی کا عقیدہ کیا ہے ؟
جواب:
آمدِ ثانی سے قبل ہزار سالہ بادشاہی کا عقیدہ طرزِ فکر ہے کہ مسیح کی آمدِ ثانی اُس کے ہزار سالہ بادشاہی سے قبل وقوع پذیر ہو گی اور یہ کہ ہزار سالہ بادشاہی زمین پر مسیح کی 1000 سالہ حکومت کی ایک تشبیہ ہے ۔ کلام میں اُن پیرا گراف کو سمجھنے کی خاطر اور وضاحت کرنے کے لیے جو آخری وقت کے واقعیات سے متعلقہ ہیں دو باتوں کو ہمیں واضح طور پر سمجھ لینا چاہیے ۔
کلام کی تشریح کا ایک مناسب طریقہ او اسرائیل ( یہودیوں) اور کلیسیا ( یسوع مسیح میں تمام ایمانداروں کی جماعت) میں فرق ۔
یہی بات کلام کی تشریح کا معقول طریقہ تقاضا کرتا ہے کہ کلام کی ایک ایسے طریقہ میں تشریح کی جائے جو اُس کے سیاق و اسباق کے مطابق ہو ۔ اِس کا مطلب ہے ایک پیرا گراف اِس طریقے میں شارح پذیر ہو جو کہ سامعین کے موافق ہو جن کے لیے یہ لکھا گیا ، کن لوگوں کے بارے میں لکھا گیا ، کس نے اِسے لکھا وغیرہ وغیرہ ۔ ہر پیرا گراف جس کی کوئی تشریح کرتا ہے اُس کے منصف ، متعلقہ سامعین اور تاریخی پس منظر جاننا تنقیدی ہے ۔ تاریخی اور ثقافتی ماحول بعض اوقات ایک پیدا گراف کا ٹھیک ٹھیک مطلب منکشف کر دے گا ۔ یہ یاد رکھنا بھی بہت ضروری ہے کہ کلام ، کلام کی وضاحت کرتا ہے ۔ یعنی اکثر ایک پیرا گراف ایک موضوع یا عنوان و چھپائے ہوئے ہو گا تو یہ بائبل میں کسی دوسری جگہ وعظ کیا گیا ہے ۔ ان تما م پیرا گرافوں کی ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت سے تشریح کرنا ہم ہے ۔
آخری اور اہم ترین بات یہ ہے کہ پیرا گرافوں کو ہمیشہ اُن کے فطری ، باقاعدہ ، واضح اور لفظ بلفظ معنوں میں لینا چاہیے جب تک کہ پیرے کے سیاق و اسباق نشاندہی نہیں کر تے کہ یہ اصل میں اعداد و شمار کی طرف ہے۔ ایک لغوی وضاحت کلام کے اعداد و شمار کے استعمال ہونے کی مناسبت کو نظر انداز نہیں کر تی ہے ۔ بلکہ یہ مفسرین کی حوصلہ افرائی کرتی ہے کہ وہ ایک پیرا گراف کے اعداد و شمار کی زبان کو معنی کے لحاظ سے نہ پڑھے جب تک کہ یہ اِس سیاق و اسباق کے لیے موزوں نہ ہو ۔ پیش کیے گئے معنوں سے بڑھ کر کبھی " زیادہ گہرے ، زیادہ روحانی " تلاش کرنا ایک نہایت پریشان کن عمل ہے ۔ ایک پیراگراف کو روحانی لحاظ سے بیان کرنا خطرناک ہے کیونکہ یہ کلام میں سے ٹھیک ٹھیک تشریح کی بنیادوں کو پڑھنے والے کے ذہن میں منتقل کر دیتا ہے ۔ پھر تشریح کا کوئی بھی تنقیدی معیار نہیں ہو سکتا ، اِس کی بجائے کلام ہر شخص کے اپنے تاثر کا موضوع بن جاتا ہے کہ اِس کا کیا مطلب ہے ۔ دوسرا پطرس 1 : 20 ۔ 21 ہمیں یاد دہانی کرتی ہے کہ ، " کسی نبوت کی بات کی تاویل کسی کے ذاتی اختیار پر موقوف نہیں ۔ کیونکہ نبوت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی بلکہ آدمی روح القدس کی تحریک کے سبب سے خدا کی طرف سے بولتے تھے ۔ "
بائبل کی تشریح کے اِن قواعد و ضوابط کو لاگو کر تے ہوئے یہ دیکھا جانا چاہیے کہ اسرائیل ( ابراہام کی جسمانی نسل ) اور کلیسیا ( عہد نامہ جدید کے تمام ایماندار ) دو امتیازی گروہ ہیں ۔ اِس کی پہچان کرنا نہایت پریشان کُن مرحلہ ہے کہ اسرائیل اور کلیسیا مختلف ہیں کیونکہ اگر یہ غلط سمجھ لیا گیا تو کلام کی تشریح غلط ہو گی ۔ خاص طور پر غلط تشریحات کی طرف مائل وہ پیرا گراف ہیں جو اسرائیل کے ساتھ کیے گئے وعدوں کے بارے میں ہیں ( جو پورے ہوئے اور جو پورے نہ ہوئے دونوں طرح کے ) ۔ اِس طرح کے وعدوں کو کلیسیا پر لاگو نہیں کرنا چاہیے ۔ یاد رکھیں پیرا گراف کا سیاق و اسباق اِس بات کا تعین کرے گا کہ یہ کن لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے اور سب سے ٹھیک تشریح کی طرف راہنمائی کرے گا ۔
اِن خیالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم کلام کے بہت سارے پیرا گرافوں پر نظر کر سکتے ہیں جو کہ آمدِ ثانی سے قبل ہزار سالہ بادشاہی کے عقیدے کا جائزہ پیش کر تے ہیں ۔ پیدائش 12 : 1 ۔ 3 ، " اور خداوند نے ابراہام سےکہا کہ تُو اپنے وطن اور اپنے ناتے داروں کے بیچھ سے اور اپنے باپ کے گھر سے نکل کر اُس مُلک میں جا جو میں تُجھے دکھائوں گا ۔ اور میں تُجھے ایک بڑی قوم بنائوں گا اور برکت دونگا اور تیرا نام سرفراز کروں گا ۔ سو تو باعث برکت ہوا ۔ جو تُجھے مبارک کہیں اُنکو میں برکت دونگا اور جو تُجھ پر لعنت کرے اُس پر میں لعنت کرونگا اور زمین کے سب قبیلے تیرے وسیلہ سے برکت پائیں گے ۔ "
یہاں پر خدا ابراہام سے تین باتوں کا وعدہ کرتا ہے : ابراہام کی بہت زیادہ اولاد ہو گی ، یہ قوم ایک ملک کی مالک اور اِس پر قبضہ کرے گی اور ابراہام کے خاندان کے وسیلہ سے تمام بنی نوع انسان پر ایک عالمگیر برکت آئے گی ( یہودیوں)۔ پیدائش 15 : 9 ۔ 17 میں خدا ابراہام کے ساتھ اپنے عہد کی توثیق کرتا ہے ۔ جس طرح سے یہ کی گئی ہے خدا عہد کی ساری ذمہ داری اپنے آپ پر لے لیا ہے ۔ یعنی کہ یہاں پر کوئی ایسی بات نہیں ہے جو ابراہام کر سکتا یا کرنے میں ناکام رہتا جو خد اکے لیے کیے گیے عہد کو کالعدم کرے گی ۔ اِس پیرا گراف میں ملک کی سرحدوں کا بھی تعین کیا گیا ہے جس پر آخر کار یہودی قبضہ کریں گے ۔ اِن سرحدوں کی تفصیلات کے لیے استثنا 34 باب دیکھیں ۔ ملک کے وعدے کے بارے میں دوسرے پیرا گراف استثنا 30 : 3 ۔ 5 اور حزقی ایل 20 : 42 ۔ 44 ہیں ۔
2 سیموئیل 7 : 10 ۔ 17 آیت میں ہم دائود بادشاہ کے ساتھ خدا کے کیے جانے والے عہد کو دیکھتے ہیں ۔ یہاں پر خدا داود سےعہد کر تا ہے کہ اُس کی اولاد ہو گی اور اِس اولاد میں سے خدا ایک ابدی بادشاہی قائم کرے گا ۔ یہ ہزار سالہ بادشاہی کے دوران اور ہمیشہ کے لیے مسیح کی حکمرانی کا حوالہ دے رہا ہے ۔ یہ ذہن میں رکھنا نہایت اہم ہے کہ یہ عہد لفظ بلفظ ضرور پورا ہو گا اور ابھی تک یہ وقوع پذیر نہیں ہوا ہے ۔ کچھ ایمان رکھتے ہیں کہ سلیمان کی بادشاہی اِس نبوت کی ہو بہو تکمیل تھی ، لیکن اِس کے ساتھ ایک مسئلہ ہے ۔ وہ علاقہ جس پر سلیمان نے حکمرانی کی تھی آج کل اسرائیل کی ملکیت نہیں ہے ، اور نہ ہی سلیمان آج کل اسرائیل پر حکومت کرتا ہے ۔ یاد رکھیں کہ خدا نے ابراہام سے عہد کیا تھا کہ اُس کی اولاد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک وطن کی مالک ہو گی ۔ 2 سیموئیل 7 باب بھی بیان کرتا ہےکہ خدا ایک بادشاہ قائم کرے گا جو ابدیت تک حکمرانی کرے گا ۔ سلیمان داود کے ساتھ کیے گیے عہد کی ایک تکمیل نہیں ہو سکتا ۔ لیکن یہ ایک عہد ہے جسے ابھی پورا ہونا ہے ۔
اب اِن تمام باتوں کو ذہن میں رکھنے کے ساتھ جائزہ لیں کہ مکاشفہ 20 : 1 ۔ 7 میں بیان کیا گیا ہے ۔ ہزار سال جس کا اِس پیرا گراف میں بار بار حوالہ دیا گیا ہے زمین پر مسیح کی ہو بہو 1000 سال کی بادشاہی کے ساتھ جُرا ہوا ہے ۔ ایک حکمران کے بارے میں داود کے ساتھ کیے گیے عہد کو یاد کریں اِس کی ہو بہو تکمیل کرے گا اور ابھی تک یہ وقوع نہیں ہوا ہے ۔ آمدِ ثانی سے قبل ہزار سالہ بادشاہی کا عقیدہ اِس پیرا گراف کو اِس طرح دیکھتا ہے جیسے یہ تخت پر مسیح کی آمد کے وعدے کے ساتھ مستقبل کی تکمیل کو بیان کر رہا ہے ۔ خدا نے ابراہام اور داود دونوں کے ساتھ غیر مشروط عہد کیے ۔ اِن عہدوں میں سے کوئی بھی مکمل طور پر اور مستقل طور پر پورا نہیں ہو رہا ہے ۔ مسیح کی ہو بہو جسمانی حکمرانی ہی محض وہ طریقہ ہے کہ عہد پارے ہو سکیں جس طرح خدا نے وعدہ کیا تھا کہ وہ پورے ہونگے گے ۔
کلام کے لیے لفظ بلفظ تشریح کا طریقہ لاگو کرنے سے آمد کے اُلجھے ہوئے معاملے کے ٹکڑوں میں نتائج حاصل ہوتے ہیں ۔ یسوع کی پہلی آمد کی پُرانے عہد نامے کی تمام نبوتیں لفظ بلفظ پوری ہوئی تھیں ۔ تاہم ہمیں اسی طرح اُس کی آمد ِ ثانی سے متعلقہ نبوتوں کو قبول کرنا چاہیے آمد ِ ثانی سے قبل ہزار سالہ بادشاہی کا عقیدہ صرف واحد نظام ہے جو کہ خدا کے وعدوں کی ہو بہو تشریح اور آخری اوقات کی نبوت کے ساتھ متفق ہے ۔
سوال: خدا کی طرف سے نازل شُدہ شرعی نظام کیا ہے ؟ اور کیا یہ بائبل ہے ؟
جواب:
خدا کی طرف سے نازل شُدہ شریعت الہیات کا ایک نظام ہے جس کے بنیادی فرق ہیں 1) کلام کی ایک مسلسل لفظ بلفظ تشریح ، خاص طور پر بائبل کی پیشن گوئی کی ۔ 2 ) خدا کے پروگرام میں اسرائیل اور کلیسیا کے درمیان ایک تفریق )
خدا کی طرف سے نازل شُدہ شرعی نظام کے حامل دعویٰ کر تے ہیں کہ اُن کی تفاسیر کا اصول یہ ہے کہ تشریح ہو بہو ہو ، جس کا مطلب ہے کہ ہر لفظ کا معنی دیتے ہوئے کہ روز مرہ کے استعمال میں عام ہونا چاہیے ۔ اِس طریقے میں علامات ، اندازِ بیان کے اعداد و شمار اور اقسام سب صاف صاف تشریحا بیان ہوتا ہے اور یہ کسی بھی طرح سے لفظ بلفظ تشریح سے اختلاف نہیں رکھتا ۔ حتی کہ علامات اور اعدادو شمار کے بیانات اپنے اندر لفظ بلفظ معنی رکھتے ہیں ۔
یہ یہاں پر کم از کم تین وجوہات بیان کی گئی ہیں کہ کیوں یہ کلام کو دیکھنے کا سب سے بہترین طریقہ ہے ۔ پہلا فلسفیانہ طور پر زبان کا مقصد اپنے آپ تقاضا کرتا ہے کہ ہم اِسے ہو بہو بیان کریں ۔ انسان کے ساتھ رابطے کرنے کے قابل بنانے کے مقصد کے لیے زبان خدا کی طرف سے عنایت کی گئی تھی ۔ دوسری وجہ بائبل کے مطابق ہے ۔ پُرانے عہد نامے میں یسوع کے بارے میں ہر نبوت ہو بہو پوری ہوئی ۔ یسوع کی پیدائش ، یسور کی منادی ، یسوع کی موت اور یسوع کا مُردوں میں سے دوبارہ جی اُٹھنا سب کچھ اِسی طرح وقوع پذیر ہوا جس طرح پُرانے عہد نامہ میں پیشن گوئی کی گئی تھی ۔ نئے عہد نامے میں اِن نبوتوں کی کوئی بھی ہو بہو نامکمل تکمیل موجود نہیں ہے ۔ یہ لفظ بلفظ بیان کرنے کے طریقہ کی ایک مضبوط دلیل ہے ۔ اگر بائبل کے مطالعے میں لفظ بلفظ تشریح کا استعمال نہیں ہوتا ہے تو یہاں ہر کوئی بھی فکری معیار نہیں ہو گا جس سے بائبل کو سمجا جا سکے ۔ ہر ایک شخص جیسے وہ مناسب دیکھے گا بائبل کی تشریح کرنے کے قابل ہو جائے گا ۔ بائبل کی تشریح " بائبل کہتی ہے " کی بجائے " یہ پیرا گراف مُجھ سے کیا کہتا " میں تبدیل ہو جائے گی ۔ افسوس کے ساتھ کہ یہ معاملہ پہلے ہی موجود ہے جو کہ آج کل بائبل کی تفسیر کہلاتی ہے ۔
شرعی نظام کا الہامی علم سکھاتا ہے کہ خدا کے دو مختلف قسم کے لوگ ہیں : اسرئیل اور کلیسیا ۔ شرعی نظام عقیدہ کے حامل ایمان رکھتے ہیں ۔ پُرانے عہد نامے میں نجات ہمیشہ خدا میں رکھنے سے اور نئے عہد نامے میں خاص طور پر خدا بیٹے میں ایمان رکھنے سے ملتی رہی ہے ۔ شرعی نظام عقیدہ کے حامل یقین رکھتے ہیں کہ خدا کے پروگرام میں کلیسیا نے اسرائیل کی جگہ نہیں لی تھی اور پُرانے عہد نے اسرائیل کو کلیسیا میں تبدیل کرنے کا وعدہ نہیں کیا ۔ وہ ایمان رکھتے ہیں کہ پُرانے عہد نامہ میں خدا نے اسرائیل سے ( وطن کے لیے ، بے شمار نسل کے لیے ، اور برکات کے لیے ) کیے گئے وعدے آخر کار مکاشفہ 20 باب میں بیان کیے گئے 1000 سالہ دور میں پورے ہوں گے ۔ شرعی نظام کے عقیدہ کے حامل یقین رکھتے ہیں جس طرح خدا اِس دور میں اپنی توجہ کلیسیا پر مرکوز کرتا ہے ، وہ مستقبل میں اپنی توجہ اسرائیل پر مرکوز کرے گا ۔ ( رومیوں 9 : 11 )
اِس نظام کو ایک بنیاد کے طور پر استعمال کرتے ہوئے شرعی نظام کے عقیدہ کے حامل بائبل کو سات بانٹی جانے والی اشیاء میں منظم سمجھتے ہیں ۔ معصومیت ( پیدائش 1 : 1 ۔3 : 7 ) ، ضمیر ( پیدائش 3 : 8 ، 8 : 22 ) انسانی حاکمیت ( پیدائش 9 : 1 ، 11 : 32 ) وعدہ ( پیدائش 12 : 1 ، خروج 19 : 25 ) شریعت ( خروج 20 : 1 ، اعمال 2 : 4 ) ، فضل ( اعمال 2 : 4 ، مکاشفہ 20 : 3 ) اور ہزار سالہ بادشاہت ( ماشفہ 20 : 4 ۔ 6 ) پھر سے بیان کیا جاتا ہے کہ یہ تقسیم کی جانے والی اشیاء نجات کے راستے نہیں ہیں لیکن اُن اسلوب میں جو کہ خدا انسان سے منسوب کرتا ہے ۔ شرعی نظام ایک نظام کے طور پر مسیح کی آمدِ ثانی کی ہزار سالہ بادشاہت کی تشریح اور عام طور پر دوبارہ جی اُٹھنے کی مصیبت سے پیلے کی تشریح کے لیے نتائج فراہم کرتا ہے ۔ مختصراً شرعی نظام ایک الہی نظام ہے جو کہ اسرائیل اور کلیسیا کے درمیان ایک واضھ نشاندہی کرتے ہوئے بائبل کی نبوت کی لفظ بلفظ تشریح پر زور دیتا ہے اور بائبل کو مختلف نظامات میں منظم کرتا ہے جو یہ پیش کر تی ہے ۔