نجات فی الحقیقت ایک نہایت اہم مضمون ہے۔ جب میں نجات کے اہم ترین موضوع کو بیان کرتا ہوں تو مبالغہ آرائی نہیں کرتا کہ ہر بشر کو اِس موضوع پر غور و فکر کرنا ہے۔ خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو ابتدا ہی سے نجات دینے کا ارادہ کیا اور اِسی حقیقت کو بَر لانے کےلئے خُدا مسیح کے رُوپ میں مُجسّم ہوا یعنی خُدا کے کلام و رُوحِ خُدا نے اِنسانی جسم [لِباسِ مجاز] میں اپنے آپ کو ظاہر کیا۔
اَب جبکہ نجات ایک ایسا نازک و فیصلہ کن موضوع ہے تو ہمیں اِس کی فطرت، معنی اور اہمیّت کو جاننا ضرور ہے اور ہمیں تحقیق کرنا چاہئے کہ نجا ت کیا ہے اور کہاں سے ہے؟ جب کہ گناہوں سے بچنے کےلئے ہمیں اِس کی ضرورت ہے۔
بائبل مقدّس سے اور مسیح کے دُنیا میں آنے کے خاص مقصد سے ہم سمجھتے ہیں کہ نجات کا مطلب گناہ کی غُلامی سے آزادی ہے جِسکا انجام گناہوں سے مکمل رہائی ہے۔ اِنجیلِ مقدّس میں یوں بیان ہے کہ ابنِ آدم (گناہ اور موت میں) کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈنے اور نجات دینے آیا ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ مسیح کا اِس دُنیا میں آنے کا مقصد اُن لوگوں کو نجات دینا ہے جو گناہوں اور خطاؤں کے باعث ہلاک ہوچکے ہیں۔ اِس مقصد کی تکمیل کی خاطر مسیح کو نجات کی راہ کی تیاری کےلئے سب کچھ کرنا پڑا، یہاں تک کہ خُدا کی رحمت اور پیار سے مغلوب ہو کر اُس نے اپنی جان گناہگاروں کےلئے (کفّارہ و فدیہ) میں دے دی۔
ڈیوک آف کینٹ، انگلینڈ کی ملکہ وکٹوریہ کا باپ جب قریبُ المرگ تھا تو ڈاکٹر اُس کو ڈھارس و تسلی دینے کےلئے گیا اورکہا "اے میرے آقا! آپ شاہانہ منصب کی عطا کردہ پروردِگاری کے زیرِسایہ اطمینان پائیے۔" ڈیوک نے جواب دیا "عین ممکن ہے کہ یہ سچ ہو لیکن میری نجات میری نمایاں سرکاری حیثیت پر مُنحصر نہیں بلکہ میرے اِس اِقرار پر ہے کہ میں گناہگار ہوں اور مسیح مجھے (گناہ و موت سے) بچانے کےلئے آیا۔" اُس کے الفاظ پولُس رسول کے اِن الفاظ کی صدائے بازگشت تھے:
"یہ بات سچ اور ہر طرح سے قبول کرنے کے لائق ہے کہ مسیح یسوع گنہگاروں کو نجات دینے کےلئے دُنیا میں آیا جِن میں سب سے بڑا میں ہوں" (1- تیمتھیس 15:1)۔
میں کیا کروں کہ نجات پاؤں؟
آج سے تقریباً دو ہزار سال پہلے یہی سوال فلپی دوراغہ نے پولُس اور اُس کے ساتھی سیلاس سے پوچھا تھا۔ اُس کا جواب یہ تھا: "خُداوند یسوع پر ایمان لا تو تُو اور تیرا گھرانا نجات پائے گا" (اعمال 31:16)۔
یہ نہایت سادہ مگر واضح ہے کہ آدمی کو اپنی نجات کےلئے کچھ بھی نہیں کرنے کو کہا گیا۔ اُسے صِرف خُداوند مسیح یسوع پر ایمان لانا ہے کیونکہ نجات کےلئے کوئی دوسری راہ نہیں۔ خُدا کے فرشتے نے (یوسف سے) مُبارک کنواری مریم کے حق میں یوں کہا: "اُس کے بیٹا ہو گا اور تُو اُس کا نام یسوع رکھنا کیونکہ وہی اپنے لوگوں کو اُن کے گناہوں سے نجات دے گا" (متی 21:1)۔
جب یوحنا بپتسمہ دینے والے نے مسیح کو اپنی طرف آتے دیکھا تو کہا: "دیکھو! یہ خُدا کا برّہ ہے جو دُنیا کا گناہ اُٹھا لے جاتا ہے" (یوحنا 29:1)۔
تاہم، نجات پر کامل ایمان کے ہمراہ (مسیح کے) رسُولوں کے حکم کے مطابق ہمیں پہلے اپنے گناہوں کا اِقرار کرنا ضروری ہے: "اگر اپنے گناہوں کا اِقرار (اعتراف) کریں تو وہ ہمارے گناہوں کے معاف کرنے اور ہمیں ساری ناراستی سے پاک کرنے میں سچّا اور عادِل ہے" (1- یوحنا 9:1)۔
دوسرا یہ کہ اقبالِ جرم کے ساتھ گناہوں سے توبہ (پچھتاوا، ندامت، پشیمانی) شامل ہو:
"پس خُدا جہالت کے وقتوں سے چشم پوشی کر کے اَب سب آدمیوں کو ہر جگہ حکم دیتا ہے کہ توبہ کریں" (اعمال 30:17)۔
"پس توبہ کرو اور رجوع لاؤ تا کہ تمہارے گناہ مٹائے جائیں اور اِس طرح خُداوند کے حُضور سے تازگی کے دن آئیں" (اعمال 19:3)۔
سو یہ حتمی بات ہے کہ گناہوں کے اِقرار کے ساتھ توبہ والا ایمان ہر انسان کےلئے واجب ٹھہرایا گیا ہے۔
مسیح یسوع نے اپنی بُہت سی تمثیلوں میں گناہ کو ایک قرض کے طور پر بیان کیا ہے۔ ایک بدکار نوکر کے متعلق مسیح نے یوں کہا کہ: "پس آسمان کی بادشاہی اُس بادشاہ کی مانند ہے جِس نے اپنے نوکروں سے حساب لینا چاہا اور جب حساب لینے لگا تو اُس کے سامنے ایک قرضدار حاضر کیا گیا جِس پر اُس کے دس ہزار توڑے آتے تھے" (متی 23:18۔24)۔
ایک اَور تمثیل میں مسیح نے یوں فرمایا: "کسی ساہوکار کے دو قرضدار تھے۔ ایک پانسو دِینار کا، دوسرا پچاس کا۔ جب اُن کے پاس ادا کرنے کو کچھ نہ رہا تو اُس نے دونوں کو بخش دیا۔ پس اُن میں سے کون اُس سے زیادہ محبت رکھے گا؟" (لوقا 41:7۔42)۔
فی الحقیقت گناہ ایک بہت بڑا قرض ہے جو گناہگاروں کو خُدا کا قرضدار ٹھہراتا ہے، چاہے یہ قرض بڑا ہے یا چھوٹا، اِسے اَدا کرنے کا عوضانہ اِس سے کہیں بڑھ کر ہے، اِس لئے گناہ کی عدالت ہونا ضرور ہے۔ اِس کے بارے میں اِنجیل میں یوں مرقوم ہے: "کیونکہ گناہ کی مزدوری موت ہے" (رومیوں 23:6)۔
مگر خُدا اپنی رحمت و شفقت سے معمور عظیم محبت میں اور اِنجیل میں موجود شرائط کے تحت مغفرت و نجات دینے کےلئے تیار ہے، چاہے گناہ جیسے بھی ہوں اور کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں۔ چُنانچہ لکھا ہے: "مگر جہاں گناہ زیادہ ہوا وہاں فضل اُس سے بھی نہایت زیادہ ہوا" (رومیوں 20:5)۔
پس اِنجیل مقدّس شریعت کے ہولناک اور کچل ڈالنے والے قانون کے مقابلے میں نہایت ہی شیریں و پُرتسکین ہو جاتی ہے۔ توبہ کرنے والے گناہگار کےلئے صلیبی خون سے معافی خرید کر مسیح کی اِنجیل تمام بنی نوع اِنسان کو مُعافی کا وعدہ مہیّا کرتی ہے اور اِسی وعدے پر مسیح کے پاک خُون اور رُوح پاک کی مہر لگی ہے اور یہی ہمارے لئے اَبدی تسلی و تسکین ہے۔ جِن لوگوں کے گناہ مُعاف ہوئے ہیں وہ مسیح کو پیار کرنے کے پابند ہیں۔ ایک گناہگار رُوحانی پیدایش سے قبل اپنے گناہوں کی گہرائی میں جتنا زیادہ ڈوبا ہو گا، اُتنا ہی زیادہ وہ پاکیزہ ہوتا جائے گا اور مسیح کے ہر اِنجیلی حکم کی اطاعت کےلئے تیار ہو گا۔
خُدا رُوح ہے اور خُدا محبت ہے۔
گناہ کے بھاری قرض سے رہائی کے بعد ضرور ہے کہ اِنسان گناہ کی قُوّت سے آزاد ہو اور بُری عادتوں کو ہمیشہ کےلئے ترک کر دے۔ وہ اپنی بدعنوان دُنیاوی خواہشوں کے مطابق زندگی بسر کرنا ترک کرے جو اِس دُنیا سے متعلق ہیں، کیونکہ یہ دُنیا (شریر کی) بطالت کے اِختیار میں کر دی گئی ہے۔ گناہ کی طاقت سے رہائی کےلئے اِنسان مستقل مزاجی اور ثابت قدمی سے گناہ کے خلاف جنگ کرے تا کہ وہ نجات پائے۔ پولس رسُول نے فلپیوں کی کلیسیا کے نام خط میں یوں لکھا ہے: "پس اَے میرے عزیزو! جس طرح تم ہمیشہ سے فرمانبرداری کرتے آئے ہو اُسی طرح اَب بھی نہ صِرف میری حاضری میں بلکہ اُس سے بہت زیادہ میری غیر حاضری میں ڈرتے اور کانپتے ہوئے اپنی نجات کا کام کئے جاؤ۔ کیونکہ جو تم میں نیت اور عمل دونوں کو اپنے نیک اِرادہ کو انجام دینے کےلئے پیدا کرتا ہے وہ خُدا ہے" (فلپیوں 12:2۔13)۔
پولس رسُول یہ بھی سکھاتا ہے کہ جو شخص مسیح کے فضل کے باعث بچایا گیا ہے وہ دن بدن پاکیزہ بننے کی مشق کرے اور اپنے آپ کو گناہ کے اثرات سے آزاد رکھے جب تک کہ وہ ابدی جلال کو حاصل نہ کر لے۔ روم کی کلیسیا کےلئے پولس رسول کے خط سے یہ عیاں ہے: "اور وقت کو پہچان کر ایسا ہی کرو۔ اِس لئے کہ اب وہ گھڑی آ پہنچی کہ تم نیند سے جاگو کیونکہ جس وقت ہم ایمان لائے تھے اُس وقت کی نِسبت اب ہماری نجات نزدیک ہے" (رومیوں 11:13)۔
مُختصر یہ کہ نجات میں اِنسان کی گناہ کے قرض سے آزادی اور قیدِ گناہ کی طاقت سے رُوح، جان و جسم کی رہائی شامل ہے، جب تک کہ اِنسان خُدا کے حضور محبت میں پاکیزہ اور بے عیب نہ پایا جائے۔
کچھ لوگ پوچھ سکتے ہیں کہ "خُدا اُن سرکش گناہ گاروں میں کیوں دلچسپی لیتا ہے جنہوں نے آزادی سے گناہ پر گناہ کیا اور ایسے لوگوں کو آسمانی خُدا اُن کے بُرے کاموں کا انجام برداشت کیوں نہیں کرنے دیتا جس کے وہ انصاف کی رُو سےمستحق ہیں؟" اِس بات کا جواب خُداوند یسوع مسیح سے متعلق پاک کلام میں یوں موجود ہے:
"کیونکہ خُدا نے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اُس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تا کہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے" (یوحنا 16:3)۔
ایک مشہور وکیل سَر جان پرنٹس کے بارے میں ایک کہانی بیان کی جاتی ہے، جِس نے ایک عدالتی کیس کی کارروائی میں دفاعی دلائل پیش کرتے ہوئے اپنی دلیل کو مندرجہ ذیل بیان دے کر یوں ختم کیا کہ "میں نے ایک کتاب پڑھی، جِس میں خُدا نے اَبدی مشورت میں عدل، سچائی اور فضل سے پوچھا کہ کیا وہ انسان کو خلق کرے؟ عدل نے جواب دیا: انسان کی تخلیق نہ کی جائے کیونکہ وہ تیرے بنائے ہوئے تمام قوانین، نظم و ضبط اور اصولوں کو پامال کرے گا۔ سچائی نے جواب دیا کہ انسان کو نہ بنایا جائے کیونکہ اُس کی حالت بگڑ جائے گی اور وہ ہمیشہ جھوٹ اور بطالت کی پیروی کرے گا۔ مگر فضل (شفقت) نے کہا: مجھے علم ہے کہ گرچہ انسان بد نصیب اور آفت کا مارا ہو جائے گا مگر میں اُس کی دیکھ بھال کروں گا بلکہ تاریک وادی میں بھی اُس کا ہم قدم ہونگا جب تک کہ میں اُسے روزِ آخر تیرے پا س لے نہ آؤں۔"
گرچہ خُدا نے اِنسان کو بہترین صورت اور حالت میں تخلیق کیا لیکن انسان اپنی ہی نفسانی رغبتوں کی پیروی کرتے ہوئے گر کر دُنیاوی بدعنوانیوں میں ڈوب گیا۔ لیکن خُدا کے فضل اور محبت نے انسان کو بے یار و مددگار نہ چھوڑا بلکہ اُس کےلئے یسوع مسیح کے وسیلہ کامل اَبدی نجات کی تکمیل کا انتظام کیا۔
آپ مسیح یسوع میں خُدا کی محبت پر کامل توکل کیجئے جِس نے یوں فرمایا:
"اَے انتہایِ زمین کے سب رہنے والو! تم میری طرف متوجہ ہو اور نجات پاؤ، کیونکہ میں خُدا ہوں اور میرے سِوا کوئی نہیں" (یسعیاہ 22:45)۔
"اَب خُداوند فرماتا ہے، آؤ ہم باہم حُجت کریں۔ اگرچہ تمہارے گناہ قرمزی (رنگ کے) ہوں، وہ برف کی مانند سفید ہو جائیں گے اور ہر چند ارغوانی ہوں تو بھی اُون کی مانند اُجلے ہوں گے" (یسعیاہ 18:1)۔
ہچکچائیے نہیں! اپنے دِل کا دروازہ مسیح کےلئے کھولیں۔ مسیح آپ سے ایسا ہی کرنے کی توقع کرتا ہے کیونکہ وہ فرماتا ہے کہ: "دیکھ میں دروازہ پر کھڑا ہوا کھٹکھٹاتا ہوں، اگر کوئی میری آواز سُن کر دروازہ کھولے گا تو میں اُس کے پاس اندر جا کر اُس کے ساتھ کھانا کھاؤں گا اور وہ میرے ساتھ۔" (مکاشفہ 20:3)۔
"اَے خُدا! میرے اندر پاک دِل پیدا کر اور میرے باطن میں اَز سرِ نو مستقیم رُوح ڈال" (زبور 10:51)۔
انسان کی نجات کی تکمیل خُدا کے اِلٰہی منصوبے سے باہر ممکن نہیں۔ صِرف خُدا ہی عدل، فضل، پاکیزگی اورمحبت کو یکجا کر سکتا ہے۔ وقتِ مقررہ پر خُدا نے اِس بڑی نجات اور کفارہ کے کام کو گلگتا (ملک اسرائیل میں مقامِ کلوری) پر پورا کیا۔
یہ زبور نویس (داؤد نبی) کی پیش گوئی کے عین مطابق ہوا: "شفقت اور راستی باہم مل گئی ہیں صداقت اور سلامتی نے ایک دوسرے کا بوسہ لیا ہے" (زبور 10:85)۔
خُدا نے کفارہ کے اِس انوکھے اور خاص پرُجلالی کام کو مرتب کیا۔ ایک طرف خُدا ہے جِس کی قدوسیت، جلال اور شفقت کی کوئی اِنتہا نہیں جبکہ دوسری جانب گناہگار انسان اپنی ہی خطاؤں کے باعث داغدار ہے، مگر اِن دونوں کے درمیان مسیحِ مصلوب ہے جو نجات دہندہ کے طور پر خُدا کی محبت کے اظہار کےلئے صلیب پر چڑھایا گیا۔
"خُدا نے مسیح میں ہو کر اپنے ساتھ دُنیا کا میل ملاپ کر لیا ... اور اُس نے میل ملاپ کا پیغام ہمیں سونپ دیا ہے" (2- کرنتھیوں 19:5)۔
یہ واقعاتی شہادت، اِس بات کی تصدیق ہے کہ خُدا نے یہ نجات جو بنی نوع انسان کےلئے تیار کی وہ کوئی ہنگامی کارروائی نہ تھی۔ یہ ایک پہلے ہی سے نہایت احتیاط کے ساتھ مقرر کردہ منصوبہ تھا جِسے خُدا تعالیٰ کی کامل حکمت اور مشورت کے عین مطابق پایہءتکمیل تک پہنچایا گیا۔
"اور اُس نے اپنی مرضی کے نیک اِرادہ کے موافق ہمیں اپنے لئے پیشتر سے مقرر کیا کہ یسوع مسیح کے وسیلہ سے اُس کے لے پالک بیٹے ہوں تا کہ اُس کے اُس فضل کے جلال کی ستائش ہو جو ہمیں اُس عزیز (مسیح) میں مفت بخشا۔ ہم کو اُس میں اُس کے خُون کے وسیلہ سے مخلصی یعنی قصوروں کی معافی اُس کے اُس فضل کی دولت کے موافق حاصل ہے جو اُس نے ہر طرح کی حکمت اور دانائی کے ساتھ کثرت سے ہم پر نازل کیا" (افسیوں 5:1۔8)۔
فی الحقیقت، انسانیت کی نجات کی بنیاد اِس کفارہ (فدیہ) پر ہے جِس کو مسیح نے کامل کیا۔ اِس کفارہ کے عمل کو بروئے کار لانے کےلئے یہ اَمر ضروری ہوا کہ لوگوس (Logos) یعنی خُدا کا کلام جو ابتدا میں خُدا کے ساتھ تھا مجسم ہوا (خُدا کے کلام نے انسانی شکل اختیار کی)، وہ خون اور گوشت میں ہو کر بنی نوع انسان کے ساتھ شریک ہوا تا کہ صلیبی مذبح پر قربان ہو کر انسانیت کے گناہوں کا کفارہ ادا کرے۔ چنانچہ یہ لکھاہے: "پس جِس صورت میں کہ لڑکے، خُون اور گوشت میں شریک ہیں، تو وہ خود بھی اُن کی طرح اُن میں شریک ہوا تا کہ موت کے وسیلہ سے اُس کو جِسے موت پر قُدرت حاصل تھی یعنی ابلیس کو تباہ کر دے اور جو عُمر بھر مَوت کے ڈر سے غلامی میں گرفتار رہے اُنہیں چُھڑا لے" (عبرانیوں 14:2۔15)۔
نجات کے بارے میں موزوں حوالہ جات
"خداوند یسوع پر ایمان لا تو تُو اور تیرا گھرانا نجات پائے گا" (اعمال 31:16)۔
"پس توبہ کرو اور رجُوع لاؤ تا کہ تمہارے گناہ مٹائے جائیں اور اِس طرح خُداوند کے حُضور سے تازگی کے دِن آئیں"(اعمال 19:3)۔
"توبہ کرو اور تم میں سے ہر ایک اپنے گناہوں کی معافی کےلئے یسوع مسیح کے نام پر بپتسمہ لے تو تم رُوح القدس اِنعام میں پاؤ گے"(اعمال 38:2)۔
"اگر اپنے گناہوں کا اِقرار کریں تو وہ ہمارے گناہوں کے معاف کرنے اور ہمیں ساری ناراستی سے پاک کرنے میں سچا اور عادل ہے" (1-یوحنا 9:1)۔
"اگر تُو اپنی زبان سے یسوع کے خُداوند ہونے کا اقرار کرے اور اپنے دِل سے ایمان لائے کہ خُدا نے اُسے مردوں میں جلایا تو نجات پائے گا" (رومیوں 9:10)۔
"کیونکہ تم کو اِیمان کے وسیلہ سے فضل ہی سے نجات ملی ہے اور یہ تمہاری طرف سے نہیں خُدا کی بخشش ہے اور نہ اعمال کے سبب سے ہے تا کہ کوئی فخر نہ کرے" (افسیوں 9،8:2)۔
"اور ہمیشہ کی زِندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خُدائے واحِد اور برحق کو اور یسوع مسیح کو جِسے تُو نے بھیجا ہے، جانیں" (یوحنا 3:17)۔
"مگر تم جو پہلے دُور تھے اَب مسیح یسوع میں مسیح کے خُون کے سبب سے نزدیک ہو گئے ہو" (افسیوں 13:2)۔
"لیکن اگر ہم نُور میں چلیں جِس طرح کہ وہ نُور میں ہے تو ہماری آپس میں شراکت ہے اور اُس کے بیٹے یسوع کا خُون ہمیں تمام گناہ سے پاک کرتا ہے" (1-یوحنا 7:1)۔
"کیونکہ باپ کو یہ پسند آیا کہ ساری معموری اُسی (مسیح) میں سُکونت کرے اور اُس کے خُون کے سبب سے جو صلیب پر بہا، صُلح کر کے سب چیزوں کا اُسی کے وسیلہ سے اپنے ساتھ میل کر لے خواہ وہ زمین کی ہوں خواہ آسمان کی" (کلسیوں 19:1۔20)۔
"کیونکہ تم جانتے ہو کہ تمہارا نِکما چال چلن جو باپ دادا سے چلا آتا تھا اُس سے تمہاری خلاصی فانی چیزوں یعنی سونے چاندی کے ذریعہ سے نہیں ہوئی بلکہ ایک بے عَیب اور بے داغ برّے یعنی مسیح کے بیش قیمت خُون سے۔ اُس کا علم تو بنایِ عالم سے پیشتر سے تھا مگر ظہُور اخِیر زمانہ میں تمہاری خاطر ہوا" (1-پطرس 18:1۔20)۔
"ہم کو اُس میں اُس کے خُون کے وسیلہ سے مخلصی یعنی قصوروں کی معافی اُس کے اُس فضل کی دولت کے موافق حاصل ہے" (افسیوں 7:1)۔
"خُدا اپنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم گنہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر موا" (رومیوں 8:5)۔
فضل ہی کے ذر یعے آپ گناہ پر فتح پا سکتے ہیں۔ خُدا نے ایماندار کو پوری طرح سے گناہوں سے آزادی پانے اور نجات کے کام کو پورا کرنے کےلئے اُس کی ذاتی کوشش و جدوجہد پر ہی نہیں چھوڑ دیا ہے بلکہ خُدا ایک ایماندار کی زندگی میں ہمہ تن سرگرم عمل رہتا ہے، جیسا کہ پولس رسول نے یوں کہا ہے: "... ڈرتے اور کانپتے ہوئے نجات کا کام کئے جاؤ۔ کیونکہ جو تم میں نیت اور عمل دونوں کو اپنے نیک اِرادہ کو انجام دینے کےلئے پیدا کرتا ہے وہ خُدا ہے" (فلپیوں 12:2۔13)۔
فضل پانے کے ذ رائع بہت ہیں، جو اِس طرح سے ہیں:
مسیح ایماندار کےلئے رُوحانی استاد اور ایک لاثانی مثال سے بھی بڑھ کر ہے۔ اِسی سچائی کے پیشِ نظر الہامی تحریک سے پولس رسول نے اِفسس کی کلیسیا کےلئے دُعا کرتے ہوئے یوں بیان کیا: "اور ایمان کے وسیلہ سے مسیح تمہارے دِلوں میں سُکونت کرے تا کہ تم محبت میں جڑ پکڑ کے اور بنیاد قائم کر کے سب مقدسوں سمیت بُخوبی معلوم کر سکو کہ اُس کی چوڑائی اور لمبائی اور اُونچائی اور گہرائی کتنی ہے" (افسیوں 17:3۔18)۔
بائبل مقدّس، مسیح اور ایماندار کے درمیان باہمی تعلق کو بہت سی مثالیں دے کر واضح کرتی ہے۔ یوحنا 1:15۔3 میں مسیح کو انگور کا حقیقی درخت کہہ کر پکارا گیا ہے اور اُس کے شاگردوں کو ڈالیاں۔ ایک اَور وضاحت اِس طرح درج ہے کہ مسیح روحانی بنیادی ساخت ہے جب کہ اُس کے ایماندار زندہ پتھروں کی مانند ہیں (1-پطرس 5:2)۔ اور یہ وہی تعلق ہو سکتا ہے جو مسیح چاہتا تھا جب اُس نے فرمایا "دیکھ میں دروازہ پر کھڑا ہُوا کھٹکھٹاتا ہُوں۔ اگر کوئی میری آواز سُن کر دروازہ کھولیگا تو میں اُس کے پاس اندر جا کر اُس کے ساتھ کھانا کھاؤنگا اور وہ میرے ساتھ" (مکاشفہ20:3)۔ مسیح نے یہ بھی فرمایا "اگر کوئی مجھ سے محبت رکھے تو وہ میرے کلام پر عمل کریگا اور میرا باپ اُس سے محبت رکھے گا اور ہم اُس کے پاس آئینگے اور اُس کے ساتھ سکونت کریں گے" (یوحنا 23:14)۔
غالباً، اِسی موضوع پر نہایت حیران کن تشریح وہ تجربہ ہے، جِسے پولس رسول نے یوں بیان کیا کہ "میں مسیح کے ساتھ مصلوب ہوا ہوں اوراَب میں زندہ نہ رہا بلکہ مسیح مجھ میں زندہ ہے اور میں جو اَب جِسم میں زِندگی گذارتا ہوں تو خُدا کے بیٹے پر ایمان لانے سے گذارتا ہوں جِس نے مجھ سے محبت رکھی اور اپنے آپ کو میرے لئے موت کے حوالہ کر دیا" (گلتیوں 20:2)۔
ہمیں اپنی خُودی و اَنا سے اِنکار کرنا ہے اور کامل طور پر خداوند یسوع مسیح کی ذات میں اپنے آپ کو ڈھالنا ہے تا کہ "ہم مسیح میں قائم رہیں اور وہ ہم میں۔" یہ بھی ضروری اَمر ہے کہ ہم مسیح کے کلام میں قائم رہیں تا کہ اُسکا پاک کلام ہماری زندگیوں میں جڑ پکڑے۔ تب جو کچھ بھی ہم اُس سے مانگیں گے، وہ ہم کو مل جائیگا اور مسیح میں گناہ پر فتح یقینا ہمارے ہی حق میں ہو گی۔
خُداوند یسوع نے فرمایا "آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہے گا بلکہ ہر بات سے جو خُدا کے منہ سے نِکلتی ہے" (متی 4:4)۔
فتح مند زِندگی بسر کرنے والے خُدا کے لوگوں کی زندگی پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ رُوح کی تلوار یعنی کلامِ خُدا سے مسلح تھے، جیسا کہ ہم افسیوں 17:6 میں دیکھتے ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ لوگ جِنہوں نے کمزوری اورشِکستگی کے دَور کا سامنا کیا وہ اِلٰہی کلام کی قدرت سے فتح مند ہوئے۔ مِثال کے طور پر داؤد نبی نے مندرجہ ذیل فتح مندی کے گیت لکھے:
"مُبارِک ہیں وہ جو کامل رفتار ہیں جو خُداوند کی شریعت پر عمل کرتے ہیں۔
مُبارِک ہیں وہ جو اُس کی شہادتوں کو مانتے ہیں اور پُورے دِل سے اُس کے طالب ہیں۔
اُن سے ناراستی نہیں ہوتی۔ وہ اُس کی راہوں پر چلتے ہیں۔ تُو نے اپنے قوا نین دئیے ہیں
تا کہ ہم دِل لگا کر اُن کو مانیں۔ کاشکہ تیرے آئین ماننے کےلئے
میری روِشیں دُرست ہو جائیں! جب میں تیرے سب اَحکام کا لحاظ رکھونگا
تو شرمندہ نہ ہونگا۔ جب میں تیری صداقت کے اَحکام سیِکھ لوں گا
تو سچے دِل سے تیرا شکر کروں گا۔ میں تیرے آئین مانُوں گا۔ مجھے بِالکل ترک نہ کر دے۔
جوان اپنی روِش کس طرح پاک رکھے؟ تیرے کلام کے مطابق اُس پر نگاہ رکھنے سے۔
میں پُورے دِل سے تیرا طالِب ہُوا ہُوں مجھے اپنے فرمان سے بھٹکنے نہ دے۔
میں نے تیرے کلام کو اپنے دِل میں رکھ لیا ہے
تا کہ میں تیرے خِلاف گناہ نہ کروں" (زبور 1:119۔11)
داؤد نبی نے اپنے گناہوں پر غلبہ پانے والی گواہی کو اِن آیات میں تحریر کیا:
"خُداوند کی شریعت کامل ہے۔ وہ جان کو بحال کرتی ہے۔
خُداوند کی شہادت برحق ہے۔ نادان کو دانش بخشتی ہے۔
خُداوند کے قوانین راست ہیں۔ وہ دِل کو فرحت پہنچاتے ہیں۔
خُداوند کا حکم بے عیب ہے۔ وہ آنکھوں کو روشن کرتا ہے۔
خُداوند کا خوف پاک ہے۔ وہ اَبد تک قائم رہتا ہے۔
خُداوند کے احکام برحق اور بالکل راست ہیں۔
وہ سونے سے بلکہ بہت کندن سے زیادہ پسندیدہ ہیں۔
وہ شہد سے بلکہ چھتے کے ٹپکوں سے بھی شیریں ہیں۔
نیز اُن سے تیرے بندے کو آگاہی مِلتی ہے۔ اُن کو ماننے کا اجَر بڑا ہے۔" ( زبور 7:19۔11)
یہاں ایک مثال ہے جو پولس رسول نے اپنے شاگرد تیمتھیس کو خط لکھتے وقت استعمال کی: "اور تُو بچپن سے اُن پاک نوشتوں سے واقف ہے جو تجھے مسیح یسوع پر ایمان لانے سے نجات حاصل کرنے کےلئے دانائی بخش سکتے ہیں۔ ہر ایک صحیفہ جو خُدا کے الہام سے ہے تعلیم اور اِلزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کرنے کےلئے فائدہ مند بھی ہے تا کہ مردِ خُدا کامل بنے اور ہر ایک نیک کام کےلئے بالکل تیار ہو جائے۔" (2-تیمتھیس 15:3۔17)
پطرس رسول نے وضاحت کےلئے ایک دوسری مثال پیش کی ہے کہ خُدا کا کلام کس طرح انسان کی زندگی میں اثر کرتا ہے "اور ہمارے پاس نبیوں کا وہ کلام ہے جو زیادہ متعبر ٹھہرا اور تم اچھا کرتے ہو جو یہ سمجھ کر اُس پر غور کرتے ہو کہ وہ ایک چراغ ہے جو اندھیری جگہ میں روشنی بخشتا ہے جب تک پَو نہ پھٹے اور صُبح کا ستارہ تُمھارے دِلوں میں نہ چمکے۔ اور پہلے یہ جان لو کہ کتابِ مقدس کی کسی نبوت کی بات کی تاویل کسی کے ذاتی اِختیار پر موقوف نہیں۔ کیونکہ نبوت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی بلکہ آدمی رُوح القُدس کی تحریک کے سبب سے خُدا کی طرف سے بولتے تھے" (2-پطرس 19:1۔21)۔
جب شیطان نے (مسیح کے) شاگردوں کو آزمانے کی کوشش کی تو یسوع مسیح نے اُن سے کہا دُعا کرو کہ "آزمائش میں نہ پڑو" جیسا کہ لوقا 40:22 میں درج ہے۔ اگر آزمائش کو اپنے سے دُور رکھنے کے بجائے قبول کر لیا جائے تو یہ نفسانی خواہش پیدا کرتی ہے اور یہ بدنی خواہش جب عمل میں لائی جائے تو گناہ پیدا کرتی ہے۔ اس لئے ہم بلاناغہ دُعا مانگیں تا کہ آزمائش میں پڑ کر گناہ نہ کریں اور آخرکار ہلاک نہ ہوں۔
خُدا کے ایک خادم بنام باسل نے یوں بیان کیا ہے "یہ بہتر ہے کہ تم گناہ نہ کرو اور اگر گناہ ہو جائے تو توبہ کا اِرادہ ملتوی نہ کرو۔ اگر توبہ کرو تو پھر گناہ نہ کرو۔ اگر اِس پر عمل کرنے کے قابل ہو جاؤ تو جان لو کہ خُدا نے اِن باتوں کو ممکن کیا ہے۔ جب اِس خیال کا تم کو احساس ہو جائے تو خُدا کے فضل کا شکر کرو اور خُدا باپ سے مسلسل راہنمائی مانگو۔"
پولس رسول نے اِفسس کی کلیسیا کو یوں لکھا "مگر تم نے مسیح کی ایسی تعلیم نہیں پائی بلکہ تم نے اُس سچائی کے مطابق جو یسوع میں ہے اُسی کی سُنی اور اُس میں یہ تعلیم پائی ہو گی کہ تم اپنے اگلے چال چلن کی اُس پُرانی انسانیت کو اُتار ڈالو جو فریب کی شہوتوں کے سبب سے خراب ہوتی جاتی ہے اور اپنی عقل کی رُوحانی حالت میں نئے بنتے جاؤ اور نئی انسانیت کو پہنو جو خُدا کے مطابق سچائی کی راستبازی اور پاکیزگی میں پیدا کی گئی ہے۔" (افسیوں 20:4۔24)
یہ کہا جاتا ہے کہ دُعا کرتے وقت خُدا کے ایک خادم بنام مکاریوس کو شیطان نے اِسطرح آزمایا کہ وہ اپنے دِل میں تکبّر و غرور کے احساس کو جگہ دے اور کہا "تم کتنے راست اور نیک بزرگ ہو!۔" مکاریوس نے جواب دیا "تم میری بہت سی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو بھول جاتے ہو۔" ایک دُوسرے موقع پر شیطان نے پھر مکاریوس کے دِل میں مایوسی لانے کی کوشش کی، جب اُس (شیطان) نے اُس سے کہا "تم محرومیت کا شکار ہو اور کتنی ناراستی سے بھرے ہو۔" مکاریوس نے کہا "یہ سچ ہے کہ مجھ میں ناراستی اور کمزوریاں بہت ہیں لیکن میری خاطر مسیح کی محبت اور اُس کی موت کو تم بھول گئے ہو۔ اُس کی کاملیت ہی میں میری تمام کمزوریاں پوری ہوتی ہیں۔"
یہ ایک قابل قبول حقیقت ہے کہ خُدا کی جانب سے مہیا کردہ روحانی رفاقت و شراکت ایمانداروں کےلئے مسیحی زندگی میں ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ رسولوں کے اعمال میں ابتدائی کلیسیا کے متعلق یوں بتایا گیا ہے: "اور یہ رسُولوں سے تعلیم پانے اور رفاقت رکھنے میں اور روٹی توڑنے اور دُعا کرنے میں مشغول رہے" (اعمال 42:2)۔
پس مسیح کا شاگرد تعلیم دیتے ہوئے یہ نصیحت کرتا ہے کہ "محبت اور نیک کاموں کی ترغیب دینے کےلئے ایک دُوسرے کا لحاظ رکھیں اور ایک دُوسرے کے ساتھ (پاک رُوحانی رفاقت کےلئے) جمع ہونے سے باز نہ آئیں، جیسا بعض لوگوں کا دستُور ہے بلکہ ایک دُوسرے کو نصیحت کریں اور جس قدر اُس دِن کو نزدیک ہوتے دیکھتے ہو اُسی قدر زیادہ کیا کرو (عبرانیوں 24:10۔25)۔
"خوف نہ کر کیونکہ میں نے تیرا فدیہ دیا ہے میں نے تیرا نام لے کر تجھے بُلایا ہے، تُو میرا ہے" (یسعیاہ 1:43)۔
سوالات.
A. N. A. الزقازیق، مصر
مہربانی سے میرے لئے اِن حوالہ جات کی وضاحت کیجئے۔
G. K. Y. مصر
بائبل مقدس میں لفظ "معافی" کا مطلب گناہ کو ڈھانپنا، اِس کو چھپانا یا اِس کا کفارہ ادا کرنا ہے۔ اِ س کو پہلے پیدایش کی کتاب میں "ڈھانپنے" کے طور پر استعمال کیا گیا (جب باغِ عدن میں آدم اور حوا کے گناہ کے بعد خُدا نے چمڑے کے کپڑوں سے اُن کے ننگے پن کو ڈھانپا یا نوح نے کشتی کو رال لگا کر ڈھانپا)۔ موسیٰ کے زمانے میں اِس کا مطلب (ابتدائی یہودی ہیکل میں موجود خیمہءاجتماع کے) پاک ترین مقام کو (سونے اور دو کروبیوں کے پروں سے) ڈھانپنے کی شکل میں مزید واضح ہوا۔ نئے عہد نامہ (انجیل) میں مسیح کے خُون کے ذریعہ گناہ کے کفارہ کے معنوں میں "ڈھانپنا" کا استعمال ہوا ہے، پچھلے صفحے میں کئے گئے سوال کے جواب میں "معافی" کا مطلب "ڈھانپنا" یعنی مسیح کے کفارہ سے اپنے گناہوں کو ڈھانپنا ہے۔
اگر ہم بائبل میں لفظ معافی پر مزید سوچ بچار کریں تو یہ واضح ہو جائے گا کہ مسیح ہمارے گناہوں کی معافی کےلئے "شفاعت" ہے، کیونکہ مسیح نے اپنی صلیبی موت کے ذریعہ اُن کا کفارہ دیا ہے۔ یوحنا رسول اِس حقیت کی وضاحت اپنی گواہی سے یوں دیتا ہے جب اُس نے لکھا کہ "اَے میرے بچّو! یہ باتیں میں اِس لئے لکھتا ہوں کہ تم گناہ نہ کرو اور اگر کوئی گناہ کرے تو باپ کے پاس ہمارا ایک مددگار موجود ہے یعنی یسوع مسیح راستباز اور وُہی ہمارے گناہوں کا کفارہ ہے اور نہ صِرف ہمارے ہی گناہوں کا بلکہ تمام دُنیا کے گناہوں کا بھی" (1-یوحنا 1:2-2)۔
معافی کا مطلب یہ بھی ہے کہ "اُٹھا لے جانا" جیسا کہ یوحنا بپتسمہ دینے والے نے اِس مطلب کو استعمال میں لاتے ہوئے مسیح کے بارے میں یوں کہا "دیکھو! یہ خُدا کا برّہ ہے جو دُنیا کا گناہ اُٹھا لے جاتا ہے" (یو حنا 29:1)۔
کچھ لوگ یہ پُوچھنا چاہیں گے کہ "خُدا بغیر کفارہ کے معافی کیوں نہیں دیتا ہے؟" اِس کا جواب یوں ہے کہ:
الف۔ خُدا کے پاس تمام بنی نوع اِنسان کےلئے اخلاقی ضابطہءقانون ہے۔ اُ س کے عدل اور راستی کا تقاضا ہے کہ انسان اُس کے بنائے گئے قانون کا احترام کرے اور شریعت کا قانون بیان کرتا ہے کہ "جو جان گناہ کرے گی وہ ضرور مرے گی۔"
ب۔ یہ تمام بنی نوع انسان کے مفاد میں ہے کہ قانون کی پاسداری کی جائے کیونکہ قانون کی پاسداری کرنا امن اور باضابطگی کی ضمانت ہے۔
ج۔ اگر انسان کو اپنے لئے خُود ہی کفارہ ادا کرنے کےلئے کہا جاتا تو انسانیت کے پاس احتجاجاً اِسطرح کا سوال کرنے کا حق ہو نا چاہیے تھا "اب ہم جانتے ہیں کہ شریعت جو کچھ کہتی ہے اُن سے کہتی ہے جو شریعت کے ماتحت ہیں تا کہ ہر ایک کا مُنہ بند ہو جائے اور ساری دُنیا خُدا کے نزدیک سزا کے لائق ٹھہرے" (رومیوں 19:3)۔
ہم ذہن نشین کریں کہ خُداوند شفقت میں غنی ہے اور اِسی میں اُس کی خوشنودی ہے "مگر اُس کے فضل کے سبب سے اُس مخلصی کے وسیلہ سے جو مسیح یسوع میں ہے مفت راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں۔ اُسے خُدا نے اُس کے خُون کے باعث ایک ایسا کفارہ ٹھہرایا جو ایمان لانے سے فائدہ مند ہو تا کہ جو گناہ پیشتر ہو چکے تھے اور جِن سے خُدا نے تحمل کر کے طرح دی تھی اُن کے بارے میں وہ اپنی راستبازی ظاہر کرے" (رومیوں 24:3۔25)۔
انسان اور اُس کے گناہوں کی معافی
انسان اور اُس کے گناہوں کی معافی جو اپنے گناہوں کے بھاری بوجھ کو محسوس کرتے ہیں، وہ مختلف ذرائع سے خُدا کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ خُدا کی طرف سے دی گئی معافی کو حاصل کر سکیں اور اِس حقیقت پر کوئی بحث و تکرار بھی نہیں کرتا۔ مندرجہ ذیل چند ذرائع زیرِ بحث ہیں۔
نیک اعمال اپنے طور پر تو ٹھیک ہیں لیکن وہ ماضی کے گناہوں کےلئے خُدا کی معافی کو جیت نہیں سکتے۔ یسعیاہ نبی اِس کی وضاحت بڑی صاف دِلی سے کرتا ہے "اور ہم تو سب کے سب ایسے ہیں جیسے ناپاک چیز اور ہماری تمام راستبازی ناپاک لباس کی مانند ہے اور ہم سب پتے کی طرح کُملا جاتے ہیں اور ہماری بدکرداری آندھی کی مانند ہم کو اُڑا لے جاتی ہے" (یسعیاہ 6:64)۔ یہ حقیقت پولس رسول کےلئے اَور بھی واضح ہو گئی جب اُس نے رُوح القدس کی تحریک سے ہمارے لئے اِس گواہی کو پیش کیا "اور نہ اعمال کے سبب سے ہے تا کہ کوئی فخر نہ کرے کیونکہ ہم اُسی کی کاریگری ہیں اور مسیح یسوع میں اُن نیک اعمال کے واسطے مخلُوق ہوئے جِنکو خُدا نے پہلے سے ہمارے کرنے کےلئے تیار کیا تھا" (افسیوں 9:2۔10)۔
جیسا کہ پولس رسول نے اُوپر وضاحت کی ہے کہ نیک اعمال انسان کو معافی نہیں دے سکتے کیونکہ نیک اعمال تو ایک فرض کے طور پر ہیں جسے انسان کو کرنا ہی ہے اور اِن نیک اعمال کے کرنے کے باعث وہ گناہوں کی معافی حاصل نہیں کر سکتا۔ مسیح نے خُود اپنی تعلیمات میں اِس خیال کو یوں پیش کیا ہے:
"اِسی طرح تم بھی جب اُن سب باتوں کی جن کا تمہیں حکم ہوا تعمیل کر چُکو تو کہو کہ ہم نکمے نوکر ہیں۔ جو ہم پر کرنا فرض تھا وہی کیا ہے۔" (لوقا 10:17)
مسیح ہمیں پہلا اور سب سے بڑا حکم یاد دِلاتا ہے "خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ" (متی 37:22)۔ اِس حکم کا مطلب یہ ہے کہ خُدا کو محبت کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری پیش کردہ خدمت بھی شامل حال ہو اور ہم وہی کچھ کریں جو اُس کی نظرمیں اچھا ہے۔
غالباً اِس بارے میں یہاں ایک بہترین اور شاندار مثال وہ ہے جو داؤد بادشاہ نے ہمیں دی، جب وہ اور اُس کی قوم کے لوگوں نے خُدا کی ہیکل کی تعمیر کےلئے بڑی مقدار میں سونا نذر کیا۔ داؤد بادشاہ نے کہا: "پر میں کون اور میرے لوگوں کی حقیقت کیا ہے کہ ہم اِس طرح سے خُوشی خُوشی نذرانہ دینے کے قابل ہوں؟ کیونکہ سب چیزیں تیری طرف سے ملتی ہیں اور تیری ہی چیزوں میں سے ہم نے تجھے دیا ہے کیونکہ ہم تیرے آگے پردیسی اور مسافر ہیں جیسے ہمارے سب باپ دادا تھے۔ ہمارے دِن رُوی زمین پر سایہ کی طرح ہیں اور قیام نصیب نہیں۔ اَے خُداوند ہمارے خُدا یہ سارا ذخیرہ جو ہم نے تیار کیا ہے کہ تیرے پاک نام کےلئے ایک گھر بنائیں تیرے ہی ہاتھ سے مِلا ہے اور سب تیرا ہی ہے" (1-تواریخ 14:29۔16)۔
یہ سچ ہے کہ نیک اعمال ضروری ہیں کیونکہ یہ خُدائی فہم و حکمت سے متفق ہیں لیکن نیک اعمال معافی کو خرید نہیں سکتے ہیں ورنہ تو "فضل" کا لفظ تمام ڈکشنریوں (کتاب لغات) سے مٹانا پڑے گا۔
دُعا کا مطلب معافی نہیں ہے۔ گناہگار انسان نے پہلے ہی سے خُدا کو ملول اور غم زدہ کیا ہوا ہے اور نماز یا بندگی کے وسیلہ انسان خُدا کی ناراضگی کو موقوف (ختم) نہیں کر سکتا اور نہ ہی نماز (عبادت) کے وسیلہ وہ خُدا کے فضل کو جیت سکتا ہے کیونکہ خُدا کا رحم اُس کے بےحد کامل عدل سے منسلک ہے۔
ایک گناہگار شخص رُوحُ القدس کی طرف سے عطا کردہ شفاعت کا بھی مزہ نہیں اُٹھا سکتا جس کی بدولت انسان کی رُوح اور خُدا کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اور رُوحُ القدس دُعا میں انسان کےلئے سفارش کرتا اور عبادت کو موثر بنا دیتا ہے۔
یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ "جبکہ صورتحال ایسی ہے تو پھر کون دُعا کر سکتا ہے؟" جواب یوں ہے کہ جس کسی نے بھی شخصی طور پر مسیح یسوع کو اپنے لئے نجات دہندہ قبول کیا ہو اور نجات دینے والے کی صلیب پر بہائے گئے خُون سے معافی حاصل کی ہو وہی دُعا کر سکتا ہے۔ سو، دُعا معافی حاصل کرنے کا ہی ذریعہ نہیں بلکہ اپنے گناہ معاف ہو جانے کے بعد دُعا کے وسیلہ انسان خُدا کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا لطف بھی اٹھاتا ہے۔
روزہ، اپنی ہی رُوح کی انکساری اور توبہ کی حالت ہے لیکن یہ خُدا کے خلاف کئے گئے گناہوں کے باعث ناراضگی کو موقوف کرنے کےلئے کافی نہیں ہے۔ اِس لئے روزہ کے وسیلہ گناہگار کو اُسکے گناہوں سے معافی نہیں ملتی۔
تجربہ سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ جو لوگ خُدا کے فضل کو جیتنے کےلئے روزہ رکھتے ہیں وہ درحقیقت خُدا اور انسانیت کےلئے کوئی بھی مفید کام نہیں کر رہے ہوتے اور نہ ہی وہ روزہ کے اَجر و معاوضہ کےمستحق ہیں۔ خُدا نے فرمایا "جب تم نے پانچویں اور ساتویں مہینے میں اِن ستّر برس تک روزہ رکھا اور ماتم کیا تو کیا کبھی میرے لئے خاص میرے ہی لئے روزہ رکھا تھا؟" (زکریاہ 5:7)۔
نیکی کی خاطر بدی سے باز رہنا بہترین روزہ ہے۔
بائبل میں ایسی کوئی تعلیم نہیں ملتی کہ مقدس، نیک، بزرگ اور ولی قسم کے لوگ جو ہم سے پہلے آئے (یا جن کو زمانہءحال میں ایسا سمجھا جاتا ہے) اُن کی شفاعتی دُعا سے گناہوں کی معافی ملتی ہو۔ رسُولوں کی تعلیمات میں سادگی سے یہ بیان ہے "کیونکہ خُدا ایک ہے اور خُدا اور انسان کے بیچ میں درمیانی بھی ایک یعنی مسیح یسوع جو اِنسان ہے جس نے اپنے آپ کو سب کے فدیہ میں دِیا کہ مناسب وقتوں پر اِس کی گواہی دی جائے" (1-تیمتھیس 5:2-6)۔
"اُسی طرح تم بھی جب اُن سب باتوں کی جن کا تمہیں حکم ہُوا تعمیل کر چکو تو کہو کہ ہم نِکمے نوکر ہیں جو ہم پر کرنا فرض تھا وہی کیا ہے" (لوقا 10:17)۔
گناہوں سے توبہ نہایت ہی اعلیٰ امر ہے جبکہ یہ بہت سے گناہوں کے اِرتکاب سے روکتی ہے۔ گرچہ یہ اپنے آپ میں دُرست تو ہے مگر پھر بھی یہ ہمارے "ماضی" کے گناہوں کو معاف نہیں کر سکتی۔ مثال کے طور پر اگر ایک قاتل جس پر عدالتی مقدمہ چل رہا ہے سنجیدگی سے وعدہ کرے کہ آئندہ سے وہ اپنے آپ کو جرائم سے باز رکھے گا تو کیا جج مجرم کے اِس وعدے میں جائز دلیل پا سکے گا کہ وہ مُجرم کو معاف کر دے؟ ہرگز نہیں۔ جج سے توقع لازم ہے کہ وہ عدل و انصاف کو قائم رکھے۔ تو پھر کس طرح آسمان و زمین کا مقدس مُنصف آسمانی خُدا اپنے ہی قانون (شریعت) کو توڑے گا جس کے مطابق "جو جان گناہ کرتی ہے وہی مریگی ... " (حزقی ایل 20:18)۔ مگر اب کیسے معافی حاصل کی جائے؟
تمام زمانوں میں ہر نسل کے گناہگار نے جس کا ضمیر موت کی نیند اور تاریکی سے بیدار ہوا ہے یہ سوال ضرور کیا ہو گا۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ معافی، فضل کے وسیلہ نجات پانے ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔ ہم مندرجہ ذیل ایک خوبصورت حوالہ پڑھتے ہیں جو پولس رسول نے کُلسّے کی کلیسیا کے ایمانداروں کی بابت لکھا "اور باپ کا شکر کرتے رہو جس نے ہم کو اِس لائق کیا کہ نُور میں مقدسوں کے ساتھ میراث کا حصہ پائیں اُسی نے ہم کو تاریکی کے قبضہ سے چھڑا کر اپنے عزیز بیٹے کی بادشاہی میں داخل کیا جس میں ہم کو مخلصی یعنی گناہوں کی معافی حاصل ہے" (کلسیوں 12:1۔14)۔
یہ حقیقت خُدا کے بندوں پر ظاہر ہوئی جنہوں نے ظاہر ہونے والے الہی مکاشفہ کی گواہی دی۔ یسعیاہ نبی لکھتا ہے "اپنی جان ہی کا دُکھ اُٹھا کر وہ (مسیح) اُسے دیکھے گا اور سیر ہو گا۔ اپنے ہی عرفان سے میرا صادق خادم بہتوں کو راستباز ٹھہرائیگا کیونکہ وہ اُن کی بدکرداری خُود اُٹھا لے گا۔ اِسلئے میں اُسے بزرگوں کے ساتھ حصّہ دُونگا اور وہ لوٹ کا مال زورآوروں کے ساتھ بانٹ لے گا کیونکہ اُس نے اپنی جان موت کےلئے اُنڈیل دی اور وہ خطاکاروں کے ساتھ شمار کیا گیا تو بھی اُس نے بہتوں کے گناہ اُٹھا لئے اور خطاکاروں کی شفاعت کی" (یسعیاہ 11:53۔12)۔
معافی فضل کے ذریعہ مفت ملتی ہے اور مسیح فضل کا سرچشمہ ہے کیونکہ اُسی میں آسمانی باپ نے ہم کو ہمیشہ کی زندگی کےلئے چُن لیا ہے، اُسی میں ہم لے پالک بیٹے بھی ٹھہرائے گئے ہیں اور اُسی میں ہم کو آسمان میں تمام رُوحانی برکات بخشی گئی ہیں۔
اِس عظیم نجات کے ذریعے سے مسیح یسوع ہمارے اور خُدا کے درمیان صلح کرانے والا "درمیانی" بن گیا۔ نجات کا پھل گناہوں کی معافی ہے۔ خُدا کی بے انتہا محبت اور فیاضانہ الفت میں ایسی معافی کی کوئی حد نہیں۔
معافی کے خُوش کن نتائج یہ ہیں:
الف۔ خُدا کا غضب گناہگار پرختم ہو جاتا ہے اور اِسکی جگہ ہمیں اُس کے برگزیدہ (بیٹے یسوع مسیح) کے فضل کی بدولت رُوحانی خوشی ملتی ہے۔
ب۔ انسان کے دِلی احساسِ جُرم کے اعتراف کے باعث تمام غیر ضروری دُکھ و تکلیف سے نجات ملتی ہے۔
ج۔ وہ سزا جس کا انسان مستحق ہے وہ موقوف ہو جاتی ہے اور مردہ کاموں کو کرنے والا ضمیر شفایاب ہو کر زندہ خُدا کی خدمت کرنے کےلئے تیار ہو جاتا ہے۔
"جس (خُدا) نے اپنے بیٹے ہی کو دریغ نہ کیا بلکہ ہم سب کی خاطر اُسے حوالہ کر دیا وہ اُس کے ساتھ اَور سب چیزیں بھی ہمیں کیوں نہ بخشے گا؟" (رومیوں 32:8)
خُدائے خالق نے انسان کو بہترین حالت میں تخلیق کیا۔ یہ آسمانی خُدا باپ کی حکمت میں مرضی تھی کہ وہ اِنسان کو ایسا ذہن عطا کرتا جو درُست سوچ کی صلاحیت رکھتے ہوئے مختلف اُمور کو سمجھنے بوجھنے کے لائق ہوتا۔ اِسی سوچ و بچار کی بدولت انسان کے اندر مختلف سوالات کرنے کا رجحان بھی پایا جاتا ہے۔ انسان کے گناہوں میں گر جانے کے بعد اُس کے ذہن میں سب سے اہم سوال جس کا اُسے سامنا رہا ہے شاید یہ ہے کہ "میں کیا کروں کہ نجات پاؤ ں؟"
جب پولس رسول نے یہ کہا کہ "اتنی بڑی نجات سے غافل رہ کر ہم کیونکر بچ سکتے ہیں؟ جس کا بیان پہلے خُداوند کے وسیلہ سے ہوا" تو وہ (پولس رسول) یہ اقرار کر رہا تھا کہ انسان سے متعلق سب سے اہم موضوع "نجات" تھا۔ امکان غالب ہے کہ پولس رسول کو اِس سے بہتر اَور کوئی الفاظ ادا کرنے کو نہیں مل رہے تھے اور اُس نے اِس کا یوں اظہار کیا کہ "اتنی بڑی نجات۔" نجات کے اِسی خیال نے قادرِ مطلق خُدا کے دل کو تحریک دی اور یہی خیال خُدا کے ذہن پر برابر چھایا رہا کہ وہ نجات کے عمل کو ظہورمیں لاتا۔ اِس کےلئے "خُدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا جو عورت (مقدسہ مریم) سے پیدا ہوا اور شریعت کے ماتحت پیدا ہوا تا کہ شریعت کے ماتحتوں کو مول لے کر چھڑا لے اور ہم کو لےپالک ہونے کا درجہ ملے" (گلتیوں 4:4-5)۔
اگر نجات کی اہمیت اتنی ہی فیصلہ کن ہے تو ہمیں اِس کے مفہوم و مطلب کو پرکھنا ضروری ہو گا۔ گرچہ اتنی عظیم نجات کے فوائد اور اِس کی اہمیت واضح کرنا انسانی بس کی بات نہیں مگر پھر بھی میں حتی الوسع کوشش کرونگا کہ نجات کی کامل عظمت پر بےساختگی سے اُس ایماندار کی طرح بغور مشاہدہ کر سکوں جس نے اپنے آپ کو نجات دہندہ خُداوند یسوع مسیح کے سُپرد کر کے ازلی سچائیوں کو دریافت کر لیا ہو:
الف۔ وہ قیمت جو مسیح کو ہماری نجات کےلئے چکانی پڑی، اُس کی اہمیت اتنی زیادہ تھی کہ اِس نے پطرس رسول کی مشہور تعلیمات کو بہت متاثر کیا "اور جبکہ تم باپ کہہ کر اُس سے دُعا کرتے ہو جو ہر ایک کے کام کے موافق بغیر طرفداری کے اِنصاف کرتا ہے تو اپنی مسافرت کا زمانہ خَوف کے ساتھ گذارو کیونکہ تم جانتے ہو کہ تمہارا نکما چال چلن [ گناہگار کردار] جو باپ دادا سے چلا آتا تھا اُس سے تمہاری خلاصی فانی چیزوں یعنی سونے چاندی کے ذریعہ سے نہیں ہوئی بلکہ ایک بے عیب اور بے داغ برّے یعنی مسیح کے بیش قیمت خُون سے، اُسکا علم تو بنایِ عالم سے بیشتر سے تھا مگر ظہوراخیر زمانہ میں تمہاری خاطر ہوا" (1-پطرس 17:1-20)۔
خُدا نے نجات کےلئے یہ مہنگی قیمت (مسیح کے ذریعہ) ادا کی ہے۔ خُدا کےلئے انسانی نجات کا کام انسانی تخلیق کے کام سے زیادہ بیش قیمت تھا۔ انسانی تخلیق فقط خُدا کے منہ کے کلام سے ہوئی لیکن انسان کےلئے مہیا کردہ نجات مختلف تھی۔ خُدا نے نہ صِرف اپنا اِکلوتا بیٹا ہم کو بخش دیا بلکہ ہماری خاطر یعنی کفارہ و فدیہ کی قربانی کےلئے صلیب پر مسیح کو دے دیا۔ یقینا ایسی عظیم الشان نجات کی اہمیت ضرور ہی لاثانی ہو گی جس کے حصول کی خاطر خود کلامِ خُدا [خُداوند یِسُوع مسیح] کو بے انتہا دُکھ درد برداشت کرنا پڑا۔
ب۔ خُدا نے ہمیں آخر کس سے بچایا ہے؟ اُس نے ہمیں تمام گھناؤنے گناہوں اور اُن کے بوجھ اور اُن کی سزا یعنی موت سے بچایا ہے۔ اِسی نسبت سے پولس رسول نے یہ گواہی دی ہے "یہ بات سچ اور ہر طرح سے قبول کرنے کے لائق ہے کہ مسیح یسوع گنہگاروں کو نجات دینے کےلئے دُنیا میں آیا جِن میں سب سے بڑا میں ہوں" (1-تیمتھیس 15:1)۔
مقدّس اِنجیل میں یوں بیان ہے: "کیونکہ ابنِ آدم [گناہ و موت کے سایہ کی وادی میں] کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈنے اور نجات دینے آیا ہے۔" (لوقا 10:19)
یِسُوع مسیح نے ہمیں شیطان کی طاقت سے بچایا ہے جیسا کہ یوں بیان ہے: “خُدا نے یسوع ناصری کو رُوح القُدس اور قُدرت سے کس طرح مسح کیا ۔ وہ بھلائی کرتا اور اُن سب کو جو ابلیس کے ہاتھ سے ظُلم اُٹھاتے تھے شفا دیتا پھرا کیونکہ خُدا اُس کے ساتھ تھا" (اعمال 38:10)۔
ج۔ نتیجہ کے طور پر وہ جو نجات پا کر بچائے گئے ہیں اُن کےلئے یسوع مسیح کی حقیقت مختلف روحانی فوائد و برکات کے ساتھ یوں ہے:
جبکہ ہم نجات کے ذریعہ راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں تو خُداوند یسوع مسیح کے وسیلہ ہم خُدا کے ساتھ امن کی خوشی منانے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ امن سے معمور یہ اطمینان ہمیں کثرت کی زندگی میں ڈھال فراہم کرتا ہے جو خُداوند خُدا ہمارے لئے یروشلیم (جو کہ امن کا آسمانی شہر ہے) میں ابدی خوشی کی تیاری کےلئے چاہتا ہے۔ ایسی نجات جو ہمیں تمام رُوحانی فوائد اور آسمانی برکات سے لطف اندوز ہونے کی ضمانت دیتی ہے اُس کی اہمیت ضرور ہی نہایت اعلیٰ ہو گی۔
عزیزقاری! میں آپ کی توجہ پولس رسول کی طرف سے کئے گئے اُس سوال کی طرف پھر لے جانا چاہوں گا کہ ہم اتنی بڑی نجات سے غافل ہو کر کس طرح بچ سکتے ہیں؟ اتنی بڑی نجات سے غافل رہ کر کیا ہم واقعی رُوحانی طور پر محفوظ حالت میں ہیں؟ کیا ہم انجیل کی بلاہٹ کے وسیلہ اتنی بڑی نجات کو جسے خُدا خود انسانی جسم میں پورا کرنے کےلئے [مُجسم ہو کر] آیا، نظرانداز کر کے بچ سکتے ہیں؟
مسیح سے قبل کے بائبل مقدّس کے حصے یعنی عہد عتیق میں مذہبی عبادت کی رسومات و طریقہءکار اور شریعت کے باوجود نجات کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اِس ضمن میں چند وجوہ درج ذیل ہیں کہ ایسا کیوں ہے؟
خُدا نے بذاتِ خود نجات کی بابت کلام کے ذریعہ پیش گوئی کی۔ ابتدا ہی میں خُدا نے فرمایا کہ عورت [مریم] کی نسل سے پیدا ہونے والے [مسیحا] کو شیطان کا سَر کچلنا تھا (پیدایش 15:3)۔
خُدا کی جانب سے مقررکردہ درمیانی خُداوند یسوع نے جو فرشتوں سے کہیں افضل ہے (نجات دینے کا) اعلانیہ اقرار کیا اور اپنے آپکو قربان کر کے نجات کے اِس کام کو پورا کیا (پرانے عہد نامہ میں خُدا اور انسان کے بیچ میں فرشتے درمیانی تھے)۔ مسیحی ایمان میں یہی (یسوع) کونے کے سِرے کا پتھر ہو گیا اور اِسی مسیحی ایمان کو خُداوند یسوع مسیح نے آسمان پر جانے سے قبل اپنے (گیارہ) رسولوں کے سُپرد کیا اور بعد میں اُنکو پاک رُوح سے قوت بخشی تا کہ وہ تمام قوموں میں (مسیحی نجات) کی بشارت دیں۔
یقینی طور پر پیش کی جانے والی نجات، جس کی ہمیں تصدیق کرائی گئی ہے، ہر طرح سے قبول کرنے کے لائق ہے جو اُن انبیاء کے نوشتوں کے عین مطابق بھی ہے جنہوں نے نجات کا پیغام رُوح القدس کی تحریک سے دیا اور جنہوں نے اِس نجات کے پیغام کو سُنا اُنہوں نے گواہی دی یعنی رسُول جو خُداوند یسوع مسیح کی زندگی میں اُس کے شاگرد تھے۔ اُنہوں نے براہِ راست مسیح یسوع سے خُدائی کلام کی سچائی و نجات کے پیغام کو حاصل کیا اور یروشلیم سے شروع کر کے دُنیا کی انتہا تک اِسی انجیلی کلام کی بشارت دی۔ خُداوند مسیح یسوع بذاتِ خود رُوح القدس کی قدرت کے مختلف کاموں اور رُوح کی نعمتوں کے ظہور کی صورت میں اپنے شاگردوں و پیروکاروں کے ساتھ گواہ تھا۔ خُدا نے شاگردوں کے وسیلہ نجات کی خوشخبری کی بشارت کو اُن کے ہاتھوں سے ہونے والے معجزات مثلاً بیماروں کو شفا، غیر زبانوں میں بولنے اور نبوت کرنے سے تقویت دی۔
اب جبکہ ہم اتنی عظیم نجات کے مفہوم سے اَور بھی زیادہ آشنا ہو گئے ہیں تو پوچھا جا سکتا ہے کہ "ہمیں کیا کرنا چائیے کہ ہم بچ سکیں؟" یہ ایک ایسا اَزلی سوال ہے جو ہر بشر، ہر زبان میں سورج کے نیچے اِس زمین پر کرتا رہے گا۔ اِس سوال کا کوئی اَور جواب نہیں سوائے اُس جواب کے جو پولس رسول نے فلپی شہر کی قید میں جیل کے داروغے کو دیا تھا کہ خُداوند یسوع پر ایمان لا تو تُو اور تیرا گھرانا نجات پائے گا" (اعمال 31:16)۔
شکرگزاری کے ساتھ خُدا کی نجات کو اپنے دل و رُوح میں قبول کیجئے تو یسوع مسیح آپ کے دِل کو رُوح القدس کی خوشی سے معمور کرے گا، آپکو فتح مندی عطا کرے گا اور آخر میں زندگی کا تاج دے گا۔ خُداوند یسوع مسیح کے فضل کی اُمید رکھتے ہوئے ہمیشہ کی زندگی کےلئے خُدا کی پاک محبت میں اپنے آپ کو بے عیب رکھیے۔
یاد کیجئے کہ انسان کی رُوح خُدا کی نظر میں اِس حد تک قیمتی ہے کہ خُدا نے اِس انسانی رُوح کو اپنے ہی اکلوتے بیٹے کی موت سے خرید لیا۔ اپنی رُوح سے غافل نہ رہیں اور اِس کی حفاظت کےلئے کسی بھی کاوش کو ہاتھ سے جانے نہ دیں۔
کسی آدمی نے اپنا سارا مال و اسباب بیچ کر ایک بیش قیمت موتی خرید لیا۔ وہ اِس بیش قیمت موتی کو اپنے ساتھ لے کر دُور دراز کے کسی ملک کےلئے بحری سفر پر روانہ ہوا۔ بحری جہاز کے عرشے پر وہ اِس خوبصورت موتی کا مشاہدہ کر رہا تھا اور سُورج کی کِرنوں میں اِس کی چمک دمک کی تعریف کر رہا تھا۔ وہ موتی کو ہاتھ میں لئے کھیلتا رہا۔ دوستوں کے منع کرنے کے باوجود بھی وہ موتی کو اُوپر کی طرف ہَوا میں بہت اُونچا پھینک کر اُچھالتا رہا۔ تب جو ہونا تھا وہی ہوا۔ اِس بار جب کہ موتی کی اُچھال بہت زیادہ بلند تھی تو اُس آدمی سے موتی سمندر کی گہرائی میں گر پڑا۔ وہ آدمی تذبذب (بے چینی) کی حالت میں چلا اُٹھا کہ: میں نے اِسے کھو دیا! میں نے اِسے کھو دیا!۔
یہ ایک حقیقی واقعہ ہے۔ یہ ہر اُس انسان کو آگاہ کرنے میں مدد دیتا ہے جو اپنی زندگی سے جُوا کھیلتا ہے۔ آپ خود بھی اِس بیش قیمت موتی کی طرح ہو سکتے ہیں! ممکن ہے کہ آپ خُدا کی جانب سے عطا کردہ اپنی روح اور ایمان سے ایسے ہی (مذہبی جُوا) کھیل رہے ہوں۔ کہیں آپ اپنی رُوح اور ایمان کی جائز نگہداشت کو دُنیا کی نفسانی خواہشات، جہالت و بطالت کی فضا میں اُچھال کر نظرانداز تو نہیں کر رہے؟ ایسا کرنے سے آپ کی رُوح کو برائیوں کے اتھاہ گھڑے میں اُترنے اور اُس کے اَبدی خسارہ کا خطرہ لاحق ہے۔
ہم مکاشفہ 10:2 میں وفادار رہنے کا ایک حکم پڑھتے ہیں جو مسیح کا ہر ایک ایماندار کےلئے ہے: "جان دینے تک بھی وفادار رہ تو میں تجھے زندگی کا تاج دُوں گا۔" یہ الہی حکم دو اہم حقائق کی عکاسی کرتا ہے۔ پہلا یہ کہ، ہماری مسیح کے ساتھ وفاداری ایک بیش قیمت موتی کی طرح ہے جِسے ہمیں بڑی حفاظت سے رکھنا ضرور ہے، چاہے ہمیں اپنی جان کانقصان ہی کیوں نہ اُٹھانا پڑے، اور دوسرا یہ کہ مسیح یسوع کے ساتھ ہماری زندگی کی وفاداری کا تسلسل ضرور ہی برقرار رہے تا کہ جب دُنیا کا خاتمہ ہو تو یہ زندگی ثابت قدم اور مستحکم پائی جائے،کیونکہ ہم بذاتِ خود مسیح کے ہاتھوں میں بطور امانت ہیں۔
مسیح کے ساتھ ایسی وفاداری کا اجر بہت ہی بیش قیمت ہے یعنی "زندگی کا تاج۔" یہ وہ تاج ہے جو مسیح یسوع نے موت کی قوت یعنی شیطان کو کچل کر اور قبر پر غالب آ کر ہمارے لئے جیت لیا ہے۔ موت پر غلبہ پانے والا مسیح، زندگی کا تاج اُنہیں عطا کرتا ہے جو گناہ پر غالب آتے ہیں۔ اِنجیل مقدّس اِس کے بارے میں یوں بیان کرتی ہے:
الف۔ یہ جلالی اور شاہانہ تاج، خُداوند خُدا نے ایمانداروں کی جماعت (کلیسیا) کےلئے تیار کر رکھا ہے، جِسے خُداوند مسیح یسوع نے اپنے پاک خون سے خریدا (یسعیاہ 3:62 کے مطابق ہم اپنے خُداوند کے ہاتھ میں جلالی تاج کی طرح ہیں)۔
ب۔ جلالی سہرا، جو کبھی بھی مرجھانے کا نہیں۔ یہ جلالی سہرا خُداوند مسیح یسوع کے گلّے کی وفادار بھیڑوں کو دیا جائے گا (1-پطرس 4:5)۔
ج۔ راستبازی کا تاج اُنکو دیا جاتا ہے جو راستبازی میں ہو کر اپنی زندگی بسر کرتے، صبر سے مسیحی ایمان میں قائم رہتے اور مسیح یسوع کی دوسری آمد کی اُمید رکھتے ہیں۔ یہ(مسیحی ایمان کی) اچھی کُشتی لڑنے اور دوڑ کو ختم کرنے کا اجر ہے (2-تیمتھیس 7:4-8)۔
د۔ زندگی کا تاج اُس وفادار ایماندار کو دیا جاتا ہے جس نے آزمائشوں کا سامنا کیا اور اِن میں سے بےالزام ہو کر گزرا ہو۔ یہ اُن شہیدوں کےلئے مسیح کے ساتھ وفاداری کا اجر ہے جسے موت بھی چُرا نہ سکی۔
مختصر یہ کہ خُداوند خُدا نے "وفاداری کا تاج" اُن کو دینے کا وعدہ کیا ہے جو مسیح یسوع (اُس کی پاک آسمانی و ازلی تعلیمات کو پڑھتے اور اُن پر عمل کرتے ہیں) سے پیار کرتے ہیں۔ انجیل کی زبان میں ابدی زندگی اور فتح مندی کے تاج کا اعزاز وفادار ایماندار کو راہِ راست مسیح یسوع کے ہاتھوں سے ملتا ہے۔ مسیح یسوع نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اِس (تاج) کو محفوظ رکھیں "میں جلد آنے والا ہوں۔ جو کچھ تیرے پاس ہے اُسے تھامے رہ تا کہ کوئی تیرا تاج نہ چھین لے" (مکاشفہ 11:3)۔ اِسی دئیے گئے حکم سے متاثر ہو کر پولس رسول کُلسّے (کلسیوں) کی کلیسیا کو یوں حکم دیتا ہے: "کوئی شخص خاکساری اور فرشتوں کی عبادت پسند کر کے تمہیں دوڑ کے انعام سے محروم نہ رکھے۔" (کلسیوں 18:2)
اِس حکم کے باعث مسیح نے اپنے پیروکاروں کو یوں آگاہ کرنا چاہا کہ وہ بےراہ روی کی حالت میں بے دین نہ ہوں جیسا کہ عیسو نے کیا "جس نے ایک وقت کے کھانے کے عوض اپنے پہلوٹھے ہونے کے حق کو بیچ ڈالا کیونکہ تم جانتے ہو کہ اِس کے بعد جب اُس نے برکت کا وارث ہونا چاہا تو منظور نہ ہوا۔ چنانچہ اُس کو نیت کی تبدیلی کا موقع نہ مِلا گو اُس نے آنسو بہا بہا کر اُس کی بڑی تلاش کی" (عبرانیوں 16:12-17)۔
کون ہم کو مسیح کی محبت سے جُدا کریگا؟ مصیبت یا تنگی یا ظلم یا کال یا ننگا پن یا خطرہ یا تلوار؟ چنانچہ لکھا ہے کہ ہم تیری خاطر دِن بھر جان سے مارے جاتے ہیں۔ ہم تو ذبح ہونے والی بھیڑوں کے برابر گنے گئے۔ مگر اُن سب حالتوں میں اُس کے وسیلہ سے جس نے ہم سے محبّت کی ہم کو فتح سے بھی بڑھ کرغلبہ حاصل ہوتا ہے۔ (رومیوں 35:8-37)
سوال
میں گناہ سے مکمل طور پر کس طرح بچ سکتا اور اُن کو کیسے ترک کر سکتا ہوں؟ کیا نجات کےلئے بپتسمہ پانا اور اعتقاد رکھنا ہی کافی ہے؟ گناہوں سے توبہ کرنے والے شخص کو جس کے گناہ معا ف ہوئے اُسے مزید کیا کرنا چاہئے؟
اے۔ ایل۔ جی۔ اسکندریہ، مصر
مسیح نے مردوں میں سے زندہ ہو کر آسمان پر اُٹھائے جانے سے قبل اپنے شاگردوں کو حکم دیا کہ تم تمام دُنیا میں جا کر ساری خلق کے سامنے انجیل کی منادی کرو۔ جو ایمان لائے اور بپتسمہ لے وہ نجات پائے گا اور جو ایمان نہ لائے وہ مُجرم ٹھہرایا جائے گا (مرقس 15:16-16)۔ جس طریقے سے مسیح کے مقدس رسولوں نے خُداوند کے انجیلی حکم کو بیان کیا، اِس سے ہم سمجھتے ہیں کہ (گناہ کے باعث) تمام انسانیت ہلاک ہونے کےلئے مُجرم ٹھہرائی گئی ہے، لیکن جو مسیح یسوع پر ایمان لاتا ہے وہ اپنے ماضی کے گناہوں کی معافی مسیح کے نام میں حاصل کرتا اور گناہ کی قوت و طاقت سے بچایا جاتا ہے۔
حقیقت میں جب ہم بچانے والے ایمان سے متعلق مقدس بائبل کی تعلیمات پر سوچ بچار کرتے ہیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ خُدا نے ہمارے لئے نجات تیار کی ہے اور اِسی بچانے والے ایمان کی مندرجہ ذیل اہم صفات یوں ہیں:
i- پاک نوشتوں میں الہٰی مکاشفہ کی بابت خبرداری، پاک کلام میں موجود مسیح کے وسیلہ تیارکردہ نجات پر ایمان،انسان کی فطری طور پر (گناہ میں) گری حالت کی بابت بائبل کے مکاشفہ کی سچائی اور انسان کےلئے مسیح کی ضرورت کی قبولیت۔ گرچہ یہ ذہنی کیفیت اپنے آپ میں نجات پانے کےلئے کافی نہیں ہے، مگر یہ انسان کی بچانے والے ایمان کے راستے کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔
ii- رُوح کی گری ہوئی حالت پر احساسِ جُرم کی بابت شخصی قائلیت۔ ایسا احساسِ جُرم جو خُدا کی حمد و تعریف اور شکرگزاری پیدا کرتا ہے، اِس سے ہمار ی گری ہوئی حالت کےلئے مسیح میں تیار کی گئی نجات کی مناسب راہ ہموارہوتی ہے۔
iii- یسوع مسیح ہمارے خُداوند اور نجات دہندہ پر، رضاکارانہ انحصار۔ گناہوں کے اقرار اور رُوحانی لیاقت سے محرومیت والے احساس کے باعث یسوع کی بچانے والی قوت ہماری رُوحانی زندگی کو مُتحرک کرتی ہے تا کہ ہم مسیح کو اپنے شخصی نجات دہندہ کے طور پر قبول کریں اور گناہوں کی معافی و کفارہ کے واحد ذریعے کو تھامے رکھیں۔ بائبل مقدس میں ایسی بہت سی بنیادی آیات ہیں جو یہ بیان کرتی ہیں کہ ہم مسیح کے وسیلے نجات حاصل کرنے کےلئے کس طرح اُس کے پاس آ سکتے ہیں۔
"اَے (مذہبی) محنت [نماز، روزہ، حج، زکوٰة، جہاد وغیرہ] اُٹھانے والو اور (گناہ کے) بوجھ سے دبے ہوئے لوگو! سب میرے پاس آو، میں تم کو آرام دُوں گا۔ میرا جُوا (کلام اور صلیب) اپنے اُوپر اُٹھا لو اور مجھ سے سیکھو کیونکہ میں حلیم ہوں اور دِل کا فروتن، تو تمھاری جا نیں آرام پائیں گی" (متی 28:11)۔
"لیکن جتنوں نے اُسے (مسیح یسوع کو نجات دہندہ کے طور پر) قبول کیا، اُس نے اُنہیں خُدا کے فرزند بننے کا حق بخشا یعنی اُنہیں جو اُسکے نام پر ایمان لاتے ہیں" (یوحنا 12:1)۔
"مگر جو کوئی اُس پانی میں سے پئے گا جو میں اُسے دُوں گا وہ ابد تک پیاسا نہ ہو گا بلکہ جو پانی میں اُسے دُوں گا وہ اُس میں ایک چشمہ بن جائیگا جو ہمیشہ کی زندگی کےلئے جاری رہے گا (یوحنا 14:4)۔
"یسوع نے اُس سے کہا، قیامت اور زندگی تو میں ہوں، جو مُجھ پر ایمان لاتا ہے گو وہ مر جائے تَو بھی زندہ رہے گا اور جو کوئی زندہ ہے اور مجھ پر ایمان لاتا ہے وہ ابد تک کبھی نہ مریگا۔ کیا تُو اِس پر ایمان رکھتی ہے؟" (یوحنا 26،25:11)
"اور یسوع نے اَور بہت سے معجزے شاگردوں کے سامنے دِکھائے جو اِس کتاب میں لکھے نہیں گئے، لیکن یہ اِس لئے لکھے گئے کہ تم ایمان لاؤ کہ یسوع ہی خُدا کا بیٹا مسیح ہے اور ایمان لا کر اُس کے نام سے زندگی پاؤ" (یوحنا 30:20۔31)۔
"خُداوند یسوع پر ایمان لا تو تُو اور تیرا گھرانا نجات پائے گا" (اعمال 31:16)۔
اب ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ بچانے والے ایمان میں (یسوع مسیح کے تعلق سے) شخصی اور (خُدائی الہام کے تعلق سے) مجموعی دونوں ہی خاصیتیں ہیں۔ مجموعی خاصیت جس میں تمام الٰہی نوشتے شامل ہیں اور شخصی خاصیت جس میں نجات دہندہ کے طور پر سِوائے مسیح کے اَور کوئی دُوسرا نہیں ہے۔ دُوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بچانے والا ایمان مسیح میں نجات کے الٰہی وعد ے پر منحصر ہے۔
چند وضاحتیں مندرجہ ذیل ہیں جو یہ بیان کرتیں کہ مسیح نجات کےلئے کونے کے سرے کا پتھر ہے:
مسیح نے لوگوں کو اکثر دعوت دی کہ وہ اُس پر ایمان لائیں۔ مسیح یسوع نے فرمایا کہ اگر لوگ اُس پر ایمان نہ لائیں تو وہ مُجرم ٹھہرائے جائیں گے "تا کہ جو کوئی ایمان لائے اُس میں ہمیشہ کی زندگی پائے۔ جو اُس (مسیح یسوع) پر ایمان لاتا ہے اُس پر سزا کا حکم نہیں ہوتا، جو اُس پر ایمان نہیں لاتا اُس پر سزا کا حکم ہو چُکا اِس لئے کہ وہ خُدا کے اِکلوتے بیٹے کے نام پر ایمان نہیں لایا۔ جو بیٹے پر ایمان لاتا ہے ہمیشہ کی زِندگی اُس کی ہے لیکن جو بیٹے کی نہیں مانتا (اُس کے انجیلی کلام پر عمل نہیں کرتا)، (ابدی) زندگی کو نہ دیکھے گا بلکہ اُس پر خُدا کا غضب رہتا ہے" (یوحنا 36,18،3:15)۔
پاک انجیل میں ایسے بہت سے متن ہیں جو یہ اعلانیہ بیان کرتے ہیں کہ ہم مسیح یسوع پر ایمان لا کر بچائے گئے ہیں:
"جب ہم آدمیوں کی گواہی قبول کر لیتے ہیں تو خُدا کی گواہی تَو اُس سے بڑھ کر ہے اور خُدا کی گواہی یہ ہے کہ اُس نے اپنے بیٹے کے حق میں گواہی دی ہے۔ جو خُدا کے بیٹے پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے آپ میں گواہی رکھتا ہے، جس نے خُدا کا یقین نہیں کیا اُس نے اُسے (خُدا کو) جھوٹا ٹھہرایا کیونکہ وہ اُس گواہی پر جو خُدا نے اپنے بیٹے کے حق میں دی ہے ایمان نہیں لایا اور وہ گواہی یہ ہے کہ خُدا نے ہمیں ہمیشہ کی زندگی بخشی اور یہ زندگی اُس کے بیٹے میں ہے۔ جس کے پاس بیٹا ہے اُس کے پاس زندگی ہے اور جس کے پاس خُدا کا بیٹا نہیں اُس کے پاس زندگی بھی نہیں" (1-یوحنا 9:5۔12)۔
"جس کا یہ ایمان ہے کہ یسوع ہی مسیح ہے وہ خُدا سے پیدا ہوا ہے اور جو کوئی والد سے محبت رکھتا ہے وہ اُس کی اَولاد سے بھی محبت رکھتا ہے" (1-یوحنا 1:5)۔
اُوپر دئیے گئے حوالہ جات سے یہ صاف عیاں ہے کہ نجات پانے کےلئے جو کچھ ہمیں کرنا ہے اُس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم مسیح اور اُس گواہی کو جو خُدا نے اپنے بیٹے کے حق میں بیان کی ایمان سے قبول کریں کہ مسیح یسوع ہی زندہ خُدا کا بیٹا ہے۔ مسیح یسوع اپنی ہی ذات میں ایمان کی زندہ مثال ہے جو نجات کو یقینی بناتا ہے۔
پس ایمان کا مطلب ہے مسیح یسوع کی الٰہی ذات کو تکنا، جو ایمان کا بانی ہے اُس پر بھروسا (توکل، یقین، اعتبار) رکھنا اور اپنے آپ کو اُس کے سُپرد کر دینا۔ (ایمان، اُمید کی ہوئی چیزوں کا اعتماد اور اَن دیکھی چیزوں کا ثبوت ہے۔)
پولس رسول نے یہ سِکھایا ہے کہ ہم مسیح پر ایمان لانے سے ہی راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں۔ یہاں ایمان نہ صِرف ذہنی رجحان، محض خُدا پر عام ایمان، الٰہی مکاشفہ پراعتقاد، کسی ازلی حقیقت پر تکیہ کرنا ہے، بلکہ یہ ایک ایسا ایمان ہے جس میں مسیح ہی بنیادی مُدّعا (غرض) ہے۔
پولس رسول رومیوں کے خط میں یوں بیان کرتا ہے: "یعنی خُدا کی وہ راستبازی جو یسوع مسیح پر ایمان لانے سے سب ایمان لانے والوں کو حاصل ہوتی ہے" (رومیوں 22:3)۔
گلتیوں کی کلیسیا کو پولس یوں لکھتا ہے:
"تَو بھی یہ جان کر کہ آدمی شریعت کے اعمال سے نہیں بلکہ صِرف یسوع مسیح پر ایمان لانے سے راستباز ٹھہرتا ہے خُود بھی مسیح یسوع پر ایمان لائے تا کہ ہم مسیح پر ایمان لانے سے راستباز ٹھہریں نہ کہ شریعت کے اعمال سے کیونکہ شریعت کے اعمال سے کوئی بشر راستباز نہ ٹھہریگا" (گلتیوں 16:2)۔
"ایمان کے آنے سے پیشتر شریعت کی ماتحتی میں ہماری نگہبانی ہوتی تھی اور اُس ایمان کے آنے تک جو (مسیح میں) ظاہر ہونے والا تھا ہم اُسی کے پابند رہے" (گلتیوں 23:3)۔
"میں مسیح کے ساتھ مصلوب ہوا ہوں اور اَب میں زندہ نہ رہا بلکہ مسیح مجھ میں زندہ ہے اور میں جو اَب جسم میں زندگی گزارتا ہوں تو خُدا کے بیٹے پر ایمان لانے سے گذارتا ہوں جِس نے مجھ سے محبت رکھی اور اپنے آپکو میرے لئے موت کے حوالہ کر دیا" (گلتیوں 20:2)۔
ہم انجیل مقدس میں یہ پڑھتے ہیں کہ مسیح بہتوں کو نجات دینے کےلئے اپنے آپ کو خُدا کے حضور قربانی کے طور پر پیش کر کے تمام انسانیت کے گناہوں کےلئے کفارہ بن گیا۔ ہم یہ بھی پڑھتے ہیں کہ بنی نوع انسان مسیح یسوع کی راستبازی اور موت کی فضیلت کے وسیلے ہی سے بچائے جاتے ہیں۔ جبکہ وہ ہمارا نجات دہندہ ہے، ہمارے گناہوں کا کفارہ ہے اور اِسی ایمان ہی سے ہماری خُدا کے ساتھ صلح ہوئی ہے، تو ہمیں ضرور ہی مسیح یسوع کو جیسا وہ ہے ویسے ہی قبول کرنا اور اُسی پر توکل کرنا ہے۔ اِنجیل مقدس اِس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ خُداوند مسیح یسوع اپنی ذات میں اور جو کچھ اُس نے (انسان کی نجات کےلئے) کیا ہے، ہمارے ایمان کا مرکز اور ہمارے توکل کی بنیاد ہے۔
مسیح اور ایمانداروں کے درمیان تعلق کی تصدیق بائبل کے متن کے مختلف حصوں سے ہوتی ہے۔ بائبل میں اِس کے تعلق سے یہ لکھا ہے:
"ایمان ہی کے باعث ہم اُس میں قائم ہیں۔"
"وہ ہم میں قائم رہتا ہے۔"
"وہ ہمارا سَر ہے اور ہم اُس میں اُس کے اعضا ہیں۔"
"ہماری زندگی کا قیام اُس کی زندگی سے ہے۔"
"وہ انگور کا حقیقی درخت ہے اور ہم اُس کی ڈالیاں ہیں۔"
"وہ ہمارے ایمان کا مُنصف اور اِسے کامل کرنے والا ہے۔"
مندرجہ بالا آیات اور اِسی طرح کی دیگر ملتی جُلتی آیات ایسے کسی بھی خیال و مشورہ کو رَدّ کرتی ہیں کہ خُدا اور بائبل پر خیالی یا عام لفظی ایمان سے ہماری نجات کی تصدیق ہوتی ہے بلکہ یہ اِس بات کا ثبوت ہیں کہ گناہوں سے بچانے والے ایمان کا انجام مسیح میں کامل ہوتا ہے اور مسیح شخصی طور پر ہمارا خُداوند اور نجات دہندہ بن جاتاہے۔ ہم کلامِ مقدس (بائبل) میں یہ بھی پڑھتے ہیں کہ خُدا باپ آسمانی نے دُنیا کو گناہوں سے بچانے کےلئے اپنے اکلوتے بیٹے (یسوع مسیح) کو بھیجا۔
علاوہ ازیں مسیح ہمارے گناہوں کےلئے (صلیب پر) قربانی کے طور پر قربان کیا گیا اور ہمیں راستباز ٹھہرانے کےلئے مُردوں میں سے زندہ ہُوا اور مسیح، خُدا کی طرف سے ہمارے لئے حکمت، راستبازی، پاکیزگی اور نجات ٹھہرایا گیا۔ وہ لوگ جو نجات دہندہ مسیحا کو قبول کرتے ہیں، جیسا کہ اُس نے اپنے آپ کو ہم پر ظاہر کرنا چاہا اور جو اپنی رُوحوں کو اُس [مسیحا] کے ہاتھ میں سونپ دیتے ہیں اور اپنے آپ کو اُس کی خدمت کےلئے وقف کر دیتے ہیں، وہی لوگ اُس کے حقیقی ایماندار ہیں جیسا کہ بائبل اُن سے یہی تقاضا کرتی ہے اور جس کے نتیجے میں وہ فضل خُداوندی ہی سے بچائے جاتے ہیں۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہر مسیحی ایماندار مسیح یسوع کو نجات دہندہ کے طور پر قبول کرتا ہے اور ہر طرح کی بدی اور گناہ سے نجات کےلئے اقرار کرتا ہے کہ مسیح خُدا کا اکلوتا بیٹا ہے جو انسانیت کے گناہوں کےلئے صلیب پر قربان ہوا، مر گیا، مگر اپنی موت کے تیسرے دن مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے۔ بائبل اپنے پیروکاروں سے یوں بیان کرتی ہے کہ مسیح نبی،سردار کاہن اور بادشاہ ہے۔ اِس میں یہ بھی بیان ہے کہ مسیح زندگی کا سر چشمہ، حقیقی نُور، خوشیوں کا منبع اور پرستش و پیار کا موضوع و مقصد ہے۔
اگر نجات کی اہمیت، زندگی کی گہرائی اور ابدیت کےلئے اتنی ہی زیادہ ہے تو ہمیں ضرور ہی اِس کی فطرت اور ہر پہلو سے اِس کے مفہوم کی بابت یہ سوال اُٹھانا چاہیے کہ "نجات کیا ہے؟"
درحقیقت "مسیحیت" کا مجموعی موضوع آغاز سے لے کر اختتام تک صِرف راستہءنجات ہے کہ گناہ میں کھویا انسان خُدا کے جلال میں پھر سے شامل ہو سکے۔ اِس کا بانی اور معمار آسمانی خُدا باپ کا مجسم شدہ کلام ہے جو خُدا کے نام سے یسوع مسیح کی صورت میں اِس دُنیا میں آیا جس کا مطلب ہے خُدا "نجات دہندہ۔" نجات کی وضاحت خُداوند یسوع مسیح کے آسمانی پیغام سے ہوتی ہے اور تمام انسانیت کو اُن کے گناہوں سے بچانا ہی مسیحیت کا اہم مقصد ہے۔ آسمانی خُدا باپ کے پاک فرشتہ جبرائیل نے متی 21:1 کے مطابق یوسف سے (کنواری مریم کی بابت) یوں کہا تھا: "اُس [مریم] کے بیٹا ہو گا اور تُو اُس کا نام یسوع رکھنا کیونکہ وہی اپنے لوگوں کو اُن کے گناہوں سے نجات دیگا۔" مسیح نے خود اپنی ہی بابت بمطابق لوقا 10:19 یوں کہا: "کیونکہ ابنِ آدم کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈنے اور نجات دینے آیا ہے۔"
اَب تک آپ نے محسوس کر لیا ہو گا کہ کوئی بھی توبہ کرنے والا شخص محض کسی کاہن، پوپ، چرچ فادر، پادری، مولوی، خطیب، درویش یا ولی کی شفاعتی دُعا کی مداخلت کے باعث اپنے گناہوں سے بری الذمہ نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ گناہ و موت سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔ کوئی بھی کاہن، پوپ، چرچ فادر، پادری، مولوی، خطیب، درویش، ولی، مقدس بزرگ، درویش شخص، نبی، انسانی کتاب یا فرشتہ ایسا نہیں جس میں کسی انسان کو گناہ و موت سے بری کرنے کی قدرت یا طاقت ہو، مگر صِرف ایک ہی ایسی ذات و شخصیت ہے جو یہ قدرت اور طاقت رکھتی ہے وہ آسمانی و زندہ خُداوند یسوع مسیح ہے جس کے بارے میں یوں لکھا ہے کہ: "اَو ر کسی دُوسرے کے وسیلہ سے نجات نہیں کیونکہ آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دُوسرا نام نہیں بخشا گیا جس کے وسیلہ سے ہم نجات پاسکیں" (اعمال 12:4)۔
"ہم ایک مُنجی یعنی خُداوند یسوع مسیح کے وہاں سے آنے کے اِنتظار میں ہیں جو ہماری پست حالی کے بدن کی شکل بدل کر اپنے جلال کے بدن کی صُورت پر بنائے گا" (فلپیوں 20:3۔21)۔
کتاب "میں کیا کروں کہ نجات پاؤں؟" کے معموں (سوالات) کے جوابات تحریر کیجیے۔ عزیز قاری! اگر آپ نے اِس کتاب کا گہرائی سے مطالعہ کر لیا ہے تو ہم اُمید کرتے ہیں کہ آپ آسانی سے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دینے کے قابل ہونگے۔ مہربانی سے نیچے دئیے گئے سوالات کے جوابات اُردُو یا انگلش [ای ۔ میل] کے ذریعہ یا کسی الگ کاغذ پر لکھ کر اِدارہ ہذا کو دئیے گئے پتہ پر روانہ کیجیے تا کہ اِس کتاب کی بابت آپ کی معلومات کا بہتر اندازہ لگایا جا سکے۔ اِس کتاب کے متعلق اپنی ذاتی رائے و خیال خط کی صورت میں جواب نامہ کے ہمراہ لکھیے۔ اپنا مکمل نام، مکمل پتہ، اس علاقہ کا درست پوسٹل ائیریا کوڈ (معلوم نہ ہونے کی صورت میں اپنے نزدیکی ڈاک خانہ سے دریافت کر کے لکھئے) اپنے جواب کے ہمراہ لکھنا بھول نہ جائیے گا۔ شکریہ
کیا آپ نے اپنے گناہوں سے مسیح میں نجات حاصل کر لی ہے؟ مسیحی ایمان و نجات سمجھنے میں اگر آپکو کوئی دِقت پیش آ رہی ہے تو ہمیں لکھئے۔
CallofHope
P.O.Box100827
D-70007
Stuttgart
Germany
© 1999-2013 Call of Hope - جُملہ حقوق محفوظ ہیں