دُنیا اپنے آخری نشانہ کی طرف پہنچنے کےلئے تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ سب چیزوں کا انجام و اختتام نزدیک آ پہنچا ہے۔ مذہب میں دلچسپی رکھنے والا اور ہر پرہیزگار شخص یہ جانتا ہے کہ جناب مسیح پھر خدا کی طرف سے دوبارہ آنے والے ہیں۔ لیکن غافل اِنسان اُن کی آمد دیکھ کر ششدر رہ جائیں گے کیونکہ اُنہوں نے مسیح کی قوت و شخصیت کی طرف سے چشم پوشی کی ہے۔
تب آپ کو تجربہ ہو گا کہ آپ کی آج کی زندگی اور ابدیت دونوں ہی کس طور پر اِس سوال پر منحصر ہیں کہ آپ کا تعلق مسیح سے کیسا ہے؟ اگر آپ مسیح کی شخصیت کے حقیقی جوہر کا ادراک کر لیں گے تو آپ اپنے آپ کو اُس کےلئے کھول دیں گے، اور وہ آپ کو خوشی سے معمور کر دے گا۔ تب آپ کی زندگی کے تمام معاملے منظم ہو جائیں گے کیونکہ مسیح میں علم و حکمت کے تمام خزانے موجود ہیں۔ مسیح جو جلال میں آنے والا ہے آپ سے پوچھے گا: "تم میرے حق میں کیا سمجھتے ہو؟" آئیے ابھی جبکہ موقع ہے، ہمارے ساتھ مل کر اُن کی حیات طیبہ پر غور کریں، آپ دِلی تسلی پائیں گے اور اُس کے فضل و رحم سے آپ کو اپنے مسائل کا حل بھی ملے گا۔
جس طرح مسیح کی ولادت ہوئی ہے کبھی کسی اَور شخص کی نہیں ہو گی کیونکہ اُنہیں "ابن مریم" کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ ہم اسمٰعیل بن ابرہام، یوحنا بن زکریاہ اور محمد بن عبد اللہ کہتے ہیں۔ سب ہی بیٹے ہمیشہ اپنے والد کے نام سے جانے جاتے ہیں، پھر مسیح کو کیوں اُن کی والدہ کے نام کی طرف منسوب کیا گیا ہے؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ جیسے اوروں کے باپ ہوتے ہیں ویسا اُن کا کوئی باپ نہ تھا۔ وہ تو کنواری سے پیدا ہوئے تھے۔ اُن کی ولادت خدا تعالیٰ کی قدرت اور ازلی مقصد پر منحصر تھی۔
اُن کی پیدایش سے تقریباً سات سو سال پہلے یسعیاہ نبی نے نبوت کی کہ وہ مولود کس طور پر جنم لے گا: "لیکن خداوند آپ تم کو ایک نشان بخشے گا۔ دیکھو ایک کنواری حاملہ ہو گی اور بیٹا پیدا ہو گا اور وہ اُس کا نام عمّانُوایل (خدا ہمارے ساتھ) رکھے گی" (یسعیاہ 14:7)۔ خدا نے اپنے وعدہ کو پورا کیا کیونکہ وہ وفادار و عادل ہے اور اُس کےلئے کوئی بات ناممکن نہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ مسیح کلمتہ اللہ ہیں؟ انجیل مقدّس کے الہامی الفاظ ملاحظہ ہوں: "ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا ... اور کلام مجسم ہوا اور فضل اور سچائی سے معمور ہو کر ہمارے درمیان رہا" (یوحنا 1: 14،1)۔ خدا کی تمام تخلیقی قوت جو اُس کے مقدّس الفاظ میں سرگرم عمل تھی وہ 'الکلمة' مسیح میں مجتمع ہو گئی۔ اور اگر آپ اُن واقعات پر جو مسیح کی ولادت کے گرد گھومتے ہیں غور کریں تو آپ ششدر رہ جائیں گے کیونکہ کوئی انسان ابن مریم کی طرح پیدا نہیں ہوا اور کسی کا اُن سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اپنی پیدایش میں لاثانی ہیں۔
کیا آپ کو یاد ہے کہ خدا تعالیٰ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا تھا؟ ہم سب اولادِ آدم ہیں، حتی کہ انبیاء بھی سوائے اِس مٹی سے تخلیق کے اَور کچھ نہیں۔ ہم سب زمینی لوگ ہیں یعنی نیچے کے ہیں۔ لیکن مسیح اوپر سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ وہ آسمان سے اُترے تھے۔ وہ پاکیزہ و بےگناہ ہیں، برف کی طرح سُتھرے۔ لیکن ہم سب فاسد الطبع، خاطی اور گنہگار ہیں کیونکہ ہم خاکی ہیں اور خدا تعالیٰ کے روح سے مولود نہیں ہیں۔
کتاب مقدّس میں ہم یہ عبارت پڑھتے ہیں کہ مسیح اِس دُنیا میں گنہگاروں کو بچانے کےلئے آیا۔ کوئی بھی شخص مسیح کی جگہ نہیں لے سکتا کیونکہ ہم سب مٹی سے پیدا ہوئے ہیں لیکن وہ خدا کی طرف سے آئے ہیں۔
اُنہوں نے ہم شریر و فاسد لوگوں کو رد نہیں کیا بلکہ اپنایا ہے۔ اور ہماری نجات کی خدمت اپنے ذمہ لے لی ہے اور ہم خاک کے پُتلوں کو پاک و صاف کیا ہے۔ مسیح کی عجیب پیدایش کےلئے ہم خدا کی حمد و تمجید کرتے ہیں۔
مسیح خدا کے روح سے پیدا ہوئے۔ پیدایش سے ہی گناہوں سے اُن کی برأت و عصمت ثابت ہے، یہاں تک کہ ایک بار بھی آپ سے گناہ کا ارتکاب نہیں ہوا، نہ ہی کبھی خدا سے مغفرت مانگتے اُنہیں سُنا گیا جیسا کہ ہم اکثر گناہوں کا اعتراف و اقرار کرتے ہیں۔ ہمیں لازماً اپنے گناہوں کا اقرار کرنا چاہئے وگرنہ ہم اپنے آپ کو اور خدا کو دھوکا دیتے ہیں۔ داﺅد نبی نے آنسو بہا بہا کر مغفرت مانگی، اِسی طرح ابرہام خلیل اللہ نے اپنے پروردگار سے مغفرت طلب کی۔ لیکن اگر آپ کتاب مقدّس (بائبل) میں یا قرآن میں تلاش کریں تو نہ کوئی آیت اور نہ کوئی دلیل آپ کو وہاں ملے گی جو جناب مسیح کے بارے میں یہ دکھاتی ہو کہ ایک بار بھی آپ نے مغفرت چاہی ہو۔
اب چونکہ مسیح بغیر گناہ کے تھے اِس لئے آپ کو پاکی و معافی کی احتیاج نہ پڑی۔ آپ نے اپنے مخالفوں سے اعلانیہ کہا: "تم میں کون مجھ پر گناہ ثابت کرتا ہے؟" (یوحنا 46:8)۔ اور کوئی ایسا نہ نکلا جو ایک بھی قصور یا گناہ، قولی یا عملی، اُن پر ثابت کر پاتا۔ رومی حاکم کے سامنے جب آخری بار آپ کی پیشی ہوئی تو اُس نے تین بار اِس بات کا اعتراف کیا کہ "میں اُس کا کچھ جرم نہیں پاتا" (یوحنا 18: 38;19: 6،4)۔
اِس سے بھی بڑھ کر ایک موقع تھا جب ایک شخص جس میں ناپاک روح تھی، یسوع کو قریب آتے دیکھ کر خوف کے مارے چلاّ اُٹھا: "اے یسوع ناصری! ہمیں تجھ سے کیا کام؟ کیا تُو ہم کو ہلاک کرنے آیا ہے؟ میں تجھے جانتا ہوں کہ تُو کون ہے۔ خدا کا قدوس ہے" (مرقس 24:1)۔ چنانچہ دُنیا و عقبیٰ میں مسیح ہی پورے طور پر اپنی ذات میں قدوس و کامل ہے۔ سب نے گناہ کیا ہے لیکن فقط وہی ایک ہستی ہے جو اِس سے مبرّا ہے۔
تمام انبیاء و رسل صالحین کی طرف خدا تعالیٰ کے ازلی کلمہ سے الہام بخشا گیا، لیکن جناب مسیح اپنے جوہر میں خدا کا کلمہ ہیں جس میں خدا تعالیٰ کی تمام قوتِ خالقہ اور رحمت مرکوز ہے۔ نہ صرف آپ نے کلام کیا بلکہ جو کچھ کہا وہ زندگی میں کر کے بھی دکھایا۔ خدا تعالیٰ کا اختیار و قوت واضح طور پر آپ کے الفاظ اور آپ کے کاموں میں ظاہر ہوئی جس نے ایک دوسرے کی تصدیق کی۔
بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں ہم اُن کے بارے میں اِس طرح کا بیان پڑھتے ہیں: "جب یسوع نے یہ باتیں ختم کیں تو ایسا ہوا کہ بھیڑ اُس کی تعلیم سے حیران ہوئی کیونکہ وہ اُن کے فقیہوں کی طرح نہیں بلکہ صاحبِ اختیار کی طرح اُن کو تعلیم دیتا تھا" (متی 7: 29،28)۔ اور جب آپ کے مخالفوں نے اپنے خادموں کے ذریعے آپ کو پکڑوانا چاہا تو وہ لوگ بھی آپ کے کلام سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور اُن کے ضمیر پر اثر ہوا۔ وہ آپ کے پاس آنے کی جرأت نہ کر پائے بلکہ اپنے بھیجنے والوں کی طرف یہ بڑبڑاتے ہوئے واپس لوٹ گئے کہ "انسان نے کبھی ایسا کلام نہیں کیا" (یوحنا 46:7)۔
مسیح کی کچھ باتوں پر غور فرمائیے جو آپ نے بڑی فروتنی سے کہیں:
"دُنیا کا نور میں ہوں۔ جو میری پیروی کرے گا وہ اندھیرے میں نہ چلے گا بلکہ زندگی کا نور پائے گا۔" (یوحنا 12:8)
"زندگی کی روٹی میں ہوں۔ جو میرے پاس آئے وہ ہرگز بھوکا نہ ہو گا اور جو مجھ پر ایمان لائے وہ کبھی پیاسا نہ ہو گا۔" (یوحنا 35:6)
"اپنے دُشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کےلئے دُعا کرو۔" (متی 44:5)
"عیب جوئی نہ کرو کہ تمہاری بھی عیب جوئی نہ کی جائے۔ کیونکہ جس طرح تم عیب جوئی کرتے ہو اُسی طرح تمہاری بھی عیب جوئی کی جائے گی اور جس پیمانہ سے تم ناپتے ہو اُسی سے تمہارے واسطے ناپا جائے گا۔ تُو کیوں اپنے بھائی کے آنکھ کے تنکے کو دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کے شہتیر پر غور نہیں کرتا؟ اور جب تیری ہی آنکھ میں شہتیر ہے تو تُو اپنے بھائی سے کیونکر کہہ سکتا ہے کہ لا تیری آنکھ میں سے تنکا نکال دوں؟ اے ریاکار پہلے اپنی آنکھ میں سے تو شہتیر نکال پھر اپنے بھائی کی آنکھ میں سے تنکے کو اچھی طرح دیکھ کر نکال سکے گا۔" متی 7: 1-5)
اگر آپ اِن اقوال پر غور و فکر کریں تو آپ دیکھیں گے کہ مسیح دُنیا کا نور ہیں اور جو اُن کے اقوال کی پیروی کرتے ہیں اُنہیں سچی زندگی اور اطمینان عطا کرتے ہیں۔
تمام دوسرے نبی جو آئے اُن کے ساتھ الہٰی نور کا ایک حصہ ہوا کرتا تھا جس سے یہ عالم تاریک جگمگا اُٹھتا تھا جیسے چاندنی سے رات کی تاریکی جو ہلال کی طرح رفتہ رفتہ کم ہوتی جاتی تھی۔ لیکن مسیح نصف النہار کے آفتاب کی مانند ہیں جو اپنے نور کی تمام قوت میں چمکتا ہے۔ جب سورج طلوع ہو رہا ہو تو ہم چاندنی میں کیسے چل سکتے ہیں؟ مسیح نورحقیقی ہے جس نے نبوتوں کی تکمیل کی اور نئی شریعت کا اعلان کیا جو محبت ہے۔ وہ خود محبت ہے جو مجسم ہوئی، اِس لئے آپ کو یہ کہنے کا پورا حق تھا کہ: "راہ اور حق اور زندگی میں ہوں۔ کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا" (یوحنا 6:14)، "آسمان اور زمین ٹل جائیں گے لیکن میری باتیں ہرگز نہ ٹلیں گی" (متی 35:24)۔
جو بھی مسیح کے کاموں پر گہری نظر ڈالے گا اُس پر عیاں ہو جائے گا کہ آپ میں لامحدود صلاحیتیں ہیں کیونکہ تمام آسمانی قوت و اختیار مکمل طور پر آپ کو تفویض کیا گیا۔ آپ نے خدا کے کاموں کو اعلانیہ طور پر پورا کیا اور جو آپ نے کر دکھایا کوئی اَور نہ کر سکا۔ کوڑھیوں کو فقط زبان سے کہہ کر ہی آپ نے اچھا کر دیا، اور اپنی شفقت سے آپ نے اندھوں کی آنکھیں کھولیں۔ شدید طوفان کو محض الفاظ سے تھما دیا۔ بدارواح کو جھڑک کر نکال باہر کیا، اور صرف دو مچھلیوں اور پانچ روٹیوں سے پانچ ہزار بھوکوں کو شکم سیر کیا۔ ایسا پہلے کبھی کسی نے نہیں کیا تھا۔
بے شک کچھ نبیوں نے اپنے ربّ کے نام میں چند معجزے کئے لیکن مسیح نے اپنے نام میں اپنے ہی عظیم اختیار کے بل بوتے پر اپنا کام کیا۔
لعزر نام ایک نوجوان تھا جو مر چکا تھا حتیٰ کہ دفن بھی کیا جا چکا تھا۔ اُس کے عزیز روتے پیٹتے آپ کے پاس آئے اور مدد کی درخواست کی۔ جب آپ لعزر کے گاﺅں پہنچے تو اُسے دفن ہوئے پہلے ہی سے چار دن ہو چکے تھے، جب مسیح قبر کے پاس پہنچے تو بڑی بااختیار آواز میں پکارا: "لعزر باہر نکلا آ" اور مردہ حقیقت میں زندہ ہو کر باہر نکل آیا۔
آپ بھی جب اُس کی آواز، جو زندہ کر دیا کرتا ہے، سُنیں گے تو آپ بھی زندگی پائیں گے اور اُس روحانی موت سے جو آپ کے گناہوں کی وجہ سے واقع ہو چکی ہے، بچائے جائیں گے۔ کیونکہ مسیح نے خود ہی فرمایا ہے: "قیامت اور زندگی تو میں ہوں" (یوحنا 25:11)۔
وہ دن آنے والا ہے جب سارے مردے آپ کی آواز سُنیں گے اور جی اُٹھیں گے، کچھ خدا کی قربت کی زندگی کےلئے اور کچھ ایک خوفناک عدالت کےلئے۔ اور آپ بھی اگر مسیح کی آواز کےلئے اپنے دِل کو کھولیں تو خوشی اور حیاتِ ابدی پائیں گے۔
مسیح نے موت سہی۔ یہ بات صحیح اور یقینی ہے۔ اُنہوں نے سخت اذیت اور دُکھ سہہ کر موت کو گلے لگایا۔ اُنہیں تو پہلے ہی سے یہ علم تھا کہ کس طرح کی موت اُنہیں مرنا ہے۔ اِس سلسلہ میں اُنہوں نے برملا پیشینگوئی کر دی تھی۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کی موت کس جگہ ہونے والی ہے؟ آپ کے اپنے شہر میں ہو گی، یا سڑک پر یا آپ کے بستر پر؟ یہ موت کسی حادثہ سے ہو گی یا قدرتی طور پر؟ کتنی لمبی عمر آپ کو نصیب ہو گی، کس تاریخ یا کس دِن تک؟ آپ کے مرنے کے بعد آپ کے اعزّہ کو کن کن پریشانیوں سے گزرنا ہو گا؟
ہمیں اپنی موت کے بارے میں مطلق علم نہیں۔ حتیٰ کہ انبیاء کرام کو بھی اپنا آخری مقرر وقت معلوم نہیں تھا۔ لیکن سیدنا مسیح کو اِن سب کا علم تھا اور اُنہوں نے پہلے ہی سے باخبر کر دیا تھا کہ وہ شہر یروشلیم میں بہت دُکھ اُٹھانے کے بعد مریں گے اور اُن پر پہلے یہودی بزرگانِ دین اور بت پرست رومی مقدمہ چلائیں گے۔ آپ نے اپنی منشا و مرضی سے یہ طے کیا کہ کس دِن آپ موت سہیں گے۔ یہ عید فسح کا دِن تھا جس میں لوگ اِس غرض سے برّے قربان کیا کرتے تھے کہ اپنے گناہوں کے باعث آنے والے غضب الہٰی سے بچ جائیں۔ سو مسیح ہمارے ناپاک کرتوتوں کےلئے ہمارے گناہ کو اپنی ذات پر برداشت کرتے ہوئے خدا کے برّے کے طور پر قربان ہوئے تا کہ خدا کا غضب ہر اُس شخص پر سے ٹل جائے جو آپ پر ایمان لاتا ہے۔ جو مسیح پر ایمان لاتا ہے، وہ پاک ہو جائے گا اور ابدیت کےلئے راستباز ٹھہرا دیا جاتا ہے۔
اب نہ صرف مسیح نے اپنی موت کے وقت، انداز اور معنٰی کے بارے میں بتایا بلکہ اُنہوں نے اپنے پیروکاروں کو واضح لفظوں میں یہ یقین بھی دلایا کہ وہ تین دِن بعد جی اُٹھے گا۔ کسی کو یہ مجال نہ تھی کہ اُن کے اِس فاتحانہ جی اُٹھنے میں رکاوٹ کھڑی کر دیتا۔ یہ ساری باتیں اِسی طرح واقع ہوئیں۔
یسوع نے اپنی جان دینے کے بارے میں یہ بھی کہا: "کوئی اُسے مجھ سے چھینتا نہیں بلکہ میں اُسے آپ ہی دیتا ہوں۔ مجھے اُس کے دینے کا بھی اختیار ہے اور اُسے پھر لینے کا بھی اختیار ہے" (یوحنا 18:10)۔
کسی فرد کو اپنی موت کے مقررہ وقت کے بارے میں علم نہیں اور نہ ہی خودبخود جی اُٹھنے کا اختیار رکھتا ہے۔ مسیح نے کُل جہان کے گناہوں کو اپنے اُوپر اُٹھاتے ہوئے اور ہماری راستبازی کےلئے مرتے ہوئے اپنی جان دی۔ مسیح ہی وہی ہستی ہے جو اُن سب کو زندگی - اپنی زندگی بخشتا ہے جو اُس پر ایمان لاتے ہیں۔ اِس دُنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں جو اُن کی طرح موا اور پھر جی اُٹھا۔ مسیح کی موت تمام انسانیت کےلئے خدا تعالیٰ کی عظیم برکت ہے۔
مسیح پر سچ مچ موت واقع ہوئی۔ وہ ایک ایسی قبر میں دفنائے گئے تھے جو ایک پختہ چٹان کو کاٹ کر بنائی گئی تھی۔ آپ کے دشمنوں نے قبر کے منہ پر ایک بڑا پتھر رکھ کر اُسے بند کر دیا اور اُس وقت کی عظیم قوم کی اُس پر مہر لگا دی تا کہ آپ کے شاگرد رات کی تاریکی میں آ کر آپ کی لاش نہ چرا سکیں۔ اُنہوں نے قبر کے باہر ایک مسلح پہرہ بھی بٹھا دیا۔
لیکن تین دِن کے بعد مسیح مردوں میں سے جی اُٹھے اور قبر سے باہر آ گئے۔ بعدازاں آپ کے شاگردوں نے قبر کو خالی پایا۔ جب وہ زندہ مسیح سے ملے تو حیران و پریشان تھے اور تھرا اُٹھے کیونکہ وہ اُن کو بھوت سمجھے۔ لیکن آپ نے اُن سے بڑی محبت اور شفقت آمیز باتیں کیں اور زخم کے وہ نشانات بھی دکھائے جو آپ کے ہاتھ اور پاﺅں میں میخیں ٹھوکنے کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے۔ مسیح نے اُن کے ساتھ کھانے میں بھی شرکت کی اور اپنے زخمی بدن کو چھو کر دیکھنے کی بھی اُنہیں اجازت دی تا کہ اُنہیں یقین آ جائے کہ اُن کا یہ بدن ٹھوس اور حقیقی ہے اور یہ کہ وہ فی الحقیقت جی اُٹھے ہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ خدا کی دہنی طرف بیٹھنے کےلئے مسیح آسمان کی طرف صعود کر گئے؟ یعنی جیسے آسمان سے اُتر کر آپ زمین پر آئے اور انسانی جسم کو اپنایا اور اپنی موت کے ذریعہ اور اُس پر فتح پا کر ہلاکت، شیطان اور گناہ پر فتح حاصل کی اور اُنہیں شکست دی تو بعد ازاں اُسی طرح آسمان پر چلے گئے۔
وہ اُن سب کےلئے وفادار اور صاحب قدرت درمیانی کی حیثیت رکھتے ہیں جو اُن کے نام کے وسیلے خدا کے پاس آتے ہیں۔ وہ سب جو اُن کے درمیانی ہونے پر ایمان رکھتے ہیں اپنے دِلوں میں روح القدس کی معموری کا تجربہ کرتے ہیں۔ اُنہیں نئی عقل حاصل ہوتی ہے اور الہٰی زندگی اُنہیں ودیعت کی جاتی ہے جو پاکیزہ چال چلن میں ظاہر ہوتی ہے۔ اگر آپ زندہ مسیح اور اُن کے نجات بخش کام کا تجربہ کرنا چاہتے ہیں تو اپنا دِل اُس کی روح کی قوت کےلئے کھول دیں۔ تب آپ ایمان سے اُنہیں دیکھ سکیں گے اور آپ کی زندگی اُس راہ پر لگ جائے گی جو مسیح کے مقاصد و مشیئت سے ہم آہنگ ہے۔
جو مسیح کو رد کرتے ہیں وہ خدا کو رد کرتے ہیں جس نے دُنیا کےلئے مسیح کو ایک کفارہ کے طور پر پیش کیا۔ خدا نے وہ نبوت پوری کی جو اُس نے داﺅد نبی پر ظاہر کی کہ جس میں صعود فرمائے گئے مسیح سے کہا: "یہوواہ(خدا) نے میرے خداوند سے کہا تُو میرے دہنے ہاتھ بیٹھ جب تک کہ میں تیرے دُشمنوں کو تیرے پاﺅں کی چوکی نہ کر دوں" (زبور 1:110)۔
خدا کی محبت کا مسیح میں اعلان ہوا ہے، جو اُسے ٹھکراتا ہے خود کو راندہ بارگاہ کرتا ہے، اور اُس الہٰی فضل کی بےعزتی کرنے کے سبب خدا کے غضب کے تحت رہتا ہے کیونکہ اپنی مغفرت کے واحد در کو خود بند کر لیتا ہے۔
مسیح کے جی اُٹھنے کی گھڑی تک موت انسانیت کی سب سے بڑی دُشمن تھی۔ لیکن یسوع نے زندہ ہو کر موت کو شکست دے دی، اور اب وہ کبھی نہیں مریں گے۔ جو اُن سے لپٹا رہتا ہے وہ بھی اِس حیات ابدی کا حصہ دار بنتا ہے اور ہمیشہ بدی پر غلبہ پاتا ہے۔ کیا آپ نے مسیح میں اِس برکت کو سمجھا ہے اور اِسے قبول کیا ہے؟ ... ابھی اِسے قبول کیجئے۔
مسیح تو اپنی ذات میں محبت ہیں۔ وہ سب سے محبت کرتے ہیں اور خاص طور پر اُن سے جو اُس کی محبت کی روح میں زندگی بسر کرتے ہیں، جو محبت کرنے والے اور معاف کرنے والے بن جاتے ہیں جیسے خدا نے مسیح میں اُنہیں معاف کیا ہے۔ وہ ہمارا مشتاق ہے اور چاہتا ہے کہ ہم ہمیشہ اُس کے ساتھ رہیں۔ یسوع نے جس طرح اپنی موت اور جی اُٹھنے کے بارے میں پہلے سے بتایا تھا اُسی طرح اپنی آمد ثانی کےلئے بھی نبوت کی ہے۔ ہر دانا آدمی یہ جانتے ہوئے اُن سے ملنے کےلئے اپنے آپ کو تیار کرتا ہے کہ مسیح بڑے جلال میں تشریف لائیں گے۔ وہ اُنہیں جو اُس کے فدیہ کو قبول کرتے ہیں اُن سے جدا کرے گا جو سخت دِل اور مغرور ہیں اور اِس بات کا اقرار نہیں کرتے کہ وہ گناہگار ہیں جنہیں مسیح کی معافی کی ضرورت ہے۔
برادر عزیز! مسیح کو قبول کرنے میں جلدی کیجئے تا کہ آخری عدالت میں شرمندگی سے بچ جائیں کیونکہ فقط وہی آپ کو آنے والے غضب سے بچا سکتے ہیں۔
سارے ایماندار مسیح کی آمد کے منتظر ہیں۔ حتیٰ کہ مسلمان اور یہودی بھی جانتے ہیں کہ وہ جلد آنے والے ہیں۔ کچھ لوگ یہ مانتے ہیں کہ اِس دُنیا پر اُن کی چالیس سالہ حکومت ہو گی، کچھ اِسے سو سالہ حکومت گردانتے ہیں، جبکہ کچھ یہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ ہزار سالہ بادشاہت ہو گی۔ کتاب مقدّس ہمیں بتاتی ہے کہ مسیح بادشاہوں کا بادشاہ اور خداوندوں کا خداوند ہے اور اُن کا کوئی اختتام نہیں۔ اُن کی بادشاہی ابدی ہے۔ آپ نے فرمایا: "میں بادشاہ ہوں۔ میں اِس لئے پیدا ہوا اور اِس واسطے دُنیا میں آیا ہوں کہ حق پر گواہی دوں۔ جو کوئی حقانی ہے میری آواز سُنتا ہے" (یوحنا 37:18)۔
کچھ نبیوں کے خاص خاص لقب تھے۔ ابراہیم کو خلیل اللہ (خدا کا دوست)، موسیٰ کو کلیم اللہ (وہ جس سے خدا نے کلام کیا) اور مسیح کو کلمتہ اللہ اور روح اللہ کہا گیا ہے۔ لیکن انجیل مقدس میں ہم خدا کی طرف سے براہ راست یہ مکاشفہ پڑھتے ہیں کہ آسمان سے ایک آواز یہ کہتے ہوئے سُنائی دی کہ: "یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں" (متی 5:17)۔
الفاظ "خدا کا بیٹا" کا کیا مطلب ہے؟ ایک بچہ عموماً ویسا ہی ہوتا ہے جیسا اُس کا باپ ہوتا ہے۔ اِسی طرح ہم مسیح میں خدا کی صفات دیکھتے ہیں، آپ نے اپنے شاگردوں سے کہا: "جس نے مجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا" (یوحنا 9:14)۔ شاید اِس پر آپ معاذ اللہ (خدا بچائے) بولیں اور کہیں کہ وہ تو صرف نبی تھے! لیکن ہم آپ سے کہتے ہیں کہ آپ مسیح کی بات کیوں نہیں مانتے؟ اگر آپ نے حقیقی توبہ نہیں کی اور اپنے افکار و اعمال کو نہیں بدلا تو آپ کی پہلے ہی عدالت ہو چکی ہے۔
یہ ایک بڑا بھید ہے کہ مسیح خدا کے ایک بندہ کی شکل میں ظاہر ہوئے تا کہ اُنہیں جو گناہ کے غلام ہیں آزاد کریں۔ آپ زمین پر ایک حلیم و خاکسار انسان کی طرح جئے تا کہ ہمیں بتا دیں کہ صحیح انسانیت کیا ہوتی ہے۔ دُنیوی عظمت و قوت انسان کو بچانے والی نہیں، بچائے گی تو صرف مسیح کی محبت۔ جو تلوار لٹکا کر چلتا ہے طاقت والا معلوم ہوتا ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ خود پر جو قابو رکھ سکے وہ قوی تر ہوتا ہے اور سب سے عظیم تو وہ ہے جو اپنی جان تک بہتیروں کےلئے فدیہ میں دیدے۔ اِسی لئے یوحنا رسول نے یہ اقرار کیا: "کلام مجسم ہوا اور فضل اور سچائی سے معمور ہو کر ہمارے درمیان رہا اور ہم نے اُس کا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال" (یوحنا 14:1)۔
مسیح انسانی صورت میں مجسم ہوئے تا کہ یہ جانا جا سکے کہ خدا ایسا باپ ہے جو رحیم، محبت کرنے والا اور معاف کرنے والا ہے، وہ ایسا نہیں جو بڑا غضبناک اور تباہی مچانے والا ہے یا یہ کہ وہ ایک ایسی ہستی نہیں جسے کسی سے کوئی غرض ہی نہیں ہے۔ اب مسیح نے ہمیں خدا کے بارے میں ایک نئی سمجھ دی ہے، صرف الہٰی صفتوں کا درس دے کر نہیں بلکہ ہمارے سامنے اپنی زندگی گزار کر اُنہوں نے خدا کی انسان سے لامحدود محبت کا اظہار کیا ہے تا کہ ہم جان سکیں کہ نئے دور کا نصب العین ابدی محبت ہے۔
خدا کا بیٹا پرگداز آواز میں آپ سے کہتا ہے: "اے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آﺅ۔ میں تم کو آرام دوں گا۔ میرا جوا اپنے اوپر اُٹھا لو اور مجھ سے سیکھو۔ کیونکہ میں حلیم ہوں اور دِل کا فروتن۔ تو تمہاری جانیں آرام پائیں گی۔ کیونکہ میرا جوا ملائم ہے اور میرا بوجھ ہلکا" (متی 11: 28-30)۔
جب مسیح نے اِس طرح کے الفاظ کے ساتھ لوگوں کو اپنے شاگرد ہونے کےلئے بلایا تو اُنہوں نے آپ کی طرف سے بلاوے پر بھروسا کرتے ہوئے اپنے گھر، اپنے پیاروں اور اپنے پیشوں کو چھوڑ دیا اور آپ کے پیچھے ہو لئے۔ اِس پیروی کے دوران اُنہوں نے مسیح کو جانا اور اُن پر ایمان لے آئے اور اپنی زندگیاں اُن کے حضور وقف کر دیں یہاں تک کہ وہ اُس کے روح القدس کی قوت سے معمور ہو گئے۔ زندہ مسیح کچھ ایسے ہی جواب کے آپ سے بھی متمنی ہیں، وہ آپ کو شخصی اور انفرادی طور پر بلا رہے ہیں کہ سب کچھ چھوڑ کر آپ اُن کی پیروی کریں۔تب آپ زیادہ سے زیادہ اُن کی رحمت کی آغوش میں آتے جائیں گے، اور وہ اپنے پاک روح سے آپ کو مسح کریں گے تا کہ آپ کی گفتار و کردار بدل جائیں۔ تب آپ اُس وقت صحیح معنوں میں ایک فروتن، صادق، مفید اور محبت کرنے والے آدمی بن جائیں گے۔ اور مسیح کا اطمینان جو ساری سمجھ سے باہر ہے آپ کے دِلوں اور خیالوں کو اُس وقت تک قائم رکھے گا جب تک مسیح پھر نہ آ جائیں، جن کی آمد بہت قریب ہے۔
عزیز قاری، اگر آپ نے اِس کتاب کا مطالعہ کیا ہے تو آپ مندرجہ ذیل سوالات کے جواب دینے کے قابل ہوں گے۔ اگر آپ کے زیادہ تر جوابات درست ہوئے تو ہم آپ کو ایک عمدہ کتاب بطور تحفہ روانہ کریں گے۔
مسیح کی ولادت میں کیا بات معجزانہ ہے؟
مسیح ہمیشہ کیوں گناہ سے بچے رہے؟
مسیح کے کلمات میں کیا بھید پنہاں ہے؟
مسیح کے کن کاموں نے آپ کو زیادہ متاثر کیا ہے؟
مسیح کی موت میں کیا بات عجیب ہے؟
مردوں میں سے مسیح کی قیامت (جی اُٹھنا) سے کیا مراد ہے؟
مسیح اِس وقت کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟
مسیح کی آمد ثانی سے آپ نے کیا معلوم کیا؟
آپ خود مسیح کے متعلق کیا سوچ رہے ہیں؟
Call of Hope
P.O.Box 100827
D-70007
Stuttgart
Germany