7
1 نیک نامی سب سے اچھے عطر سے بہتر ہے
اور مر نے کا دن پیدا ہو نے کے دن سے بہتر ہے۔
2 ماتم کے گھر جانا ضیافت کے گھر میں داخل ہو نے سے بہتر ہے کیوں کہ سب لوگوں کا انجام یہی ہے
اور جو زندہ ہے اپنے دل میں اس پرسو چے گا۔
3 مایوسی ہنسی سے بہتر ہے
کیوں کہ چہرے کی اداسی سے دل اچھا ہو جا تا ہے۔
4 عقلمند آدمی موت کے بارے میں سوچتا ہے
لیکن احمق کا جی عشرت خانے میں لگا ہے۔
5 احمق کی ستائش سے
دانا کی ڈانٹ بہتر ہے۔
6 احمق کی ہنسی بیکار ہے۔
یہ ہانڈی کے نیچے جلتے ہو ئے کا نٹوں کی طرح ہے۔
یہ اتنی جلدی جل جا تی ہے کہ
ہانڈی بھی گرم نہیں ہو تی۔
7 لوگو ں پر ظلم کر کے حاصل کی ہو ئی دولت
دانا کو بھی احمق بنا دیتی ہے
اور رشوت عقل کو تباہ کر دیتی ہے۔
8 کسی چیز کا خاتمہ
اس کے شروع کر نے سے بہتر ہے۔
صبر
تکبر سے بہتر ہے۔
9 جلد ی غصّہ میں مت آؤ
کیوں کہ غصّہ احمق کے دل میں رہتا ہے۔
10 تو یہ نہ کہہ ، “گذرے ہو ئے دنو ں میں زندگی بہتر تھی۔”
کیوں کہ تو دانشمندی سے اس امر کی تحقیق نہیں کرتا۔
11 حکمت بہتر ہے اگر تمہا رے پاس جا ئیداد بھی ہے۔سچ مچ میں عقلمند ضرورت سے زیادہ دولت حاصل کریں گے۔
12 روپیہ کی طرح حکمت بھی حفا ظت کرتی ہے لیکن حکمت کے علم کا فائدہ یہ ہے کہ عقلمند کو زندہ رکھتی ہے۔
13 خدا کی کوششوں پر غور کرو۔دیکھو ! خدا نے جو ٹیڑھا بنایا ہے اسے تم سیدھا نہیں کر سکتے ہو۔
14 جب زندگی اچھی ہو تو اس سے شادماں رہو۔ اور جب زندگی تکلیف دہ ہو تو یہ یاد رکھ کہ خدا اچھا اور تکلیف سے بھرا دونوں وقت ہمیں دیا ہے۔ اور کو ئی نہیں جانتا ہے کہ مستقبل میں کیا ہو گا۔
15 اپنی مختصر سی زندگی میں میں نے سب کچھ دیکھا ہے میں نے دیکھا ہے نیک لوگ جوانی میں ہی مرجا تے ہیں میں نے دیکھا ہے کہ بُرے لوگ طویل عمر تک زندہ رہتے ہیں۔
16-17 ضرورت سے زیادہ نیک نہ بنو اور حکمت میں اعتدال سے باہر نہ جا ؤ۔ اس کی کیا ضرورت ہے کہ تم اپنے آپ کو بر باد کرو۔ ضرورت سے زیادہ بدکردار مت بنو اور نہ ہی احمق بنو ورنہ وقت سے پہلے ہی تم مر جا ؤ گے۔
18 تھوڑا یہ بنو اور تھوڑا وہ۔یہاں تک کہ خدا ترس بھی کچھ اچھا کریں گے تو کچھ برا بھی۔
19-20 حکمت صاحب حکمت کو شہر کے دس حاکموں سے زیادہ زور آور بنا دیتی ہے کیوں کہ زمین پر ہرکو ئی ایسا راستباز انسان نہیں کہ نیکی ہی کرے اور خطا نہ کرے۔
21 لوگ جو باتیں کرتے رہتے ہیں ان سب پر کان مت دو ہو سکتا ہے تم اپنے نو کر کو ہی اپنے بارے میں بُری باتیں کہتے سنو۔
22 اور تم جانتے ہو کہ تم نے بھی کئی موقعوں پردوسروں کے بارے میں بری باتیں کہی ہیں۔
23 ان سب باتوں کے بارے میں میں نے اپنی حکمت اورخیالات کا استعمال کیا ہے۔ میں نے کہا کہ میں دانشمند ہوں گا۔ لیکن یہ تو نا ممکن ہے۔
24 میں سمجھ نہیں پا تا کہ باتیں ویسی کیوں ہیں جیسی وہ ہیں۔کسی کے لئے بھی یہ سمجھنا بہت مشکل ہے۔
25 میں نے مطالعہ کیا اور ساری چیزوں کی کڑی آزمائش کی۔میں نے ہر شئے کے اسباب کو جاننے کی کو شش کی جو کہ میں نہیں جانتا تھا۔
لیکن جو میں نے جانا وہ یہ کہ بُرا ہو نا بے وقوفی ہے اور بے وقوف ہو نا پا گل پن ہے۔
26 تب میں نے سمجھا کہ وہ عورت جو پھندے کی طرح خطرناک ہو ، غم اور تلخی کا باعث ہو سکتی ہے جو کہ موت سے بھی زیادہ بری ہے۔اس کا دل جال کی طرح ہے۔ اور اس کاہا تھ زنجیروں کی مانند ہے۔ وہ شخص جن کے ساتھ خدا خوش ہے وہ اس سے بچایا جا ئے گا۔لیکن ایک گنہگار اس کا شکار ہو گا۔
27-28 واعظ کہتا ہے ، “ان سبھی باتوں کو ایک ساتھ اکٹھا کر کے میں نے سب کے سامنے رکھا یہ دیکھنے کے لئے کہ میں کیا جواب پا سکتا ہو ں؟ جوابوں کی کھوج میں تو میں آج تک ہوں۔ ہزارو ں کے بیچ میں مجھے کم سے کم ایک اچھا آدمی توملا۔لیکن میں ایک اچھی عورت کو پانے میں ناکام ہو گیا۔
29 “ ایک بات کا مجھے پتہ چلا ہے۔خدا نے لوگو ں کو نیک ہی بنایا تھا۔ لیکن لوگو ں نے برائی کے کئی راستے ڈھونڈ لئے۔”