20
1 ایک دن اسرائیل کے کچھ بزرگ میرے پاس خداوند سے رہبری کے لئے پو چھنے آئے۔ یہ جلاوطنی کے ساتویں برس کے پانچویں مہینے کا (اگست ) دسواں دن تھا۔ بزرگ میرے سامنے بیٹھے تھے۔
2 تب خداوند کا کلام میرے پاس آیا۔اس نے کہا،
3 “اے ابن آدم! اسرائیل کے بزرگو ں سے بات کرو۔ان سے کہو، ’خداوند میرا مالک یہ باتیں بتا تا ہے: کیا تم لوگ میری صلاح مانگنے آئے ہو؟ میری حیات کی قسم میں تمہیں کو ئی بھی صلاح نہیں دو ں گا۔ خداوند میرے مالک نے یہ بات کہی۔‘
4 کیا تم نے آزمائش کی ہے؟ اے ابن آدم کیا تم نے ان لوگوں کے لئے آزمائش کی ہے۔ تمہیں ان لوگوں کو ان لوگوں کے باپ دادا کے کئے ہوئے بھیانک گناہوں کے بارے میں ضرور کہنا چاہئے۔
5 تمہیں ان سے کہنا چاہئے، ’ میرا مالک خدا وند یہ باتیں کہتا ہے: جس دن میں نے اسرائیل کو بر گزیدہ کیا۔ میں نے یعقوب کے خاندان سے ایک وعدہ کیا اور میں نے خود کو ملک مصر میں ان پر ظاہر کیا۔ میں نے وعدہ کیا اور کہا: “میں خدا وند تمہارا خدا ہوں۔
6 اس دن میں نے تمہیں مصر سے باہر لانے کا وعدہ کیا تھا اور میں تم کو اس ملک میں لایا جسے میں تمہیں دے رہا تھا۔ وہ ایک اچھا ملک تھا جو کئی نفیس چیزوں سے بھرا تھا۔ یہ سبھی ملکوں سے زیادہ حسین تھا۔
7 “میں نے کہا کہ ہر ایک شخص کو اپني نفرت انگیز مورتیوں کو پھینک دینا چاہئے۔ میں نے ان لوگوں سے کہا کہ مصر کے بتوں سے ناپاک مت ہوجاؤ میں خدا وند تمہارا خدا ہوں۔”
8 لیکن وہ مجھ سے با غی ہوئے اور نہ چاہا کہ میری سنیں۔ ان میں سے کسی نے ان نفرت انگیز چیزوں کو جو اسکی منظور نظر ہیں دور کرے اور تم اپنے آپ کو مصر کے بتوں سے ناپاک کرو۔ میں خدا وند تمہارا خدا ہوں۔
9 لیکن میں نے انہیں فنا نہیں کیا۔ میں ان لوگوں سے جہاں وہ رہ رہے تھے پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ میں اپنے لوگوں کو مصر سے باہر لے جاؤں گا۔ میں اپنے اچھے نام کو ختم نہیں کرنا چاہتا۔ اس لئے میں نے ان لوگوں کے سامنے اسرائیلیوں کو فنا نہیں کیا۔
10 میں اسرائیل کے گھرانے کو مصر سے باہر لایا۔ میں انہیں بیابان میں لے گیا۔
11 تب میں نے انکو اپنے آئین دیئے۔ میں نے انکو سارے آئین بتائے۔ اگر کوئی شخص ان احکام کو قبول کرے گا تو وہ زندہ رہے گا۔
12 میں نے انکو آرام کے سبھی سبت کے دنوں کے بارے میں بھی بتایا۔ وہ مقدس دن انکے اور میرے بیچ خاص نشان تھے۔ وہ صاف دکھا یا کہ میں خدا وند ہوں اور میں انہیں اپنے خاص لوگ بنا رہا تھا۔
13 “لیکن اسرائیل کے خاندان نے بیابان میں میرے خلاف سر اٹھا یا۔ انہوں نے میری شریعت کو ماننے سے انکار کیا۔ اور میرے اصولوں کو رد کیا اور اگر کوئی شخص ان شریعتوں کا پالن کرتا ہے تو وہ زندہ رہے گا۔ ان لوگوں نے میرے آرام کے سبت کے دنوں کو کام کے دنوں کی مانند سمجھا۔ تب میں نے کہا کہ میں ان لوگوں پر اپنا قہر ڈالتا اور انہیں بیابان میں پوری طرح سے تباہ کردیتا۔
14 لیکن میں نے انہیں فنا نہیں کیا۔ دیگر قوموں نے مجھے اسرائیل کو مصر سے باہر لاتے دیکھا۔ میں اپنے اچھے نام کو ختم کرنا نہیں چاہتا تھا۔
15 میں نے بیابان میں ان لوگوں سے ایک اور وعدہ کیا۔ میں نے وعدہ کیا کہ میں انہیں اس ملک میں نہیں لاؤں گا جسے میں انہیں دے رہا ہوں۔ وہ کئی چیزوں سے معمور ایک اچھا ملک تھا۔ یہ سبھی ملکوں سے زیادہ خوبصورت تھا۔
16 “بنی اسرائیلیوں نے میرے احکام کو قبول کرنے سے انکار کیا۔ انہوں نے میری شریعت کی پیروی نہیں کی۔ انہوں نے میرے آرام کے سبت کے دنوں کو کام کے دنوں کی مانند سمجھا۔ انہوں نے یہ سبھی کام اس لئے کئے کیوں کہ وہ لوگ سچ مچ میں جھوٹے بتوں کے لئے مخصوص ہوگئے تھے۔
17 لیکن مجھے ان پر رحم آیا۔ اس لئے میں نے انہیں نیست و نابود نہیں کیا۔ میں نے انہیں بیابان میں پوری طرح فنا نہیں کیا۔
18 میں نے انکے بچوں سے باتیں کیں۔ میں نے ان سے کہا، “اپنے ماں باپ جیسے نہ بنو۔ انکی مکروہ مورتوں سے خود کو گندہ نہ بناؤ۔ انکے آئین کو قبول نہ کرو۔ انکے احکام کی پیروی نہ کرو۔
19 میں خدا وند ہوں۔ میں تمہارا خدا ہوں۔ میرے آئین کو قبول کرو۔ میرے احکام کو مانو۔ وہ کام کرو جو میں کہوں۔
20 یہ ظاہر کرو کہ میرے آرام کے سبت کے دن تمہارے لئے اہم ہیں۔ یاد رکھو کہ وہ تمہارے اور ہمارے بیچ خاص علامت ہیں۔ میں خدا وند ہوں اور وہ مقدس دن یہ ظاہر کرتے ہیں کہ میں تمہارا خدا ہوں۔”
21 “لیکن وہ بچے میرے خلاف ہوگئے۔ انہوں نے میری شریعت کو قبول نہیں کیا۔ انہوں نے میرے احکام نہیں مانے۔ انہوں نے ویسا نہیں کیا جیسا میں نے کہا تھا۔ اگر کوئی شخص ان اصولوں کو مانے گا تو وہ زندہ رہے گا۔ انہوں نے میرے سبت کے آرام کے دنوں کو کام کے دنوں کی مانند سمجھا۔ اس لئے میں نے انہیں بیابان میں پوری طرح فنا کرنے کا اور بیابان میں انکے خلاف اپنے قہر کو دکھانے کا ارادہ کیا۔
22 لیکن میں نے خود کو روک لیا۔ دیگر قوموں نے مجھے اسرائیل کو مصر سے باہر لاتے دیکھا۔ جس سے میرا نام ناپاک نہ ہو۔ اس لئے میں نے ان دیگر قوموں کے سامنے اسرائیل کو فنا نہیں کیا۔
23 اس لئے میں نے بیابان میں انہیں ایک اور قسم دی۔ میں نے انہیں مختلف قوموں میں بکھیر نے اور دیگر قوموں میں بھیجنے کا ارادہ کیا۔
24 “بنی اسرائیلیوں نے میرے احکام کو قبول نہیں کیا۔ انہوں نے میرے آئین کو ماننے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے میرے خاص آرام کے سبت کے دنوں کو ایسا کیا جیسے وہ اہمیت نہ رکھتے ہوں۔ انہوں نے اپنے باپ دادا کی مکروہ مورتیوں کی عبادت کی۔
25 اس لئے میں نے انہیں وہ شریعت دی جو اچھی نہیں تھی۔ اور میں نے انہیں وہ احکام دیئے جس سے وہ زندہ نہیں رہ سکتے۔
26 اور میں نے ان کو ان ہی کے تحفوں سے ناپاک ہونے دیا۔ اور انکے تمام پہلوٹھوں کو قربانی کی آگ کے اوپر سے گزر نے دیا تاکہ میں ان لوگوں کو چھوڑ سکو ں۔ تاکہ وہ لوگ جانیں گے کہ میں خدا وند ہوں۔‘
27 اس لئے اے ابن آدم! اب اسرائیل کے گھرانے سے کہو۔ ان سے کہو کہ میرا مالک خدا وند یہ باتیں کہتا ہے۔ بنی اسرائیلیوں نے میرے خلاف بری باتیں کہیں اور میرے خلاف برے منصوبے بنائے۔
28 میں انہیں اس ملک میں لایا جسے دینے کا وعدہ میں نے کیا تھا۔ وہاں انہوں نے ان پہاڑیوں اور ہرے درختوں کو دیکھا، اور ان تمام جگہوں میں قربانی پیش کر نی شروع کردی۔ ان لوگوں نے مجھے اپنے نذ رانوں سے غضبناک کیا۔ انہوں نے بخور جلائے اور وہاں پر مئے کا نذرانہ پیش کیا۔
29 میں نے بنی اسرائیلیوں سے پوچھا کہ وہ ان بلند مقام پر کیوں جا رہے ہیں۔ لیکن وہ بلند مقام آج بھی وہاں ہیں۔”
30 اس لئے بنی اسرائیل سے بات کرو۔ ان سے کہو، “میرا مالک خدا وند کہتا ہے: تم لوگوں نے ان برے کاموں کو کر کے خود کو ناپاک بنا لیا ہے۔ تم نے اپنے باپ دادا کے برے کاموں کو دہرایا ہے۔ تم نے ان نفرت انگیز کاموں کو کر کے ایک فاحشہ عورت کی طرح کام کیا ہے۔
31 اور جب اپنے تحفے پیش کرتے ہو اور اپنے بیٹوں کو آگ میں ڈالتے ہو اور اپنے سب بتوں سے اپنے آپ کو آج تک ناپاک کرتے ہو تو اے اسرائیل کیا تم مجھ سے کچھ دریافت کر سکتے ہو؟ میں خدا وند اور آقا ہوں۔ مجھے اپنی حیات کی قسم مجھ سے کچھ دریافت نہ کر سکو گے۔
32 تم کہتے رہتے ہو کہ تم دیگر قوموں اور دوسرے ملکوں کے لوگوں کی طرح ہوگئے۔ تم لکڑی اور پتھر کی مورتیوں کی پوجا کرتے لیکن ایسا نہیں ہوگا۔”
33 میرا مالک خدا وند کہتا ہے، “اپنی زندگی کی قسم کھا کر میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں تمہارے اوپر بادشاہ کی طرح حکومت کروں گا۔ میں اپنے طاقتور بازوؤں کو اٹھاؤں گا اور تمہیں سزا دوں گا۔ میں تمہارے خلاف اپنا قہر ظاہر کروں گا۔
34 میں تمہیں ان دیگر قوموں سے باہر لاؤں گا۔ میں تمہیں ان قو موں میں بکھیر دوں گا۔ لیکن میں تم لوگوں کو ایک ساتھ اکٹھا کروں گا اور ان قوموں سے واپس لوٹاؤں گا۔ لیکن میں اپنے طاقتور ہاتھوں کو اٹھاؤں گا اپنے بازوؤں کو پھیلاؤں گا اور تمہارے خلاف اپنا قہر ظاہر کروں گا۔
35 میں تمہیں بیابان میں لے چلوں گا۔ جہاں دیگر قومیں رہتی ہیں۔ میں تمہارے روبرو کھڑا ہوں گا اور میں تمہارے ساتھ انصاف کروں گا۔
36 میں تمہارے ساتھ ویسی ہی عدالت کروں گا۔ جیسی تمہارے باپ دادا کے ساتھ مصر کے بیابان میں کیا تھا۔” میرے مالک خدا وند نے یہ باتیں کہیں۔
37 “میں تمہیں معاہدہ کے مطابق مجرم ٹھہراؤں گا۔ میں تمہیں سزا کی چھڑی کے نیچے سے گزاروں گا۔
38 اور میں تم سے ان لوگوں کو جو باغی ہیں جدا کروں گا۔ میں انکو جس نے میرے خلاف گناہ کئے اس ملک سے جس میں تم اب بھی رہتے ہو نکال لاؤں گا۔ میں انہیں اسرائیل میں داخل ہونے نہ دوں گا۔ تب تم جانو گے کہ میں خدا وند ہوں۔ ”
39 اے بنی اسرائیل! اب سنو، میرا خدا وند یہ کہتا ہے، “اگر کوئی شخص اپنے گندے بتوں کی عبادت کرنا چاہتا ہے تو اسے جانے دو اور عبادت کرنے دو، لیکن بعد میں یہ نہ سوچنا کہ تم مجھ سے کوئی صلاح پاؤگے۔ تم میرے نام کو آئندہ اور زیادہ نا پاک نہیں کر سکو گے۔ اس وقت نہیں جب تم اپنے گندے بتوں کو نذرانہ پیش کرنا جاری رکھتے ہو۔ ”
40 میرا مالک خدا وند کہتا ہے، “لوگوں کو میری خدمت کے لئے میرے کوہ مقدس اسرائیل کے اونچے پہاڑ پر آنا چاہئے۔ اسرائیل کا سارا گھرانا اپنی زمین پر ہوگا۔ وہ وہاں اپنے ملک میں ہونگے۔ یہ وہی مقام ہے جہاں تم آسکتے ہو اور میری صلاح مانگ سکتے ہو اور تمہیں اس مقام پر مجھے اپنی قربانی چڑھانے آنا چا ہئے۔ تمہیں اپنی فصل کا پہلا حصہ وہاں اس مقام پر لانا چاہئے۔ تمہیں اپنی سبھی مقدس قربانیاں لانی چاہئے۔
41 جب میں تم کو قو موں میں سے نکا لوں گا اور ان ملکوں میں جن میں میں نے تم کو بکھیر دیا تھا ایک ساتھ جمع کروں گا۔ تب میں تم کو تمہا ری قربانی کی میٹھی خوشبو کی طرح قبول کروں گا اور قوموں کے سامنے میں تم کو دکھا ؤں گا کہ میں تمہا رے درمیان مقدس ہوں۔
42 تب تم سمجھو گے کہ میں خداوند ہوں۔ تم یہ تب جانو گے جب میں تمہیں ملک اسرائیل میں وا پس لا ؤں گا۔ یہ وہی ملک ہے جسے میں نے تمہا رے با پ دادا کو دینے کا وعدہ کیا تھا۔
43 اس ملک میں تم ان بُرے اعمال کو یا دکرو گے جن کی وجہ سے تم نا پاک ہو گئے۔ اور پھر تم اپنے تمام کئے ہو ئے بُرائیوں کی وجہ سے شرمندہ ہو ئے۔
44 اے بنی اسرائیلیوں! تم نے بہت بُرے کام کئے اور تم لوگوں کو ان بُرے کاموں کے سبب فنا کر دیا جانا چا ہئے۔ لیکن اپنے نام کی حفا ظت کے لئے میں وہ سزا تم لوگوں کو نہیں دو ں گا جس کے تم لوگ مستحق ہو۔ جب تم جانو گے کہ میں خداوند ہو ں۔ ” میرے مالک خداوند نے یہ باتیں کہیں۔
45 تب خداوند کا کلام مجھے ملا،اس نے کہا،
46 “اے ابن آدم! جنوب کا رُ خ کرو اور جنوب ہی سے مخاطب ہو کر اس کے میدان کے جنگل کے خلاف نبوت کر۔
47 اور جنوب کے جنگل سے کہہ خداوند کا کلام سن۔ میرا مالک خداوند یوں فرماتا ہے کہ دیکھ میں تجھ میں آگ بھڑکا ؤں گا اور ہر ایک درخت اور ہر ایک سو کھا درخت جو تجھ میں ہے جل جا ئے گا۔ بھڑکتا ہوا شعلہ نہ بجھے گا اور جنوب سے شمال تک ہر ایک چہرہ اس سے جھلس جا ئے گا۔
48 تب لوگ جانیں گے کہ میں نے یعنی خداوند نے آگ لگا ئی ہے۔ آگ بجھا ئی نہیں جا سکے گی۔”
49 تب میں (حزقی ایل ) نے کہا، “اے خداوند میرے مالک! اگر میں ان سب باتو ں کو کہتا ہوں تو لوگ کہیں گے کہ میں انہیں صرف کہانیاں سنا رہا ہوں۔”