18
( متیّ ۲۶:۴۷۔۵۶؛ مرقس ۱۴:۴۳۔۵۰؛لوقا ۲۲:۴۷۔۵۳)
1 یسوع دعا ختم کر کے اپنے شاگردں کے ساتھ وادی قدرون کے پار گئے جہا ں زیتون کا ایک باغ تھا۔ وہ اور اس کے شاگرد اس میں گئے۔
2 یہوداہ اس جگہ کو جانتا تھا کیوں کہ یسوع اکثر اپنے شا گردوں کے ساتھ یہیں ملا کر تا تھا۔ یہ وہ یہو داہ تھا جو یسوع کا مخا لف تھا۔
3 اور یہوداہ سپا ہیو ں کے دستہ کے ساتھ وہاں آیا یہوداہ اپنے ساتھ چند سردار کا ہنوں اور فریسیوں کے حفا ظتی دستوں کو لے آیا تھا جنکے پاس مشعل ،لا لٹین اور ہتھیار تھے۔
4 یسوع ان سب باتوں کو جو اس کے ساتھ ہو نے وا لی تھیں جانتے تھے۔ یسوع باہر آئے اور پو چھے کسے دیکھنے کے لئے تم آئے ہو ؟
5 ان آدمیوں نے جواب دیا ، “یسوع نا صری” یسوع نے کہا ، “میں یسوع ہوں” ( یہوداہ جو یسوع کا دشمن تھا ان کے ساتھ کھڑا تھا )
6 جب یسوع نے کہا ، “میں یسوع ہوں” تب وہ آدمی پیچھے ہٹے اور زمین پر گر گئے۔
7 پھر یسوع نے کہا تم کس کو ڈھونڈ رہے ہو۔ لو گوں نے کہا ، “یسوع ناصری کو۔”
8 یسوع نے کہا، “میں تم سے سچ کہہ چکا ہوں کہ میں یسوع ہوں اگر تم مجھے ڈھونڈ رہے ہو تو ان دوسروں کو جانے دو۔”
9 یہ اس نے اس لئے کہا کہ جو قول تو نے دیا وہ پورا ہو۔ جن آدمیوں کو تو نے مجھے دیا: “میں نے کسی کو بھی نہ کھویا۔”
10 شمعون پطرس کے پا س تلوار تھی اس نے نکا ل کر اعلیٰ کا ہن کے خادم پر وار کر کے اس کا داہنا کان اڑا دیا ( اس خا دم کا نام ملخس تھا )۔
11 یسوع نے پطرس سے کہا ، “تلوار کو نیام میں رکھ لے میں اس پیا لہ کو جو باپ نے دیا ہے کیوں نہ قبول کروں۔”
(متیّ ۲۶:۵۷۔۵۸؛ مرقس ۱۴:۵۳۔۵۴؛ لوقا ۲۲:۵۴)
12 تب سپا ہیوں اور ان کے افسروں اور یہودیوں نے یسوع کو پکڑا اور باندھ دیا۔
13 اور اسے حناّ کے پاس لا ئے۔ حناّ در اصل کائفا کا خسر تھا۔ کا ئفا ہی اس سال اعلیٰ کا ہن تھا۔
14 کا ئفا ہی وہ شخص تھا جس نے یہو دیوں سے کہا تھا سارے آدمیوں کے لئے ایک آدمی کا مر نا بہتر ہے۔
(متّی۲۶:۶۹۔۷۰؛مرقس۱۴:۶۶۔۶۸؛ لوقا ۲۲:۵۵۔۵۷)
15 شمعون پطرس اور یسوع کے شاگردوں میں سے ایک شاگرد یسوع کے ساتھ گئے۔یہ شاگرد اعلیٰ کا ہن سے واقف تھا اسلئے وہ یسوع کے ساتھ اعلیٰ کا ہن کے مکان کے آنگن میں گئے۔
16 لیکن پطرس دروازہ کے با ہر ہی رہا۔ وہ شاگرد جو اعلیٰ کا ہن کو جانتا تھا واپس آیا اور اس لڑ کی سے بات کی جو دربان تھی اور وہ پطرس کو اندر لائی۔
17 دروازہ پر کھڑی لڑکی نے پطرس سے کہا کیا تم بھی اسکے شاگردوں میں سے ایک ہو؟” پطرس نے کہا، “نہیں میں نہیں ہوں۔”
18 سردی کی وجہ سے خادم اور پیا دے آگ دہکا رہے تھے اور اسکے ارد گرد کھڑے لوگ آگ تاپ رہے تھے اور پطرس بھی انہی کے ساتھ کھڑا ہو کر آگ تاپ رہا تھا۔
(مّتی ۲۶:۵۹۔۶۶؛ مرقس ۱۴:۵۵۔۶۴؛ لوقا ۲۲:۶۶۔۷۱)
19 اعلیٰ کاہن نے یسوع سے اس کے شاگردوں کی اور تعلیم کی بابت پوچھا۔
20 یسوع نے جواب دیا ، “میں نے ہمیشہ علانیہ طور پر لوگوں سے کہا اور میں نے ہیکل میں اور یہودی عبادت گاہ کے اندر بھی کہا۔جہاں تمام یہودی جمع تھے۔ میں نے کبھی کوئی بات خفیہ نہیں کی۔
21 پھر تم مجھ سے کیوں پوچھتے ہو؟ “ان سے پو چھو جنہوں نے میری تعلیمات کو سنا جو کچھ میں نے کہا وہ جانتے ہیں؟”
22 جب یسوع نے ایسا کہا تو پیادوں میں ایک جو وہاں کھڑا تھا یسوع کے چہرے پر مارا اور کہا، “ تو اعلٰی کا ہن کو اسطرح جواب دیتا ہے ؟”
23 یسوع نے کہا ، “اگر میں نے غلط کہا تو جو کو ئی یہاں ہے وہ کہے کہ کیا غلط ہے اگر میں نے سچ کہا ہے تو پھر مجھے مارتے کیوں ہو۔”
24 پھر حنّا نے یسوع کو کائفا اعلیٰ کاہن کے پاس بھیج دیا یسوع اس وقت بندھے ہوئے تھے۔
(متّی۲۶:۷۱۔۷۵؛ مرقس ۱۴:۶۹۔۷۲؛ لوقا۲۲:۵۸۔۶۲)
25 شمعون پطرس آ گ کے قریب کھڑا آ گ تاپ رہا تھا دوسرے آدمی نے پطرس سے کہا ، “کیا تم اس آدمی کے شاگردوں میں سے ایک ہو؟” لیکن پطرس نے کہا ، “نہیں میں نہیں ہوں۔”
26 اعلیٰ کاہن کے خادموں میں سے ایک نے جو اسکا رشتہ دار تھا جس کا کا ن پطرس نے کا ٹا تھا کہا ، “کیا میں نے تجھے اس کے ساتھ باغ میں نہیں دیکھا تھا۔”
27 لیکن پطرس نے دوبارہ کہا ، “نہیں میں اسکے ساتھ نہیں تھا۔” اور اسی وقت مرغ نے بانگ دی۔
(متّی ۲۷:۱۔۲؛ مرقس ۱۵:۱۔۲۰؛ لوقا ۲۳:۱۔۲۵)
28 اس کے بعد یہودیوں یسوع کو کائفا کے مکان سے رومی گورنر کے محل کو لے گئے یہ صبح کا وقت تھا۔ یہودی گور نر کے محل کے اندر نہیں گئے وہ اپنے آپ کو نا پاک نہ کر نا چاہتے تھے۔ کیوں کہ وہ فسح کا کھا نا کھانا چاہتے تھے۔
29 تب پیلا طس نے باہر آکر ان سے کہا ، “تم لوگ اس آدمی کے بارے میں کیا کہتے ہو، اس نے کیا برائی کی ہے ؟”
30 یہودیوں نے جواب دیا ، “یہ بڑا خراب آدمی ہے اسلئے ہم اسے تمہارے پاس لا ئے ہیں۔”
31 پیلاطس نے یہودیوں سے کہا ، “تم اسے لے جاؤ اور اپنی شریعت کے مطا بق اسکا فیصلہ کرو ؟”یہودیوں نے جواب دیا ، “لیکن تمہارا قانون ہمیں کسی کو مارنے کی اجازت نہیں دیتا۔”
32 یہ اس لئے ہوا تا کہ یسوع کی بات پو ری ہو جو اس نے موت کے متعلق کہی تھی۔
33 پیلاطس واپس گور نر کے محل میں گیا اور یسوع کو بلا کر پو چھا ، “کیا تو یہودیوں کا بادشاہ ہے؟”
34 یسوع نے کہا، “کیا یہ سوال تمہارا ہے؟ یا پھر دوسروں نے میرے بارے میں تجھ سے کہا؟”
35 پیلاطس نے کہا ، “میں یہودی نہیں ہوں! یہ تو تمہارے لوگ اور ان کے سردار کا ہن تھے جنہوں نے تمہیں میرے پاس لے آیا۔ تم نے کیا برائی کی ہے ؟”
36 یسوع نے کہا ، “میری بادشاہت اس دنیا کی نہیں اگر میری بادشاہت اس دنیا کی ہو تی تب میر ے خادم یہودیوں کے خلاف لڑے ہو تے تا کہ مجھے یہودیوں کے حوالے نہیں کیا جاتا۔ لیکن میری بادشاہت کسی اور جگہ کی ہے۔”
37 پیلاطس نے کہا، “تو پھر تم بادشاہ ہو!” یسوع نے کہا، “تمہارا خود کا کہنا ہے کہ میں بادشاہ ہوں -” یہ سچ ہے میں اسی لئے پیدا ہوا تھا اور اسی لئے دنیا میں آیا تاکہ سچائی کی گواہی دوں اور ہر وہ شخص جو سچ سے تعلق رکھتا ہے وہ میری آواز سنے۔”
38 پیلاطس نے کہا، “سچائی کیا ہے؟”اور اتنا کہہ کر وہ باہر یہودیوں کے پاس دوبارہ گیا اور ان سے کہا ، “میں اس کا کچھ جرم نہیں پا تا ہوں۔
39 مگر تمہارے رواج کے مطا بق فسح پر میں ایک قیدی کو رہا کرتا ہوں کیا تم چاہتے ہو کہ تمہارے لئے اس یہودیوں کے بادشاہ کو چھو ڑ دوں؟”
40 یہودی چّلا اٹھے اور کہا ، “نہیں! اس کو نہیں برّبا کو چھو ڑ دو” ( برّبا ایک ڈاکو تھا- )