5
1 اس کے بعد یہودیوں کی ایک تقریب پر یروشلم روانہ ہو ئے۔
2 یروشلم میں بھیڑ دروازہ کے پاس ایک حوض ہے جو پانچ برآمدوں پر مشتمل ہے اور عبرانی زبان میں بیت حسدا کہلا تا ہے۔
3 کئی بیمار اندھے لنگڑے اور فالج زدہ لوگ اس حوض کے پاس رہتے ہیں اور پا نی کے ہلنے کے منتظر رہتے ہیں
4 + 5:4 آیت ۳اور ۴ آیت۳ کے آخر میں کچھ یونانی صحیفوں میں یہ حصّہ جوڑا گیا ہے “وہ پانی کے بہنے کا انتظار کئے” اور کچھ حالیہ صحیفوں میں آیت ۴جوڑی گئی ہے “کبھی خدا وند کا فرشتہ آکر حوض کے پانی کو ہلایا –فرشتہ کے ایسا کر نے کے بعد کوئی بھی بیمار شخص جو سب سے پہلے اس میں اترتا تو اسے شفاء مل جاتی چاہے اسے کیسی ہی بیماری کیوں نہ ہو-
5 اسی مقام پر ایک شخص تھا جو تقریباً اڑتیس سال سے بیمار تھا۔
6 جب یسو ع نے اسکو وہاں پڑے ہو ئے دیکھا اور یہ جان کر کہ وہ اڑتیس سال سے بیمار ہے اس سے پو چھا ، “کیا تو صحت پا نا چاہتا ہے۔”
7 اس آدمی نے جواب دیا ، “جناب میرے پاس کو ئی آدمی نہیں جو مجھے اس وقت مدد دے سکے جب فرشتہ پا نی کو ہلا تا ہے اور جب تک میں جاؤں کوئی دوسرا اس میں اتر جاتا ہے۔”
8 یسوع نے اس سے کہا، “اٹھ اپنا بستر اٹھا اور چل۔”
9 وہ شخص فوراً اچھا تندرست ہو گیا اور اپنا بستر اٹھا کر چلنے لگا۔ یہ واقعہ جس وقت ہوا وہ دن سبت دن کا تھا۔
10 اس لئے یہودیوں نے جو آدمی تندرست ہوا تھا اس سے کہا، “آج سبت کا دن ہے ہماری شریعت کے خلاف ہے کہ تم اپنا بستر سبت کے دن اٹھاؤ۔”
11 لیکن اس آدمی نے کہا ، “جس آدمی نے مجھے شفا دی اس نے کہا کہ اپنا بستر اٹھا ؤ اور چلو۔”
12 یہودیوں نے اس سے دریافت کیا ، “کون ہے وہ آدمی جس نے تمہیں بستر اٹھا کر چلنے کے لئے کہا۔”
13 لیکن وہ آدمی جس کو شفاء ملی تھی نہیں جانتا تھا کہ وہ کون تھا اس مقام پر کئی آدمی تھے اور یسوع وہاں سے جا چکے تھے۔
14 بعد میں یسوع اس آدمی سے ہیکل میں ملے یسوع نے اس سے کہا، “دیکھو تم اب تندرست ہو چکے ہو لیکن اب گناہوں سے اور بری باتوں سے بچنا ، ورنہ تمہارا بُراہوگا۔”
15 تب وہ آدمی وہاں سے نکل کر ان یہودیوں کے پاس پہو نچا اور کہا یسو ع ہی وہ آ دمی تھے جس نے مجھے تندرست کیا۔
16 یسوع نے اس طرح کی شفاء سبت کے دن کی تھی۔اس وجہ سے اور یہودیوں نے یسوع کے ساتھ برا کرنا شروع کیا۔
17 لیکن یسوع نے یہودیوں سے کہا ، “میرا باپ کبھی کام سے نہیں رُکتا اسلئے میں بھی کام کرتا رہونگا۔”
18 ان باتوں نے یہودیوں کو مجبور کردیا کہ وہ اسے قتل کرنے کی کوشش کریں۔ پہلے تو یسوع نے شریعت کی خلاف ورزی کی پھر خدا کو اپنا باپ کہ کر اپنے آپ کو خدا کے برابر بنایا۔
19 یسوع نے کہا، “میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ بیٹا اپنے آپ سے کچھ نہیں کرسکتا بیٹا وہی کرتا ہے جو وہ اپنے باپ کو کرتے دیکھے۔
20 باپ بیٹے سے محبت کر تا ہے اسلئے وہ سب کچھ اپنے بیٹے کو بتا تا ہے جو وہ کرتا ہے۔ اسکے علاوہ وہ اس سے بھی بڑے کام دکھلا تا ہے جس سے تم حیران ہو جاؤ گے۔
21 جیسے باپ مردوں کو زندہ اٹھا تا ہے۔اس طرح بیٹا جسے چاہے وہ بھی مردوں کو زندہ اٹھا تا ہے۔
22 کیوں کہ باپ کسی کی عدالتی کار روائی نہیں کر تا اسلئے سب کچھ بیٹے کے سپرد کر تا ہے۔
23 اس لئے لوگ جس طرح باپ کی عزت کر تے ہیں اسی طرح بیٹے کی بھی عزت کریں گے اور جو بیٹے کی عزت نہیں کرتا گو یا وہ باپ کی عزت نہیں کر تا۔ وہ باپ ہی ہے جس نے بیٹے کو بھیجا ہے۔
24 میں تم سے سچ کہتا ہوں اگر کو ئی میرا کلام سن کر جو بھی میں نے کہا ہے، اس پر ایمان لا تاہے جس نے مجھے بھیجا ہے تو اسکو ہمیشہ کی زندگی نصیب ہو تی ہے۔ اس پر کسی بھی قسم کی سزا کا حکم نہیں ہوتا۔ کیوں کہ وہ موت سے نکل کرزندگی میں داخل ہو چکا ہوتا ہے۔
25 میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ایک اہم وقت آ نے والا ہے بلکہ ابھی بھی ہے جو لوگ گناہ میں مرے ہیں وہ خدا کے بیٹے کی آواز سنیں گے اور جو سن رہے ہیں وہ رہیں گے۔
26 زندگی کی دین باپ کے طرف سے ہے اس لئے باپ نے بیٹے کو اجازت دی ہے کہ زندگی دے۔
27 باپ نے بیٹے کو عدالت کا بھی اختیار دیا ہے کیوں کہ وہی ابن آدم ہے۔
28 اس پر تعجب کر نے کی ضرورت نہیں کیوں کہ وہ وقت آرہا ہے جب کہ مرے ہو ئے لوگ جو قبروں میں ہیں اس کی آواز سن سکیں گے۔
29 تب وہ لوگ اپنی قبروں سے نکلیں گے اور جنہوں نے اچھے اعمال کئے ہیں انہیں ہمیشہ کی زندگی ملیگی اور جن لوگوں نے برائیاں کیں ہیں انہیں مجرم قرار دیا جائیگا۔
30 “میں اپنے آپ سے کچھ نہیں کر سکتا جس طرح مجھے حکم ملتا ہے اسی طرح فیصلہ کرتا ہوں اسی لئے میرا فیصلہ صحیح ہے کیوں کہ میں اپنی خوشی یا مرضی سے نہیں کر تا۔ لیکن میں وہی کر تا ہوں جس نے مجھے اپنی خوشی سے بھیجا ہے۔
31 “اگر میں لوگوں سے اپنے متعلق کچھ کہوں تو وہ میری گواہی پر کبھی یقین نہیں کریں گے اور جو میں کہتا ہوں وہ نہیں مانیں گے۔
32 لیکن ایک دوسرا آدمی ہے جو لوگوں سے میرے بارے میں کہتا ہے اور میں جانتا ہوں وہ جو میرے بارے میں کہتا ہے وہ سچ ہے۔
33 “تم نے لوگوں کو یوحناّ کے پاس بھیجا اور اس نے تم کو سچاّئی بتائی۔
34 میں ضروری نہیں سمجھتا کہ کوئی میری نسبت لوگوں سے کہے مگر میں یہ سب کچھ تم کو بتاتا ہوں تاکہ تم بچے رہو۔
35 یوحناّ ایک چراغ کی مانند تھا جو خود جل کر دوسروں کو روشنی پہنچا تا رہا اور تم نے چند دن کے لئے اس روشنی سے استفادہ حاصل کیا۔
36 “لیکن میں اپنے بارے میں ثبوت رکھتا ہو ں جو یوحناّ سے بڑھ کر ہے جو کام میں کرتا ہوں وہی میرا ثبوت ہے اور یہی چیزیں میرے باپ نے مجھے عطا کی ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ میرے باپ نے مجھے بھیجا ہے۔
37 جس باپ نے مجھے بھیجا ہے میرے لئے ثبوت بھی دیئے ہیں لیکن تم لوگوں نے اسکی آواز نہیں سنی اور تم نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ وہ کیسا ہے۔
38 میرے باپ کی تعلیمات کا کو ئی اثر تم میں نہیں کیوں کہ تم اس میں یقین نہیں رکھتے جس کو باپ نے بھیجا ہے۔
39 تم صحیفوں میں بغور ڈھونڈتے ہو یہ سمجھتے ہو کہ اس میں تمہیں ابدی زندگی ملے گی۔ لیکن ان صحیفوں میں تمہیں میرا ہی ثبوت ملے گا۔ جو میری طرف اشارہ ہے۔
40 لیکن تم لوگ جس طرح کی زندگی چاہتے ہو اس کو پا نے کے لئے میرے پاس نہیں آتے۔
41 میں نہیں چاہتا کہ لوگ میری تعریف کریں۔
42 لیکن میں تمہیں جانتا ہوں کہ تمہیں خدا سے محبت نہیں۔
43 میں اپنے باپ کی طرف سے آیا ہوں میں اسی کی طرف سے کہتا ہوں پھر بھی مجھے قبول نہیں کر تے لیکن جب دوسرا آدمی خود اپنے بارے میں کہتا ہے تو تم اسے قبول کر تے ہو۔
44 تم چاہتے ہو ہر ایک تمہاری تعریف کرے لیکن اسکی کوشش نہیں کرتے جو تعریف خدا کی طرف سے ہو تی ہو۔ پھر تم کس طرح یقین کروگے۔
45 یہ نہ سمجھنا کہ میں باپ کے سامنے کھڑا ہو کر تمہیں ملزم ٹھہراؤنگا موسٰی ہی وہ شخص ہے جو تمہیں ملزم ٹھہرا ئے گا۔ اور تم غلط فہمی میں ان سے امید لگا ئے بیٹھے ہو۔
46 اگر تم حقیقت میں موسٰی پر یقین رکھتے ہو تو تمہیں مجھ پر بھی ایمان لا نا چاہئے اسلئے کہ موسٰی نے میرے بارے میں لکھا ہے۔
47 تمہیں اسکا یقین نہیں کہ موسٰی نے کیا لکھا ہے اسلئے جو میں کہتا ہوں ان چیزوں کے متعلق تم کیسے یقین کروگے ؟”