6
(متیّ۱۲:۱۔۸؛ مرقس ۲: ۲۳۔۲۸ )
1 ایک مرتبہ سبت کے دن یسوع اناج کے کھیتوں سے ہو کر گذر رہے تھے ان کے شا گرِد با لیں توڑ کر اور اپنے ہاتھوں سے مل مل کر کھا تے جاتے تھے۔
2 چند فریسیوں نے کہا ، “تمہا را سبت کے دن ایسا کرنا گو یا موسیٰ کی شریعت کی خلا ف ورزی ہے تم ایسا کیوں کر رہے ہو؟”
3 اس بات پر یسوع نے جواب دیا ،“تم نے پڑھا ہے کہ داؤد اور اس کے ساتھی جب بھو کے تھے۔
4 تو داؤد ہیکل میں گئے اور خدا کو پیش کی ہو ئی روٹیاں اٹھا کر کھا لی اور اپنے ساتھ جو لوگ تھے ان کو بھی تھو ڑی تھوڑی دی یہ بات موسیٰ کی شریعت کے خلاف ہے۔ صرف کا ہن ہی وہ روٹی کھا سکتے ہیں یہ بات شریعت کہتی ہے۔”
5 تب یسوع نے فریسی سے کہا، “ابن آدم ہی سبت کے دن کا مالک۔”
(متیّ۱۲:۹۔ ۱۴؛ مرقس۳:۱۔۶)
6 کسی اور سبت کے دن یسوع یہودی عبادت گاہ میں گئے اور لوگوں کوتعلیم دینے لگے وہاں پر ایک ایسا آدمی بھی تھا جس کا داہنا ہاتھ مفلوج تھا۔
7 معلمین شریعت اور فریسی اس بات کے منتظر تھے کہ اگر یسوع اس آدمی کو سبت کے دن شفا ء دے تو وہ ان پر الزام لگا ئیں گے۔
8 یسوع ان کے خیالات کو سمجھ گئے یسوع نے ہاتھ کے سوکھے ہوئے آدمی سے کہا ، “ آؤ اور درمیان میں کھڑا ہو جا۔”وہ اٹھکر یسوع کے سا منے کھڑا ہو گیا۔
9 تب یسوع نے اس سے پوچھا ، “سبت کے دن کو نسا کام کر نا اچھا ہو تا ہے ؟ اچھا کا م یا کو ئی برا کام کسی کی زند گی کو بچانا یا کسی کو بر باد کر نا ؟۔”
10 یسوع نے اپنے اطراف کھڑے ہو ئے تمام لوگوں کو دیکھے اور اس آدمی سے کہا ، “تو اپنا ہاتھ مجھے دکھا اس نے اپنے ہاتھ کو بڑھایا اس کے فوراً بعد ہاتھ شفاء ہو گیا۔
11 فریسی اور معلمین شریعت بہت غصہ ہوئے اور انہوں نے کہا ہم یسوع کے ساتھ کیا کریں؟ “اس طرح وہ آپس میں تد بیر کر نے لگے۔
(متیّ۱۰:۱۔۴ ؛مرقس۳:۱۳۔۱۹)
12 اس وقت یسوع دعا کر نے کے لئے ایک پہاڑ پر گئے خدا سے دعا ئیں کرتے ہوئے وہ رات بھر وہیں رہے۔
13 دوسرے دن صبح یسوع اپنے شاگردوں کو بلا ئے اور ان میں سے اس نے بارہ کو چن لئے یسوع ان بارہ آدمیوں کو “رسولوں” کا نام دیئے۔
14 شمعون ( یسوع نے اس کا نام پطرس رکھا تھا)
اور پطرس کا بھا ئی اندر یاس،
یعقوب
اور یوحناّ
اور فلپس
اور بر تلمائی۔
15 متیّ
تو ما،
یعقوب،(حلفی کا بیٹا )
اور قوم پرست کہلا نے والا شمعون۔
16 یہوداہ (یعقوب کا بیٹا)
اور اسکر یوتی یہوداہ یہ وہ شخص ہے جس نے یسوع سے دشمنی کی۔
(متیّ۴:۲۳۔۲۵؛۵:۱۔۱۲)
17 یسوع اور رسول پہا ڑ سے اتر کر نیچے صاف جگہ آئے انکے شاگردوں کی ایک بڑی جماعت وہا ں حاضر تھی لوگوں کا ایک بڑا گروہ یہوداہ کے علا قے سے یروشلم سے اور سا حل سمندر کے صور اور میدان کے علاقوں سے بھی وہا ں آئے۔
18 وہ سب کے سب یسوع کی تعلیمات کو سننے کیلئے اور بیماریوں سے شفاء پا نے کے لئے آئے تھے۔بدروحوں کے اثرات سے جو لوگ متاثر تھے یسوع نے ان کو شفا ء بخشی۔
19 سب کے سب لوگ یسوع کو چھو نے کی کو شش کر نے لگے کیوں کہ اس سے ایک طاقت کا اظہار ہو تا تھا اور وہ طاقت تمام بیماروں کو شفا ء بخشتی تھی۔
20 یسوع نے اپنے شاگردوں کو دیکھ کر کہا،
تم غریبوں کو مبارک ہو،
خدا کی بادشا ہی تمہا ری ہے۔
21 مبارک ہو تم جو ابھی بھو کے ہو،
کیونکہ تم آسودہ ہو گے
مبارک ہو تم جو ابھی روتے ہو،
22 “تمہارے ابن آدم کے زمرے میں شامل ہو نے کی وجہ سے لوگ تم سے دشمنی کریں گے اور تمہیں دھتکا ریں گے اور تمہیں ذلیل و رسوا کرینگے اور تمہیں برے لوگ بتائیں گے تب تو تم سب مبارک ہو۔
23 اس وقت تم خوش ہو جاؤ اور خوشی سے کو دو اچھلو کیوں کہ آسمان میں تم کو اسکا بہت بڑا پھل ملیگا۔ ان لوگوں نے تمہارے ساتھ جیسا سلوک کیا ویسا ہی انکے آباؤ اجداد نے نبیوں کے ساتھ کیا تھا۔
24 “افسوس اے دولت مندو! افسوس!
تم تو آسودگی و خوشحالی کی زندگی کا مزا چکھے ہو۔
25 افسوس اب اے پیٹ بھرے لوگو!
کیوں کہ تم بھو کے رہوگے۔
افسوس اے لوگو! جو اب ہنس رہے ہو
کیونکہ تم رنجیدہ ہو گے اور خوب روؤگے۔
26 “افسوس تم پر جب سب لوگ تمہیں بھلا کہیں کیوں کہ انکے آباؤ اجداد جھوٹے نبیوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔
( متّی۵:۳۸۔۴۸؛۷: ۱۲)
27 “میری باتوں کو سننے والو میں تم سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تم اپنے دشمنوں سے پیار کرو جو تم سے نفرت کریں ان سے بھلائی کرو۔
28 تمہارا برا چاہنے والے کے حق میں تم دعائیں دو اور تم سے نفرت کر نے والے لوگوں کے حق میں بھلائی چاہو۔
29 اگر کوئی تمہارے ایک گال پر طمانچہ مارے تو تم انکے لئے دوسرا گال بھی پیش کرو اگر کوئی تیرا چوغہ طلب کرے تو تو اسکو اندر کا پیرہن بھی دیدینا۔
30 جو کوئی تم سے مانگے اسے دو۔اگر کوئی تمہارا کچھ رکھ لے تو اسے طلب نہ کرو۔
31 اگر تم دوسرے لوگوں سے خوشگوارسلوک کے خواہش مند ہو تو تم بھی انکے ساتھ ویسا ہی کرو۔
32 وہ لوگ جو تمہیں چاہتے ہیں اگر تم نے بھی انہیں چاہا تو تمہیں اس کی تعریف کیوں چاہئے ؟ نہیں! تم جن سے محبت رکھتے ہو ان سے تو وہ گنہگار بھی محبت رکھتے ہیں
33 اگر کوئی تم انکا بھلائی کرتے ہو جو تمہارا بھلائی کرتا ہے ، تو تمہارا کیا احسان ہے اور اسکے لئے تم کیا تعریف چاہتے ہو۔
34 اگر تم نے کسی کو قرض دیا اور تم ان سے واپسی کی امید رکھتے ہو اس سے تم کو کیا نیکی ملیگی ؟ جب کہ گنہگار بھی کسی کو قرض دیکر اس سے پو را واپس لیتے ہیں!
35 اسی وجہ سے تم اپنے دشمنوں سے محبت کرو اور انکے حق میں بھلا کرو تم جب انہیں قرض دو تو اس امید سے نہ دو کہ وہ تم کو لوٹائیں گے تب تمہیں اسکا بہت بڑا اجر و ثواب ملیگا تب تم خدائے تعالیٰ کا بیٹا کہلاؤ گے ہاں! کیوں کہ خدا گنہگاروں اور ناشکر گزاروں کے حق میں بھی بہت اچھا ہے۔
36 تمہارا آسمانی باپ جس طرح رحم اور محبت کرنے والا ہے اسی طرح تم بھی رحم اور محبت کرنے والے بنو۔
(متّی۷:۱۔۵ )
37 “کسی کو قصور وار مت کہو تو تمہیں بھی قصور وار نہیں کہا جائیگا۔ دوسرے کو مجرم ہو نے کی عیب جوئی نہ کرو۔ تمہاری بھی عیب جوئی نہ کی جائیگی۔ دوسروں کو معاف کرو تب تم کو بھی معاف کیا جا ئے گا۔
38 دوسروں کو عطا کرو تب تم کو بھی دستیاب ہوگا وہ تمہیں کھلے دل سے دینگے اچھا پیمانہ داب داب کر اور ہلا ہلا کر اور لبریز کرکے ڈالو۔ اتنا ہی تمہارے دامن میں ڈال دیا جائیگا۔تم جس پیمانہ سے ناپتے ہو اسی سے تم کو بھرا جائیگا”۔
39 یسوع نے ان لوگوں سے یہ تمثیل بیان کی” کیا ایک اندھا دوسرے اندھے کی رہنمائی کر سکے گا؟ نہیں! بلکہ وہ دونوں ہی ایک گڑھے میں گر جائیں گے۔
40 شاگرد استاد پر فضیلت پا نہیں سکتا لیکن جب شاگرد پوری طرح علم حاصل کر لیتا ہے تو تب وہ استاد کی مانند بنتا ہے۔
41 “جب تو اپنی آنکھ کے شہتیر کو نہیں دیکھتا تو ایسے میں تو کیوں اپنے بھائی کی آنکھ کے تنکے کو دیکھتا ہے ؟
42 تو اپنے بھا ئی سے ایسا کیسے کہہ سکتا ہے کہ مجھے تیری آنکھ کے تنکوں کو نکالنا ہے ؟ جب کہ تجھے اپنی ہی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا تو ریا کار ہے۔ پہلے تو اپنی آنکھ میں سے شہتیر کو نکال تب تجھے اپنے بھا ئی کی آنکھ کا تنکا صاف نظر آئیگا اور تو اسے نکال سکے گا ۔”
(متّی۷:۱۷۔۲۰؛۱۲:۳۴۔۳۵)
43 اچھا درخت خراب پھل نہیں د ے سکتا اسی طرح خراب درخت اچھا پھل نہیں دیتا۔
44 ہر درخت اپنے پھل ہی سے پہچانا جاتا ہے۔ لوگ خار دار درختوں میں انجیر یا خار دار جھاڑیوں میں انگور نہیں پا سکتے!
45 اچھے آدمی کے دل میں اچھی بات ہی جمی رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ اچھے آدمی کے دل سے اچھی باتیں ہی نکلتی ہیں اور برے آدمی کے دل میں بری باتیں ہی ہوتی ہیں اس لئے اس کے دل سے بری باتیں ہی نکلتی ہیں جو بات دل میں رہتی ہے وہی بات زبان پر آجاتی ہے۔
(متّی۷:۲۴۔۲۷)
46 “مجھے خداوند ، خداوند تو پکارتے ہو لیکن میں جو کہتا ہوں اس پر عمل نہیں کرتے ؟۔
47 جو کوئی میرے قریب آتا ہے اور میری باتوں کو بھی سنتا ہے اور ا ن با توں کا فرماں بردار ہوتا ہے میں بتاؤں کہ وہ کیا پسند کرتا ہے!
48 وہ اس آدمی کی طرح ہے جس نے گہری بنیاد کھودی اور چٹان کے اوپر اپنے گھر کی تعمیر کرتا ہے کہیں سے پانی کا بہاؤ چڑھکر اس کے گھر سے ٹکرا کر بھی جائے تو وہ اس گھر کو ہلا بھی نہیں سکتا کیوں کہ وہ گھر مضبوط طریقہ سے تعمیر کیا گیا ہے۔
49 ٹھیک اسی طرح جو میری باتوں کو سنتا ہے مگر اس پر عمل نہیں کرتا تو وہ آ دمی ایسا ہے جیسا کہ کسی نے بغیر بنیاد کے ریت پر اپنا گھر بنایا۔ اگر پانی کا سیلاب آجائے تو وہ آسانی سے گھر منہدم ہوکر مکمل طور پر تباہ و برباد ہو جا تا ہے ۔”