14
(متّی۲۶:۱۔۵ ؛لوقا۲۲:۱۔۲؛یوحنا۱۱:۴۵۔۵۳)
1 فسح 14:1 فسح یہ اور بغیر خمیر کی روٹی کی تقریب 14:1 بغیر خمیر کے روٹی کی تقریب یہ کے لئے صرف دو دن باقی رہ گئے تھے۔ سبھی سردار کا ہن اور معلمین شریعت یہ چاہئے تھے کہ فریب کے کسی بھی طریقے کو اپنا کر یسوع کوگرفتار کریں اور قتل کر دیں۔
2 “لیکن انھیں تقریب کے موقع پر یسوع کو گرفتار نہیں کر نا چاہئے یہ بات ممکن نہیں ہے کہ ہم یسوع کو گرفتار کریں ورنہ لوگ غیض وغضب میں آ سکتے ہیں اور فساد بر پا ہو سکتا ہے۔”
(متیّ ۲۶ :۶۔۱۳ ؛ یوحناّ ۱۲ :۱۔ ۸)
3 بیت عنیاہ میں یسوع جب کوڑھی شمعون کے گھر میں کھا نا کھا رہے تھے تو ایک عورت اس کے پاس آئی اس کے پاس ایک بہت قیمتی خوشبو دار عطر کی شیشی تھی۔ یہ عطر خا لص جٹا ما سی سے بنا یا گیا تھا۔ اس نے شیشی توڑی اور تیل کو یسوع کے سر پر ڈالدی۔
4 وہاں موجودچند شاگردوں نے اس واقعہ کو دیکھا اور بہت غصّہ ہوئے اور اس عورت پر بہت تنقید کی
اور کہا، “اس عطر کو ضائع کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
5 وہ ایک سال بھر کی کمائی سے بڑھکر قیمتی چیز تھی اسکو فروخت کرکے اسی سے ملنے والی رقم کو غریب اور ضرورت مندوں میں بانٹ دینا چاہئے تھا۔”
6 یسوع نے کہا، “اس عورت کو تکلیف نہ دو۔ تم اسکو کیوں مشتعل کرتے ہو؟ اس عورت نے تو میرے ساتھ بہت بھلائی کا کام کیا ہے۔
7 تمہارے ساتھ تو غریب لوگ ہمیشہ ہی رہتے ہیں تمہارا جی جب چاہے تم انکی مدد کرسکتے ہو میں ہمیشہ تمہارے ساتھ نہیں رہونگا۔
8 یہ عورت جو کچھ میرے لئے کرسکتی تھی کیا۔ مرنے سے پہلے ہی تدفین کیلئے اس نے میرے بدن پر خوُشبودار تیل کوچھڑکا ہے۔
9 میں بالکل سچ کہتا ہوں کہ دنیا میں جہاں بھی خوشخبری کی تعلیم دی جاتی ہے وہاں اس عورت کے کئے ہوئے کام کے متعلق کہا جائے تو لوگ ا س کو یاد ر کھیں گے۔”
(متّی۲۶:۱۴۔۱۶؛لوقا۲۲:۳۔۶)
10 تب ان بارہ رسولوں میں سے ایک یہوداہ اسکریوتی جو سردار کاہن کے پاس یسوع کو حوالہ کر نے کی بات کرنے کیلئے گیا۔
11 سردار کاہن اس بارے میں بہت خوش ہوئے اور اس بنا ء پر اسے رقم دینے کا وعدہ کیا۔ جس کی وجہ سے یہوداہ یسوع کو پکڑکر انکے حوالے کرنے کے لئے مناسب موقع کی تاک میں تھا۔
(متّی۲۶:۱۷۔۲۵ ؛لوقا۲۲:۷۔۱۴،۲۱۔۲۳؛یوحنا ۱۳:۲۱۔۳۰)
12 وہ دن بغیر خمیر کی روٹی کی تقریب کا پہلا دن تھا اور یہودیوں کے پاس فسح کی تقریب میں بھیڑوں کی قربانی کا یہی وقت تھا یسوع کے شاگرد اس کے قریب آئے اور ان سے پوچھا، “ہم آپ کے لئے فسح کی تقریب کا کھانا کہاں تیا رکریں؟”
13 یسوع نے اپنے دو شاگردوں کو بھیجا اور انہیں ہدایت دی “اور کہا کہ جب تم شہر میں داخل ہو گے تو ایک آدمی پانی کا مٹکا اٹھاتے ہوئے نظر آئیگا تم اسکے پیچھے ہولینا۔
14 وہ ایک گھر میں چلا جائیگا تم اس گھر کے مالک سے کہو کہ اُستاد نے کہا ہے کہ وہ کمرہ کہاں ہے جہاں میں اپنے شاگردوں کے ساتھ فسح کا کھانا کھا سکوں۔
15 مکان کا مالک بالا خانہ کا کمرہ دکھا ئیگا۔ یہ کمرہ تمہارے لئے تیار ہے۔ ہمارے لئے وہاں کھانا تیار کرو۔”
16 تب شاگرد وہاں سے نکل کر شہر میں گئے یسوع کے کہنے کے مطابق ہی سب کچھ ہوا۔ شاگردوں نے فسح کی تقریب کا کھانا تیار کیا۔
17 شام میں یسوع اپنے بارہ رسولوں کے ساتھ اس گھر میں گئے۔
18 جب وہ سب میز پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے تو یسوع نے کہا، “میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم میں سے ایک میرے ساتھ فریب کریگا اور وہ اب میرے ساتھ کھانا کھا رہا ہے۔”
19 جب یہ بات سنی تو شاگر دوں کو بہت دکھ ہوا تب ہر ایک شاگرد یسوع سے یکے بعد دیگر کہنے لگے، “میں وہ نہیں ہوں یقین دلاتا ہوں کہ میں تیرے ساتھ کوئی دھوکہ نہ کرونگا۔”
20 یسوع نے کہا، “ان بارہ لوگوں میں ایک میرے خلاف دشمنی کر رہا ہے۔ وہی میرے ساتھ ایک ہی کٹورہ میں اپنی روٹی ڈبوکر بھگورہا ہے۔
21 ابن آدم مر ے گا جیسا کہ صحیفوں میں اس کے متعلق لکھا گیا ہے۔ لیکن ابن آدم کو قتل کرنے کے لئے پکڑوانے والے کیلئے نہایت درد ناک ہوگا۔ اور کہا، “اگر وہ پیدا ہی نہ ہوا ہوتا تو شاید اس کے حق میں بھلا ہوتا۔”
(متّی ۲۶:۲۶۔۳۰ ؛لوقا۲۲:۱۵۔۲۰ ؛ ۱ کرنتھیوں۱۱:۲۳۔۲۵)
22 جب وہ کھا نا کھا رہے تھے تو یسوع نے روٹی لی اور خدا کا شکر اداکیا اُس نے روٹی توڑ کر اپنے شاگر دوں میں تقسیم کی۔ اور یسوع نے ان سے کہا ، “اس روٹی کو اٹھا لو اور کھاؤ اور کہا کہ یہ روٹی میرا بدن ہے۔”
23 تب یسوع نے شراب کا پیالہ لیا اور اس پر خدا کا شکر ادا کیا اور اسے اپنے شاگردوں کو دیا۔اور تمام شاگردوں نے اسے پیا۔
24 یسوع نے کہا ، “یہ میرا خون ہے او ر یہ معا ہدہ کا خون ہے یہ بہت سے لو گوں کے لئے بہائے جا نے والا خون ہے۔
25 “میں تم سے سچ کہتا ہوں۔ میں اب اس وقت تک مئے پیوں گا جب تک خدا کی بادشاہت میں نئی مئے نہ پیوں۔”
26 تب تمام شاگردوں نے ایک گیت گایا۔اس کے بعد وہ زیتون کی پہاڑی کی طرف روانہ ہوئے۔
(متیّ ۲۶: ۳۱۔۳۵ ؛ لوقا ۲۲: ۳۱۔۳۴ ؛ یوحنا ۱۳ :۳۶۔۳۸ )
27 تب یسوع نے شاگردوں سے کہا تم سب ایمان کو کھو دوگے یہ صحیفوں میں لکھا ہے:
میں چرواہے کو مارونگا
تب تمہا ری بکریاں منتشر ہو جائیں گی۔ زکریا۱۳:۷
28 لیکن مر کر دوبارہ جی اٹھنے کے بعد تم سے پہلے ہی میں گلیل کو جا ؤں گا۔
29 پطرس نے جواب دیا ، “دیگر تمام شاگرداپنا ایمان کھو دیں گے لیکن میں اپنا ایمان نہیں کھوؤں گا۔
30 یسوع نے کہا،“میں سچ کہتا ہوں۔ آج کی رات مرغ کے دو مرتبہ بانگ دینے سے قبل ہی تو تین مرتبہ یہ کہے گا کہ تو مجھے نہیں جانتا۔”
31 لیکن پطرس نے یقین کے ساتھ جواب دیا، “اگر مجھے تیرے ساتھ مر نا بھی پڑے تو ٹھیک ہے تب بھی میں ہر گز یہ بات نہ کہوں گا کہ میں تجھے نہیں جانتا ۔” دوسرے شاگردوں نے بھی ایسا ہی کہا۔
(متّی ۲۶: ۳۶۔ ۴۶ ؛ لوقا ۲۲ :۳۹۔۴۶)
32 یسوع اور ان کے شاگرد ایک مقام جس کا نام گتسینی تھا اس جگہ آئے یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا ، “جب تک کہ میں عبادت نہ کر لوں تم یہیں بیٹھے رہو۔”
33 وہ پطرس یعقوب ، اور یوحنا ّ کو اپنے ساتھ لے گئے۔ پھر یسوع بہت حیران اور بہت دکھی بھی ہوئے۔
34 یسوع نے ان سے کہا، “میری جان غموں سے اتنی بھر گئی ہے کہ جو موت کے برابر ہے اور کہا کہ جاگتے ہوئے یہیں پر میرا انتظار کرو۔”
35 یسوع ان کے ساتھ تھو ڑی دور جانے کے بعد زمین پر گرے اور دُعا کی اگر ممکن ہو سکے تو یہ مصیبت کا وقت مجھ تک نہ آنے دو۔”
36 تب یسوع نے دُعا کی اے باپ! تیرے لئے تو ہر بات ممکن ہے اور دعا کی کہ اس مصیبت کے پیا لے کو مجھ سے ہٹا دے لیکن تو جو چاہے سو کر اور میری مرضی کے مطا بق نہیں۔”
37 جب یسوع اپنے شاگردوں کے پاس لوٹے تو انکو سوتے ہو ئے پایا۔ اس نے پطرس سے کہا ، “اے شمعون کیا تو سو رہا ہے؟ کیا تیرے لئے یہ بات ممکن نہیں کہ تو میرے ساتھ ایک گھنٹے بیدار رہ سکے؟
38 جاگتا رہ اور دعا کر تا کہ تو مشتعل نہ ہو۔ روح تو خو ا ہش مند ہے لیکن بدن میں کافی طاقت نہیں ہے۔”
39 دوسری مرتبہ یسوع دور جاکر پہلے ہی کی طرح دعائیں کرنے لگے۔
40 یسو ع جب اپنے شاگر دوں کے پاس دوبارہ گئے تو ان کو سوتے پایا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انکی آنکھیں بہت تھک گئیں ہیں یسوع کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا کہ وہ شاگر دوں سے کیا کہے۔
41 تیسری مرتبہ دعا کرنے کے بعد یسوع اپنے شاگردوں کے پاس واپس آئے اور ان سے کہا ، “تم اب تک سو رہے ہو اور آرام کر رہے ہو۔ ابن آدم کو اب گنہگاروں کے حوالے کرنے کا وقت آگیا ہے۔
42 اٹھو! ہم کو جانا چاہئے وہ جو مجھے ان لوگوں کے حوالے کریگا اب یہاں آرہا ہے۔”
( متّی ۲۶ :۴۷۔۵۶؛لوقا۲۲:۴۷۔۵۳ ؛یوحنا۱۸:۳۔۱۲)
43 یسوع باتیں کر ہی رہے تھے کہ یہوداہ وہاں آیا یہوداہ ان بارہ رسولوں میں سے ایک تھا۔ یہوداہ کے ساتھ کئی لوگ تلواروں اور لاٹھیوں کو لئے ہوئے تھے۔ سردار کاہنوں، معلّمین شریعت اور بزرگ یہودی قائدین نے ان لوگوں کو بھیجا تھا۔
44 یسوع کون ہے لوگوں کو یہ معلوم کرانے کے لئے یہوداہ نے اشارہ کیا۔یہوداہ نے ان لوگوں سے کہا ، “میں جس کو بوسہ دوں وہی یسوع ہے۔ اسکو گرفتار کر کے بہت ہوشیاری اور نگرانی میں ساتھ لے جانا۔”
45 تب یہوداہ نے یسوع کے نزدیک جاکر“اے استاد” کہا اور بوسہ دیا۔
46 پھر ان لوگوں نے یسوع کو گرفتار کیا اور اس کو باندھ د یا۔
47 یسوع کے نزدیک کھڑے ہوئے شاگردوں میں سے ایک نے اپنی تلوار کھینچ لی اور اعلٰی کاہن کے خادم کا کان کاٹ د یا۔
48 تب یسوع نے ان سے کہا، “تم لوگ کیوں تلواروں اور لاٹھیوں کے ساتھ مجھے گرفتارکر کرنے آئے ہو؟ کیا میں مجرم ہو ں؟
49 اور کہا، کہ روزانہ ہیکل میں تعلیم دینے کے لئے میں تمہارے ساتھ تھا۔ تم نے مجھے وہاں گرفتار نہیں کیا لیکن یہ سارے واقعات جیسا صحیفوں میں لکھا ہوا ہے ایسا ہی ہوگا۔”
50 تب یسوع کے تمام شاگرد اسکو چھوڑ کر بھاگ گئے۔
51 یسوع کو ماننے والا ایک نوجوان آدمی وہاں موجود تھا۔ وہ سوتی کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ لوگوں نے اسکو بھی پکڑ لیا۔
52 مگر اسکے جسم سے کپڑا گر گیا اور وہ برہنہ ہی وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔
(متّی۲۶:۵۷۔۶۸؛لوقا۲۲:۵۴۔۵۵،۶۳۔۷۱؛یوحنا۱۸:۱۳۔۱۴،۱۹۔۲۴)
53 یسوع کو جن لوگوں نے گرفتار کیا انہوں نے ان کو اعلٰی کاہن کے گھر لے گئے۔ تمام سردار کاہنوں اور بزرگ یہودی قائدین کے علاوہ معلّمین شریعت وہاں پر جمع تھے۔
54 پطرس یسوع کے پیچھے کچھ فاصلے پر چلتے ہوئے اعٰلی کاہن کے گھر کے آنگن میں داخل ہوا اور محافظوں کے ساتھ بیٹھ گیا اور آگ تاپ نے لگا۔
55 سردار کا ہنوں اور صدرِ عدالت نے یسوع کے خلاف شہادت تلاش کرنی شروع کی تا کہ اس کو قتل کیا جائے۔ لیکن وہ ایسی کو ئی شہا دت پا نے سے قاصر رہے۔
56 کئی لوگ آئے اور یسوع کے خلاف جھوٹے ثبوت دیئے۔لیکن ان لوگوں نے مختلف باتیں کہیں جو ایک دوسرے سے میل نہیں کھا رہی تھیں۔
57 تب چند لوگوں نے جو وہاں کھڑے تھے یسوع کے خلاف جھوٹے ثبوت پیش کئے۔
58 ان لوگوں نے کہا ، “ہم نے سنا ہے کہ یہ آدمی کہہ رہا تھا کہ میں اس ہیکل کو تباہ کر دوں گاجسے انسانی ہاتھوں نے بنایا ہے اور تین دن میں دوسری ہیکل تعمیر کروں گا جسے انسانی ہاتھ نہیں بنائیگا۔”
59 اس کے باو جود بھی ان لو گوں کی کہی ہوئی باتوں میں کوئی موافقت نہیں پائی گئی۔
60 پھر اعلیٰ کاہن نے تمام لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر یسوع سے پوچھایہ حاضرین جو تیرے خلاف الزا مات لگا رہے ہیں کیا تو ان کے خلاف اپنی صفا ئی میں کوئی بات نہیں کہے گا؟ اور پوچھا کہ لوگ جو تیرے خلاف کہہ رہے ہیں کیا وہ سچ ہے؟
61 لیکن یسوع با لکل خا موش رہے اس کا کوئی جواب نہ دیئے۔ اعلیٰ کا ہن نے یسوع سے دوسرا سوال کیا،“کیا تو مسیح ہے؟ خدائے رحیم کا بیٹا ؟”
62 یسوع نے جواب دیا، “ہاں میں خدا کا بیٹا ہوں۔ اور ابنِ آدم کو قادرِ مطلق کی داہنی جانب بیٹھے اور آسمان کے بادلوں پر سوار آتے ہوئے دیکھو گے۔”
63 اعلیٰ کاہن نے اپنے کپڑے پھاڑتے ہوئے کہا، “ہمیں مزید گواہی کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی!
64 تم سب نے اسے خدا کے خلاف کہتے ہوئے سنا اور پوُچھا کہ اس پر تم سب کا کیا فیصلہ ہے؟” سب لوگوں نے کہا، “وہ قصور وار ہے اور اسکو ضرور موت کی سزا ہونی چاہئے۔
65 وہاں پر موجود چند لوگوں نے یسوع پر تھوکا اور انکا چہرا ڈھانک دیا اور مکّے مارے اور کہنے لگے، “ہمیں نبوت کی باتیں سنا” اور محافظوں نے طمانچے مار مار کر اُسے اپنے قبضہ میں لیا۔
(متّی۲۶:۶۹۔۷۵؛لوقا۲۲:۵۶۔۶۲؛یوحنا۱۸:۱۵۔۱۸،۲۵۔۲۷)
66 ا ُ س وقت پطرس ابھی آنگن ہی میں تھا کہ اعلیٰ کاہن کی ایک لونڈی پطرس کے پاس آئی۔
67 پطرس کو جاڑوں میں آگ تاپتے ہوئے دیکھ کر اس لونڈی نے پطرس کو قریب سے دیکھا اور کہا، “تو وہی ہے جو اس ناصری یسوع کے ساتھ تھا۔”
68 لیکن پطرس نے انکار کیا اور کہا میں نہیں جانتا اور میں نہیں سمجھتا کہ تو کیا کہہ رہی ہے یہ کہتے ہوئے اٹھا اور آنگن کے باب الداخلہ۔کے پاس گیا + 14:68 آیت ۶۸ بہت سارے یونانی صحیفوں میں یہ شامل ہے۔“ اور پرندوں کا ہجوم۔”
69 اس لڑکی نے پطرس کو دوبارہ دیکھا اور وہاں کھڑے ہوئے لوگوں سے کہا، “یہ آدمی اس کے شاگردوں میں سے ایک ہے۔”
70 پطرس نے دو بارہ اس کی باتوں کا انکار کیا۔ تھوڑی دیر بعد پطرس کے قریب کھڑے ہوئے چند آدمیوں نے اس سے کہا ، “ہم جانتے ہیں کہ تو بھی اسکے شاگردوں میں سے ایک ہے اور توبھی گلیل ہی کا ہے۔”
71 تب پطرس اپنے آپ پر لعنت کرنا شروع کیا اور چلاّکر کہا کہ میں خدا کے لئے وعدہ کرتا ہوں یہ آدمی جس کے بارے میں تم مجھ سے کہتے ہو میں اسکو نہیں جانتا!
72 پطرس نے جب یہ کہا مرغ نے دوسری مرتبہ بانگ دیا ۔ تب پطرس نے یاد کیا کہ یسوع نے کیا کہا تھا: “مرغ کے دو بار بانگ دینے سے پہلے تو تین بار کہے گا کہ تو مجھے نہیں جانتا ہے۔” یسوع کی کہی ہوئی بات یاد کرکے وہ دکھ میں مبتلا ہوا اور رونے لگا۔