38
1 تب خدا وند نے طو فانی ہوا سے جواب دیا۔ خدا نے کہا :
2 “یہ کون جاہل شخص ہے جو احمقانہ باتیں کر رہا ہے ؟ ”
3 اے ایوب ! تیار ہو جاؤ
اور سوالو ں کا جواب دینے کے لئے جو میں تم سے پو چھوں تیار ہو جاؤ۔
4 “ایّوب ! بتا تو کہاں تھا جب میں نے زمین کی بنیاد ڈا لی تھی ؟
اگر تو اتنا سمجھدار ہے تو مجھے جواب دے۔
5 کیا تم کو معلوم ہے کس نے اسکی ناپ ٹھہرا ئی
یا کس نے اس پر سوت کھینچا ؟
6 کیا تم جانتے ہو کہ زمین کی بنیاد کس پر رکھی گئی ہے ؟
کیا تم جانتے ہو کہ کس نے پہلے پتھر کو اسکی جگہ پر رکھا ہے ؟
7 جب ایسا کیا گیا تھا تب ستارے ملکر گائے تھے
اور سارے فرشتے خوشی سے للکارے تھے !
8 “ایّوب ! جب سمندر زمین کی گہرائی سے پھوٹ پڑا تھا ،
تو کس نے اسے روکنے کے لئے دروازوں کو بند کیا تھا ؟
9 اس وقت میں نے بادلوں سے سمندر کو لپیٹ دیا تھا۔
(جیسے بچہ کو چادر میں لپیٹا جاتا ہے۔)
10 سمندر کی حدیں میں نے مقرر کی تھيں۔
اور اسے تالا لگے ہوئے پھا ٹکوں کے پیچھے رکھا تھا۔
11 میں نے سمندر سے کہا ، ’تو یہاں تک آسکتا ہے لیکن تو اس حد کو پار نہیں کر سکتا ہے۔
تیری مغرور موجیں یہاں پر رک جائیں گی۔‘
12 “ایوب ، کیا تو کبھی اپنی زندگی میں سویرا (سورج ) کو حکم دیا کہ طلوع ہوجا
یا دن کو کہ آغاز ہوجا ؟
13 ایوب ! کیا تو نے کبھی صبح کی روشنی کو زمین پر چھا جانے کا حکم دیا ہے
اور شریر لوگوں کے چھپنے کی جگہ کو چھو ڑ نے کے لئے بلا یا ہے۔
14 صبح سویرے کی روشنی
پہاڑ یوں اور وادیوں کو ظا ہر کر دیتی ہے۔
جب دن کا اجالا زمین کے اوپر پھیلتا ہے
تو ان تمام چیزوں کی شکل و صورت کپڑوں کی سلوٹوں کی طرح ظا ہر ہوجاتی ہے۔
وہ چکنی مٹی کو مہر سے دبائی گئی جیسی
شکل کو اختیار کرتی ہے۔
15 شریر لوگوں کو دن کی روشنی بھلی نہیں لگتی
کیوں کہ جب یہ پھیلتی ہے تب یہ انکو برے کام کرنے سے رکنے پر مجبور کرتی ہے۔
16 “ایوب ! بتا کیا تو کبھی بھی سمندر کے منبع میں گیا ہے جہاں سے سمندر شروع ہوتا ہے ؟
کیا تو کبھی بھی سمندر کے سطح پر چلا ہے ؟
17 ایوب ! کیا تم نے کسی بھی وقت ان پھاٹکوں کو دیکھا ہے جو موت کی دنیا کی طرف جاتی ہے ؟
کیا تم نے کبھی پھاٹکوں کو دیکھا ہے جو تمہیں موت کے اندھیری جگہ پر لے جاتی ہے۔
18 ایوب ! کیا تو سچ مچ میں جانتا ہے کہ یہ زمین کتنی بڑی ہے ؟
اگر تو یہ سب کچھ جانتا ہے تو تو مجھ کو بتا۔
19 “ایوب ! روشنی کہاں سے آتی ہے ؟
اور تاریکی کہاں سے آتی ہے ؟
20 ایّوب ! کیا تم روشنی اور اندھیرے کو اسکی ابتداء کی جگہ واپس لے جا سکتے ہو ؟
کیا تم اس جگہ کا راستہ جانتے ہو ؟
21 ایّوب ! یقیناً تم سبھی چیزیں جانتے ہو کیوں کہ تم بہت عمر رسیدہ اور عقلمند شخص ہو۔
جب یہ چیزیں بنائی گئی تھیں تو تم زندہ تھے ؟
22 “ایوب ! کیا تو کبھی ان کو ٹھریوں میں گیا ہے
جہاں میں برف اور اولوں کو رکھا کرتا ہوں ؟
23 میں نے برف اور اولوں کو تکلیف کے وقت استعمال کرنے کے لئے ،
لڑائی اور جنگ کے دوران استعمال کرنے کے لئے رکھا ہے۔
24 ایّوب ! کیا تُو کبھی ایسی جگہ گیا ہے جہاں سے سورج اُگتا ہے
اور جہاں سے مشرقی ہوا ساری زمین پر بہنے کے لئے آتی ہے ؟
25 ایوّب ! شدید بارش کے لئے آسمان میں کِس نے نہر بنا ئی ہے ؟
اور کِس نے بجلی کے طوفان کا راستہ بنایا ہے ؟
26 ایّوب ! کس نے وہاں بھی پانی برسایا ،
جہاں کو ئی بھی نہیں رہتا ؟
27 وہ بارش اس خالی زمین کو بہت سارا پانی مہیا کراتا ہے
اور گھاس اُگنا شروع ہو جا تا ہے۔
28 ایّوب ! کیا بارش کا کو ئی باپ ہے ؛
یا شبنم کے قطرے کس نے بنا ئے ؟
29 ایّوب ! برف کی ماں کون ہے ؟
اولوں کو کس نے پیدا کیا ؟
30 پانی جب جم جا تا ہے ،چٹان کی طرح سخت ہو جا تا ہے
اور یہاں تک کہ سمندربھی جم جا تا ہے۔
31 “ایوّب ! کیا تو ثریا کو باندھ سکتا ہے ؟
کیا تو جبّار کے بندھن کو کھول سکتا ہے ؟
32 کیا تم کہکشاں 38:32 کہکشاں رات کو اس کے مقررہ وقت پر باہر لا سکتے ہو ؟
کیا تم بھالو کو اس کے بچوں کے ساتھ باہر نکال سکتے ہو۔
33 کیا تو ان قوانین کو جانتا ہے جو آسمان پر حکمرانی کرتا ہے ؟
کیا تو ان قوانین کو زمین پر لا گو کر سکتا ہے۔
34 “ایوّب بتا! کیا تو پکار کر بادلوں کو حکم دے سکتا ہے
کہ وہ تمہا رے اوپر پانی بر سا ئے ؟
35 ایّوب ! کیا توبجلی کو حکم دے سکتا ہے ؟
کیا یہ تیرے پاس آکر کہے گا ، ’ہم یہاں ہیں۔ جناب ہم کیا کر سکتے ہیں ؟ ”
کیا یہ وہاں بھی جا ئے گا جہاں تم اسے بھیجنا چا ہو گے ؟
36 “ایّوب ! لوگو ں کو ذہین کون بناتا ہے ؟
ان کے باطن میں حکمت کو ن رکھتا ہے ؟
37 ایّوب ! کون اتنا زیادہ دانشمند ہے جو بادلوں کو گن لے
اور ان کو ان کے پانی کو انڈیل نے کے لئے الٹ دے ؟
38 بارش دھول کو کیچڑ بنا دیتی ہے
اور چکنی مٹی کے ڈھیلے آپس میں مل جا تے ہیں۔
39 “ایّوب ! کیا تم شیر کا شکار کر سکتے ہو ؟
اور کیا تم اس کے بھو کے بچو ں کو آ سودہ کر سکتے ہو ؟
40 وہ اپنی ماندو ں میں پڑے رہتے ہیں
یا جھاڑیو ں میں گھات لگا کر اپنے شکار پر جھپٹنے کے لئے بیٹھتے ہیں۔
41 ایّوب ! پہاڑی کوّے کو خوراک کو ن دیتا ہے ؟ ان کے بچے خدا سے فریاد کر تے ہیں
اور خوراک نہ ملنے کی وجہ سے اِدھر اُدھر جا تے ہیں۔