39
1 “ایّوب ! کیا تو جانتا ہے پہاڑ کی جنگلی بکری کب بچے دیتی ہے ؟
اس طرح سے جب ہرنی بچہ دیتی ہے تو کیا تو دیکھتا ہے ؟
2 ایّوب ! کیا تم جانتے ہو کتنے مہینے بکری اور ہرنی اپنے بچوں کو اپنے رحموں میں رکھتی ہیں ؟
کیا تم جانتے ہو ان کے پیدا ہو نے کا صحیح وقت کیا ہے ؟
3 وہ جانور لیٹ جا تے ہیں اور بچوں کو جنم دیتے ہیں۔
تب ان کا درد ختم ہو جا تا ہے۔
4 ان کے بچے میدان میں مو ٹے تازے ہو تے ہیں۔ اور بڑھتے ہیں۔
تب وہ اپنی ماؤں کو چھوڑ دیتے ہیں اور پھر کبھی بھی واپس نہیں لوٹتے ہیں۔
5 “ایّوب ! جنگلی گدھوں کو کون آزاد چھوڑدیتا ہے ؟
کس نے ان کا رسّہ کھو لا اور بندھن سے نجات دی ؟
6 یہ میں ہو ں(خدا ) جس نے ریگستان کو جنگلی گدھوں کے حوالے اس میں رہنے کے لئے کیا۔
میں نے جنگلی گدھوں کو نمکین زمین رہنے کی جگہ کے طور پر دی۔
7 جنگلی گدھا شہر کے شور و غُل پر ہنستا ہے
اور کو ئی اسے قابو نہیں کرسکتا ہے۔
8 جنگلی گدھے پہاڑوں پر جہاں تہاں بھٹکتے ہیں۔
جنگلی گدھے وہیں پر گھاس چرتے ہیں جہاں وہ کھا نے کی غذا کھو جتے ہیں۔
9 “ایّوب ! بتا ، کیا کو ئی جنگلی سانڈ تیری خدمت پر راضی ہو گا ؟
کیا وہ تیری کھلیان میں رات کو رُکے گا ؟
10 ایّوب ! کیا تم جنگلی سانڈ کو
اپنا کھیت جوتنے کے لئے رسیوں سے باندھ سکتے ہو ؟
11 جنگلی سانڈ کا فی طاقتور ہو تا ہے
لیکن کیا تم اپنے کام کے لئے اس پر بھروسہ کر سکتے ہو ؟
12 کیا تو اپنا اناج جمع کر نے وا لے
اور اسے اپنی کھلیان تک لے جا نے کے لئے اس پر یقین کر سکتا ہے ؟
13 “شُتر مرغ جب خوش ہو تا ہے تو وہ اپنے پنکھوں کو پھڑ پھڑا تا ہے لیکن وہ اُڑ نہیں سکتا۔
اس کے پر اور پنکھ سارس کے جیسے نہیں ہو تے ہیں۔
14 مادہ شتر مرغ زمین پر اپنے انڈو ں کوچھوڑ دیتی ہے ،
اور ریت سے ان کو گرمی ملتی ہے۔
15 لیکن شتر مرغ بھول جا تا ہے کہ کو ئی اس کے انڈوں پرسے چل کر انہیں کچل سکتا ہے ،
یا کو ئی جنگلی جانور ان کو توڑسکتا ہے۔
16 شتر مرغ اپنے چھو ٹے بچوں کو چھوڑدیتی ہے۔
وہ ان سے ایسے برتاؤ کر تی ہے جیسے وہ اس کے بچے نہیں ہیں۔
اگر اس کے بچے مر بھی جا ئیں تو بھی وہ اس کی پرواہ نہیں کرتی ہے
کہ اس کی ساری محنت رائیگاں گئی۔
17 کیوں کہ میں نے ( خدا ) اس شتر مرغ کو حکمت نہیں دی ہے۔
شُتر مرغ بے وقوف ہے اور میں نے ہی اسے ایسا بنا یا ہے۔
18 لیکن جب شتر مرغ دوڑنے کو تیار ہو تی ہے تب وہ گھوڑے اور اس کے سوار پر ہنستی ہے ،
کیوں کہ وہ گھوڑے سے زیادہ تیز بھاگتی ہے۔
19 “ایّوب ! بتا کیا تونے گھوڑے کو طاقت دی ؟
اور کیا اس کی گردن کو لہراتی ایال سے تو نے ملبس کیا ؟
20 ایّوب ! کیا تم نے گھوڑے کو ٹڈی کی طرح کو دایا ؟
گھوڑا مُہیب آواز میں ہنہنا تا ہے اور لوگ ڈرجا تے ہیں۔
21 گھوڑا خوش ہے کہ وہ بہت طاقتور ہے اور اپنے کھُرسے وہ زمین کھودا کر تا ہے۔
اور جنگ میں تیزی سے سر پٹ دوڑتا ہے۔
22 گھوڑے دہشت کا مذاق اُڑا تے ہیں کیوں کہ وہ اس سے بالکل ڈرا ہوا نہیں ہے ،
گھوڑے لڑا ئی کے دوران نہیں بھاگتے ہیں۔
23 سپا ہیوں کا ترکش گھوڑے کے بغل میں ہلتا ہے۔
اس کے بھالے اور ہتھیار دھوپ میں چمکتے ہیں۔
24 گھوڑا بہت پُر جوش ہو جا تا ہے۔ وہ زمین کے اوپر بہت تیز دوڑتا ہے۔
جب گھوڑا بگل کی آواز سنتا ہے تو وہ اور کھڑا نہیں رہ سکتا ہے۔
25 جب جب بگل بجتی ہے وہ ہنہناتا ہے ’ ہّرے !‘
اور لڑا ئی کو دورسے سونگھ لیتا ہے۔
وہ فو ج کے سپہ سالا ر کے احکام اور جنگ کے دوسرے الفاظ سن لے تا ہے۔
26 “ایّوب ! کیا باز کو تم نے اپنے پنکھوں کو پھیلانا
اور جنوب کی طرف اُڑنا سکھا یا ؟
27 کیا تم نے عقاب کو آسمان کی بلندی پر اڑنے کے لئے کہا ؟
کیا تم نے اسے پہاڑ کی بلندی پر گھونسلہ بنانے کے لئے کہا ؟
28 عقاب چٹان پر رہا کر تا ہے
چٹان اس کا قلعہ ہے۔
29 عقاب بلندی پر اپنے قلعہ سے اپنے شکار کو دیکھ لیتا ہے۔
عقاب دور ہی سے اپنی خوراک پہچان لیتا ہے۔
30 عقاب لا شوں کے پاس جمع ہو جا تا ہے۔
ان کے بچے خون چوسا کر تے ہیں۔”