4
(متّی۱۳:۱۔۹؛لوقا۸:۴۔۸)
1 ایک دُوسرے موقع پر یسوع جھیل کے کنا رے لوگوں کو تعلیم دے رہے تھے۔ایک بڑی بھیڑ اس کے اطراف جمع ہو گئی۔ یسوع ایک کشتی میں جا بیٹھے اور جھیل کے کنارے تھوڑی دور فاصلہ پر چلے گئے تمام لوگ پانی کے کنارے تھے۔
2 یسوع نے کشتی میں بیٹھ کر لوگوں کو مختلف تمثیلوں کے ذریعے تعلیم دی۔ انہوں نے کہا ،
3 “سنو ایک کسان تخم ریزی کرنے کے لئے کھیت کو گیا۔
4 بوقت تخم ریزی چند دانے راستے کے کنارے گرے چند پرندے آئے اور وہ دانے چگ گئے۔
5 چند دانے پتھریلی زمین پر گرے اس زمین پر زیادہ مٹی نہ تھی۔ زمین گہری نہ ہونے کی وجہ سے بہت جلد ہی اگ گئے۔
6 لیکن جب سورج اوپر چڑھا گہری جڑیں نہ ہونے کی وجہ سے وہ پودے سوکھ گئے۔
7 چند اور دانے خار دار جھاڑیوں میں گرے ,خار دار جھاڑیاں پھلنے پھولنے کے بعد اچھے پودوں کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ جس کی وجہ سے وہ پودے کوئی پھل نہ دیئے۔
8 چند دُوسرے دانے زرخیز زمین پر گرے۔ وہ دانے اُگے اور آگے بڑھ کر پھل دار ہوئے۔ ان میں چند درخت تیس گنا اور چند ساٹھ گنا اور دوسرے چند درخت سو گنا زیادہ پھل دیئے۔”
9 تب یسوع نے کہا ، “تم لوگ جو میری باتوں کو سن رہے ہو غور سے سنو!”
( متّی۱۳:۱۰۔۱۷؛لوقا۸:۹۔۱۰)
10 جب یسوع اکیلے تھے تو اس کے بارہ رسولوں 4:10 رسولوں یسوع اور اس کے دیگر شاگردوں نے ان تمثیلوں کی بابت ان سے پوچھا،
11 یسوع نے کہا ، “خدا کی بادشاہت کی سچائی کاراز صرف تم سمجھ سکتے ہو لیکن دوسرے لوگوں کو میں تمثیلوں ہی کے ذریعے ہر چیز سمجھا تا ہوں۔
12 “تا کہ،
وہ دیکھیں گے، دیکھتے ہی رہینگے لیکن حقیقت میں کبھی نہیں پہچان پائینگے۔
وہ سنیں گے، سنتے رہیں گے لیکن کبھی نہیں سمجھ پائینگے۔
اگر وہ دیکھینگے اور سمجھیں گے ,تو شاید بدل سکتے ہیں اور معافی مل سکتی ہے۔”
یسعیاہ ۶:۹۔۱۰
(متّی۱۳:۱۸۔۲۳؛لوقا۸:۱۱۔۱۵)
13 تب یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا ، “کیا تم نے اس تمثیل کو سمجھا اگر تم اس تمثیل کو نہ سمجھے تو پھر دوسری کونسی تمثیل کو سمجھو گے؟
14 کسان جو بوتا ہے اس کی نسبت ویسا ہی ہے جو خدا کی تعلیمات کو لوگوں میں تبلیغ کرتا ہے۔
15 کچھ لوگ خداوند کی تعلیمات سنتے ہیں۔ لیکن شیطان ان میں ڈالے گئے کلام کو نکال کر باہر کردیتا ہے اور یہ لوگ راستے کے کنارے بوئے ہوئے بیج کی نمائند گی کرتے ہیں۔
16 اور کچھ دوسرے لوگ جو خداوند کا کلام سنتے ہیں اور خوشی سے جلدی قبول بھی کر لیتے ہیں۔
17 لیکن وہ اس کلام کو اپنے دل کی گہرائی میں جڑ پکڑنے کا موقع ہی نہیں دیتے۔ وہ اس کلام کو تھوڑی دیر کے لئے ہی رکھتے ہیں۔اس کلام کی نسبت سے ان پر کوئی مصیبت آئے یا ان پر کوئی ظلم و زیادتی ہو تو وہ اس کو بہت جلد ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ انکی تمثیل پتھریلی زمین پر بیج گرنے کی طرح ہے۔
18 اور چند لوگ کانٹے دار جھاڑیوں کے بیچ بوئے ہوئے بیج کی طرح ہیں یہ لوگ کلام کو تو سنتے ہیں۔
19 لیکن زندگی کے تفکرات، دولت کا لالچ اور کئی دوسری آرزوئیں ان کے دلوں میں اتری بات کو بڑھنے سے روکتی ہیں۔ اس وجہ سے ان کی زندگی میں یہ کلام پھل دار نہیں ہوتا۔
20 “اور بعض لوگ اس بیج کی طرح ہوتے ہیں جو زرخیز زمین پر گرے ہوں جب وہ کلام کو سنتے ہیں تو قبول کرکے پھل دیتے ہیں بعض مواقع پر تیس گنا زیادہ اور بعض اوقات ساٹھ گنا سے زیادہ اور بعض اوقات سو گنا سے زیادہ پھل دیتے ہیں۔”
( لوقا۸:۱۶۔۱۸)
21 پھر یسوع نے کہا، “کیا تم جلتے چراغ کوکسی برتن کے اندر یا کسی پلنگ کے نیچے رکھوگے؟ نہیں بلکہ چراغ کوچراغ دان میں رکھتے ہو۔
22 ہر وہ چیز جو چھپی ہو ئی ہے اسے ظاہر کر دی جائے گی اور ہر وہ چیزجو پوشیدہ اور راز میں ہو اس پر سے پردہ اٹھا دیا جائیگا اور وہ واضح ہوجائیگی۔
23 میری بات سننے والے توجہ سے سنو!
24 تم جن باتوں کو سن رہے ہو غور سے سنو۔تم جن ناپُوں سے ناپتے ہو ان ہی میں تم ناپے جاؤگے تم نے جتنا دیا ہے اس سے بڑھ کر وہ دینگے۔
25 جس کے پاس کچھ ہے اس کو اور زیادہ دیا جائیگا۔ جس کے پاس کچھ نہ ہو اس سے جو بھی ہے لے لیا جائیگا۔”
بوئے ہوئے دانے کی نسبت سے یسوع مسیح کی تمثیل
26 پھر یسوع نے کہا، “خدا کی بادشاہت زمین میں تخم ریزی کر نے والے آدمی کی مانند ہے۔
27 کسان سو رہا ہو یا جاگتا ہو دانہ رات دن بڑھتا ہی رہتا ہے۔ کسان نہیں جانتا کہ دانہ کس طرح بڑھتا ہے۔
28 زمین پہلے پودے کو پھر بالیوں کو اور اسکے بعد دانوں سے بھری بالی کو خود بخود پیدا کرتی ہے۔
29 پھر کہا جب بالی میں دا نہ پختہ ہوتا ہے تو کسان فصل کاٹتا ہے “اس کو فصل کاٹنے کا زمانہ کہتے ہیں۔”
(متّی۱۳:۱ ۳۔۳۲؛۴ ۳۔۵ ۳؛لوقا۱۳:۱۸۔۱۹)
30 پھر یسوع نے کہا ، “خدا کی باد شاہت کے بارے میں وضاحت کرنے کے لئے میں تم کو کونسی تمثیل دوں؟
31 اس نے کہا خدا کی باد شاہت را ئی کے دا نہ کی مانند ہو تی ہے تم زمین میں جن دانوں کو بوتے ہو ان میں رائی ایک بہت چھوٹا دا نہ ہے۔
32 جب تم اس دا نے کو بوتے ہو تو وہ خوب بڑھتا ہے اور تمہارے باغ کے دیگر پیڑوں میں وہ بہت بڑا ہوتا ہے اس کی بڑی بڑی شاخیں ہو تی ہیں۔ جنگل کے پرندے وہاں آکر اپنے گھونسلے بنا تے ہیں۔ اور سورج کی گرمی سے محفوط ہو تے ہیں۔”
33 یسوع ایسے بیشمار تمثیلوں کے ذریعے بہ آسانی سمجھ میں آنے والی باتوں کی تعلیم دیتے رہے۔
34 یسوع ہمیشہ تمثیلوں کے ذریعہ لوگوں کو تعلیم دیتے رہے لیکن جب ان کے شاگرد ان کے سامنے ہوتے تو ان کو وہ سب کچھ وضاحت کرکے سمجھا تے تھے۔
( متّی۸:۲۳۔۲۷ ؛لوقا۸:۲۲۔۲۵)
35 اس روز شام یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا ،“میرے ساتھ آؤ جھیل کے اس کنارے پر جائینگے۔”
36 یسوع اور انکے شاگرد وہاں کے لوگوں کو وہیں پر چھوڑ کر چلے گئے۔
جس کشتی میں بیٹھ کر یسوع تعلیم دے رہے تھے وہ اسی کشتی میں چلے گئے۔ ان کے لئے دوسری بہت سی کشتیاں موجود تھیں۔
37 وہ جا ہی رہے تھے کہ جھیل پر بھیا نک آندھی چلنی شروع ہو گئی۔ اونچی اونچی لہریں کشتی سے ٹکرا نے لگیں۔ کشتی تقریباً پانی سے بھر گئی۔
38 یسوع کشتی کے پچھلے حصّے میں تکیہ پر سر رکھکر سو رہے تھے شاگرد ان کے قریب جا کر انہیں جگایا اور انہیں کہا ، “اے استاد! کیا آپکا ہم سے تعلق نہیں؟ ہم پانی میں ڈوبے جا رہے ہیں۔”
39 یسوع نے نیند سے بیدار ہوکر آندھی اور لہروں کو حکم دیا، “پرُ جوش نہ ہو خاموش رہو تب آندھی تھم گئی اور جھیل پر موت کا سا سکوت چھا گیا۔
40 یسوع نے اپنے شاگر دوں سے کہا، “تم کیوں گھبراتے ہو؟ کیا تم میں ابھی یقین پیدا نہیں ہوا ۔”
41 شاگرد خوفزدہ ہو گئے اور ایک دوسرے سے کہا، “یہ کون ہو سکتا ہے؟ ہوا اور پانی پر بھی اس کا تصّرف ہے۔”