20
1 “جنت کی بادشاہت انگور کے باغ کے مالک کی ما نند ہے۔ ایک دن صبح باغ کا مالک اپنے باغ میں کام پر لگا نے کے لئے مزدوروں کی تلا ش میں نکلا۔
2 ہر مزدور کو ایک دن میں ایک چاندی کا سکہ بطور مزدوری طے کر کے ان کو اپنے باغ میں کام کر نے کے لئے بھیج دیا۔
3 تقریباً نو بجے باغ کا ما لک ایک با ر پھر با زار گیا۔اس نے چند لوگوں کو وہا ں بیکار کھڑے ہو ئے دیکھا۔
4 وہ ان سے کہنے لگا کہ اگر تم بھی میرے باغ میں کام کر نا چا ہو تو میں تمہیں تمہا رے کام کی منا سب مزدوری دوں گا۔
5 وہ مزدور کام کر نے کے لئے اس کے باغ میں چلے گئے۔”
باغ کا مالک ایک مرتبہ پھر اسی طرح بارہ بجے اور تین بجے بازار کو گیا اور دونوں مرتبہ اس نے اپنے باغ میں کام کر نے کے لئے کچھ اور بھی مزدوروں کا انتظام کر لیا۔
6 تقریباً پانچ بجے وہ مالک ایک بار پھر بازار کی طرف گیا۔ اس نے وہاں چند لوگوں کو کھڑے ہوئے دیکھ کر کہا کہ تم لوگ یونہی پورا دن کیوں بیکا ر کھڑے ہو ؟۔
7 “انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں کسی نے کام نہیں دیا۔تب اس مالک نے کہا، “اگر ایسی ہی بات ہے تو تم جاؤ اور میرے باغ میں کام کرو۔
8 “دن کے آخر میں باغ کے مالک نے تمام مزدوروں کے نگراں کار سے کہا۔مزدوروں کو بلا ؤ اور ان تمام کو مزدوری دیدو۔آخر میں آنے والے لوگوں کو پہلے مزدوری اور پہلے آنے والے مزدوروں کو آخر میں مزدوری دو۔
9 “پانچ بجے کے وقت میں جن مزدوروں کو کام پر لیا گیا تھا۔اپنی مزدوری حا صل کر نے کے لئے آگئے۔ اور ہر مزدور کو ایک ایک چاندی کا سکہ دیا گیا۔
10 پھر وہ مزدور جو پہلے کرا ئے پر لئے گئے تھے اپنی مزدوری لینے کے لئے آئے۔ اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ دوسرے مزدوروں سے انہیں زیادہ ہی ملے گا۔ لیکن ان کو بھی مزدوری میں صرف ایک چاندی کا سکہ ہی ملا۔
11 جب انہوں نے اپنا چاندی کا سکہ لے لیا تو یہ مزدور باغ کے ما لک کے بارے میں شکایت کرنے لگے۔
12 انہوں نے کہا کہ تا خیر سے کام پر آئے ہو ئے مزدوروں نے صرف ایک گھنٹہ کام کیا ہے۔ لیکن اس نے ان کو بھی ہما رے برا بر ہی مزدوری دی ہے۔ جبکہ ہم نے تو دن بھر دھوپ میں مشقت کے ساتھ کام کیا ہے۔
13 “باغ کے ما لک نے ان مزدوروں میں ایک سے کہا کہ اے دوست میں تیرے حق میں نا انصافی نہیں کیا ہو ں۔(لیکن ) تو نے تو صرف ایک چاندی کے سکہ کی خا طر سے کام کی ذمہ داری کو قبول کیا۔
14 اس وجہ سے تو اپنی مزدوری لے اور چلتا بن۔ اور میں تجھے جتنی مزدوری دیا ہوں اتنی ہی مزدوری بعد میں آنے وا لے کو بھی دینا چاہتا ہوں۔
15 میری ذاتی رقم کو میں اپنی مرضی کے مطا بق دے سکتا ہو ں اور کہا، “میں نے جو کچھ اچھا ئی کی ہے کیا تو اس کے بارے میں حسد کر تا ہے۔
16 “ٹھیک اسی طرح آخرین،اولین، بنیں گے اور اولین آخریں بنیں گے۔”
(مرقس ۱۰:۳۲-۳۴؛ لوقا ۱۸:۳۱-۳۴)
17 یسوع یروشلم جا رہے تھے۔ اور انکے بارہ شاگرد بھی ان کے ساتھ تھے۔ راستے میں یسوع نے ان میں سے ہر ایک کو الگ الگ بلا کر کہا۔
18 “ہم یروشلم جا رہے ہیں۔ ابن آدم کو سردار کا ہنوں اور معلمین شریعت کے حوا لے کر دیا جا ئیگا۔کا ہنوں اور معلمین شریعت کا کہنا ہے کہ ابن آدم کو مر نا چاہئے۔
19 انہوں نے ابن آدم کو غیر یہودیوں کے حوا لے کر دیا۔وہ ابن آدم سے مذاق و ٹھٹھا کریں گے اور کوڑے مار کر صلیب پر چڑھائیں گے۔ لیکن وہ مر نے کے بعد تیسرے ہی دن پھردوبارہ جی اٹھے گا۔”
(مرقس۱۰:۳۵-۴۵)
20 اس وقت زبدی کی بیوی یسوع کے پاس آئی۔اس کا نرینہ بچہ اس کے ساتھ تھا۔وہ یسوع کے سامنے گھٹنے ٹیک کر ادب سے جھک گئی اور اپنی گذارش کو بر لا نے کی فرما ئش کی۔
21 یسوع نے اس سے پوچھا، “تیری مراد کیا ہے ؟”اس نے کہا، “مجھ سے وعدہ کرو کہ تیری بادشاہی میں میرے بیٹوں میں سے ایک کو تیری داہنی جا نب اور دوسرے کو بائیں جانب بٹھا دے۔”
22 یسوع نے بچوں سے کہا، “تم کیا پوچھ رہے ہو۔اس کو تم سمجھ نہیں رہے ہو۔ میں جس طرح کی مصیبت میں مبتلا ہو نے جا رہا ہوں کیا تم اسے قبول کر سکتے ہو ؟اس پر انہو ں نے جواب دیا، “ہاں ہما رے لئے ممکن ہوگا۔”
23 یسوع نے ان سے کہا ، “میں جن مصائب و تکا لیف کو جھیل رہا ہوں ان کو تم ضرور جھیلو گے۔لیکن جو کوئی میرے داہنے اور میرے بائیں بیٹھے گا اس کا انتخاب میں نہیں کرونگا۔ اور کہا کہ میرا باپ ان جگہوں کو جن کے لئے منتخب کیا ہے انہی کے لئے وہ مواقع فراہم کریگا۔”
24 دوسرے دن شاگردو ں نے جب اسکی بات کو سنا تو وہ ان دو بھا ئیوں پر غصّہ ہو ئے۔
25 یسوع نے تما م شاگردوں کو ایک ساتھ بلا کر ان سے کہا، “جیسا کہ تم جانتے ہو غیر یہودی حاکم لوگوں پر اختیار چلانا چاہتے ہیں جسکا تمہیں علم ہے اور انکے حاکم اعلٰی لوگوں پر بھی اپنا اختیار چلانا چاہتے ہیں۔
26 “لیکن تم ایسا نہ کرنا تم میں جو بڑا بننے کی آرزو کرتا ہے اس کو چاہئے کہ وہ خادم کی طرح خدمت کرے۔*
27 تم میں جو درجہ اول کی آرزو کرے تو اس کو چاہئے وہ ایک ادنی غلام کی طرح نوکری کرے ۔
28 اور ایسا ہی ابن آدم کے لئے ہے۔ ابن آدم دوسروں سے خدمت لئے بغیر ہی دوسروں کی خدمت کر نے کے لئے اور بہت سے لوگوں کی حفاظت کر نے کے لئے ابن آدم اپنی جان ہی کو رہن رکھنے کے لئے آیا ہے۔
(مرقس ۱۰:۴۶-۵۲ ؛ لوقا ۱۸:۳۵-۴۳)
29 یسوع اور اسکے شاگرد جب یریحو سے لوٹ رہے تھے تب بہت سے لوگ یسوع کے پیچھے ہو لئے۔
30 راستے کے کنارے پر دو اندھے بیٹھے ہو ئے تھے۔ جب انکو یہ معلوم ہوا کہ یسوع اس راہ سے گزرنے والا ہے تو انہوں نے چیخ و پکار کی اور کہنے لگے، “اے ہمارے خداوند داؤد کے بیٹے ہماری مدد کر۔”
31 لوگ ان اندھوں کو ڈانٹنے لگے اور کہنے لگے کہ خاموش رہو۔ لیکن اس کے باوجود وہ اندھے یہ کہتے ہو ئے زور زور سے پکار نے لگے، “کہ اے ہمارے خدا وند داؤد کے بیٹے! برائے مہر بانی ہماری مدد کر۔”
32 یسوع کھڑے ہو گئے اور ان اندھوں سے پو چھنے لگے، “تم مجھ سے کس قسم کے کام کی امید کر تے ہو۔”
33 تب اندھوں نے کہا، “اے ہمارے خداوند! ہمیں بینائی دے۔”
34 یسوع ان کے بارے میں افسوس کر نے لگے اور انکی آنکھوں کو چھوا۔ فوراً ان میں بینائی آگئی۔ پھر اسکے بعد وہ یسوع کے پیچھے ہو لئے۔