8
1 پس اب جو مسیح یسوع میں ہے ان پر سزا کا حکم نہیں۔
2 کیوں کہ روح کی شریعت نے جو مسیح یسوع کی معرفت زندگی دیتی ہے تجھے گناہ کی شریعت سے جو موت کی جانب لے جاتی ہے آزاد کر دیا۔
3 وہ شریعت کمزور تھی انسان غیر روحانی انسانی فطرت کے سبب سے کامیاب نہ ہوا۔ اس لئے خدا نے اپنے بیٹے کو ہمارے ہی جیسے انسا نی بدن میں جس کو دوسرے انسان گناہ کے لئے استعمال کر تے ہیں بھیجا۔ خدا نے اپنے بیٹے کو ہمارے گناہوں کے لئے قربان ہو نے کے لئے بھیجا۔
4 خدا نے یہ اس لئے کیا تا کہ شریعت کا تقاضہ ہما رے لئے مکمل طور پر پو را ہو جو کہ گناہ کی فطرت پر نہیں بلکہ روح کے مطا بق ہے اور ہم اس کے مطا بق چلتے ہیں۔
5 کیوں کہ جو لوگ گناہ کی فطرت کے خوا ہش کے مطا بق چلتے ہیں وہ صرف ان چیزوں کے بارے میں سوچتے ہیں جو ان کے گناہ کی فطرت چاہتی ہے۔لیکن جوروحانی خیالات کے مطا بق چلتے ہیں انکے خیالات گناہ کے مطابق ہو تے ہیں لیکن جو روحانی خیالات کے مطا بق زندہ ہیں انکے خیالات روح کے خیالات کی طرح رہتے ہیں۔
6 جو خیالات ہماری انسانی فطرت کے تابع ہیں اس کا نتیجہ موت ہے۔ اور جو روح کے تابع ہیں اس کا نتیجہ زندگی اور سلامتی ہے۔
7 یہ کیو ں سچ ہے؟ اس لئے کہ خیال جو انسانی فطرت کے تابع ہے وہ خدا کے خلاف ہے کیوں کہ یہ خدا کی شریعت کے تابع نہیں رہتا۔ اور اصل میں اہمیت نہیں رکھتا۔
8 او ر وہ جو فطری گناہوں کے تابع زندہ ہیں وہ خدا کوخوش نہیں کر سکتے۔
9 لیکن تم گناہوں کی فطرت میں حکمران نہیں ہو۔ لیکن روحانی ہو۔ بشرطیکہ خدا کی روح تم میں بسی ہو ئی ہو۔ لیکن اگر کسی میں مسیح کی روح نہیں ہے تو وہ مسیح کا نہیں ہے۔
10 تمہا را بدن گناہ کے سبب مردہ ہے اگر مسیح تم میں ہے۔روح تمہیں زندگی دیتی ہے کیوں کہ تم راستباز بنو۔
11 اور اگر اس خدا کی روح جس نے یسوع کو مرے ہو ئے میں سے جلا یا تھا تمہا رے اندر رہتی ہے تو خدا جس نے مسیح کو مرے ہوئے میں سے جلا یا تھا تمہا رے فانی جسموں کو اپنی روح سے جو تمہا رے اندر بسی ہو ئی ہے زندگی دیگی۔
12 اسی لئے میرے بھائیواور بہنو! ہم قرضدار تو ہیں مگر ہمارے گنہگار فطرت کے نہیں تا کہ ہم گناہوں کی فطرت کی خواہش کے مطابق زندگی گذاردیں۔
13 کیوں کہ اگر تم فطری گناہوں کی خواہش کے مطا بق زندگی گذارو گے تو روحانی موت مرو گے۔ لیکن اگر تم روح کے وسیلے سے فطری گناہو ں کی خواہش برے کاموں کو کرنا چھوڑ دو گے تم جیتے رہوگے۔
14 جو خدا کی روح کی ہدایت سے چلتے ہیں وہی خدا کے بچے ہیں۔
15 کیوں کہ وہ روح جو تمہیں ملی ہے تمہیں غلام نہیں بناتی۔ جس سے ڈر پیدا نہیں ہوتی۔ جو روح تم نے پا ئی ہے تمہیں خدا کے چنے ہوئے اولاد بناتی ہے اس روح کے ذریعہ ہم پکار اٹھتے ہیں “ اباّ، اے باپ!”
16 روح خود ہماری روح کے ساتھ مل کر حقیقت کی گوا ہی دیتی ہے کہ ہم خدا کے بچے ہیں۔
17 اور چونکہ ہم اسکے بچّے ہیں تو وارث بھی ہیں۔ یعنی خدا کے وارث اور مسیح کے ہم میراث ہیں بشرطیکہ ہم اس کے ساتھ درد سہیں اور اس کے ساتھ جلا ل بھی پا ئیں۔
18 کیوں کہ میں سمجھتا ہوں اس زما نے کے دکھ درد اس لا ئق نہیں کہ اس آنے والے جلا ل کے تقابل میں ہو جو ہم پر نازل ہو نے والی ہے۔
19 کیوں کہ مخلو قات کمال آرزو سے خدا کے بیٹوں کے ظاہر ہو نے کی راہ دیکھتی ہے۔
20 خدا کی بنائی ہوئی تمام اشیاء اس طرح باطل کے تابع ہوں گی اپنی مرضی سے نہیں ہوں گی بلکہ خدا نے خود فیصلہ کیا کہ اس کے حوالے کردے۔
21-22 اس لئے ہم جانتے ہیں کہ تمام مخلوقات اب تک درد زہ اسی طرح تڑپتی کراہتی ہیں اس لئے کہ تمام مخلوقات اپنی فانی غلا می سے چھٹکا رہ پا کر خدا کے بچوں کے جلا ل کی آزادی میں شا مل ہوں گے۔
23 اور نہ صرف وہی بلکہ ہم میں جنہیں روح کا پہلا پھل ملا ہے ہم اپنے اندرکراہتے رہے ہیں۔ہمیں اس کے بچے ہو نے کے لئے مکمل طور سے انتظار ہے جب کہ ہمارا بدن چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے انتظار کر رہا ہے۔
24 ہمیں نجات ملی ہے۔ اسی سے ہما رے دل میں امید ہے لیکن جب ہم جس کی امید کر تے ہیں اسے دیکھ لیتے ہیں تو وہ حقیقی امید نہیں رہتی۔ لوگوں کے پاس جو چیز ہے اس کی امید کون کر سکتا ہے۔
25 لیکن اگر ہم جسے دیکھ نہیں رہے اس کی امید کرتے ہیں تو صبروتحمل کے ساتھ اس کی راہ کو دیکھتے ہیں۔
26 ایسے ہی روح ہماری کمزوری میں مدد کرنے آتی ہے کیوں کہ ہم نہیں جانتے کہ ہم کس طرح سے دعا کریں۔ مگر روح خود آ ہیں بھر کر چلا ّ کر خدا سے ہما ری شفاعت کرا تی ہے جن کا بیان الفاظ میں ممکن نہیں۔
27 لیکن وہ جو دلوں کو پرکھنے وا لا روح کے دماغ کو جانتا ہے کہ روح کی کیا نیت ہے کیوں کہ خدا کی مرضی سے ہی وہ خدا سے اپنے لوگوں کے لئے بات کر تی ہے۔
28 ہم کو معلوم ہے کہ سب چیزیں مل کر خدا سے محبت رکھنے والوں کے لئے بھلا پید ا کرتی ہیں یعنی ان کے لئے جو خدا کے مقصد کے مطا بق بلا ئے گئے۔
29 خدا نے اس دنیا کے پیدا ہو نے سے پہلے ہی ان لوگوں کو مقرر کیا۔ اور اپنے بیٹے کی ہمشکل میں رہنے کیلئے طے کیا۔تا کہ سب بھائیوں اور بہنوں میں وہ پہلا ہونا چاہئے۔
30 اور جن کو اس نے پہلے سے مقرر کیا ان کو بلا یا بھی اور جن کو بلا یا ان کو راستباز ٹھہرایا اور جن کو راستباز ٹھہرایا ان کو جلال بھی بخشا۔
31 اس کے بارے میں ہم کیا کہیں ؟اگر خدا ہمارے حق میں ہے تو ہمارے خلاف کون ہو سکتا ہے ؟
32 اس نے جو اپنے بیٹے تک کو بچا کر نہیں رکھا بلکہ اسے ہم سب کے لئے مر نے کو چھوڑدیا۔ وہ بھلا ہمیں اس کے ساتھ اور سب کچھ کیوں نہیں دیگا ؟
33 خدا کے بر گزیدوں پر ایسا کون ہے جو الزام لگائے ؟ وہ خدا ہی ہے جو انہیں راستباز ٹھہراتا ہے۔
34 ایسا کون ہے انہیں قصور وار ٹھہرائے گا ؟مسیح یسوع وہ ہے جو مر گیا مر دوں میں سے جی اٹھا۔ جو خدا کے داہنی طرف بیٹھا ہے اور ہماری شفاعت بھی کر تا ہے۔
35 وہ کیا چیز ہے جو ہمیں مسیح کی محبت سے الگ کریگا ؟مصیبت یا تنگی یا ظلم یا قحط سالی یا ننگا پن یا خطرہ یا تلوار ؟
36 جیسا کہ لکھا ہے:
“تیرے لئے ہر دن ہمیں موت کے حوالے کیا جاتا ہے
ہم کو ذبح ہو نے والی بھیڑ جیسے سمجھا جا تا ہے۔” زبور ۴۴:۲۲
37 خدا کے وسیلے سے جو ہم سے محبت کر تا ہے۔ ان سب باتوں میں ہم ایک جلالی فتح پا رہے ہیں۔
38 کیوں کہ مجھ کو پکاّ یقین ہے کہ خدا کی جو محبت ہمارے خداوند یسوع مسیح میں ہے اس سے ہم کو کو ئی بھی چیز جدا نہ کر سکے گی ،نہ موت ،نہ زندگی ،نہ فرشتے ، نہ بدروحیں ، نہ حال کی ،نہ مستقبل کی چیزیں، نہ قدرت ،
39 نہ بلندی ، نہ پشتی ،اور نہ ہی پو ری کائنات کی کوئی بھی چیز۔