2
اللہ کی جوان اسرائیل کے لئے فکر
1 رب کا کلام مجھ پر نازل ہوا، 2 ”جا، زور سے یروشلم کے کان میں پکار کہ رب فرماتا ہے، ’مجھے تیری جوانی کی وفاداری خوب یاد ہے۔ جب تیری شادی قریب آئی تو تُو مجھے کتنا پیار کرتی تھی، یہاں تک کہ تُو ریگستان میں بھی جہاں کھیتی باڑی ناممکن تھی میرے پیچھے پیچھے چلتی رہی۔ 3 اُس وقت اسرائیل رب کے لئے مخصوص و مُقدّس تھا، وہ اُس کی فصل کا پہلا پھل تھا۔ جس نے بھی اُس میں سے کچھ کھایا وہ مجرم ٹھہرا، اور اُس پر آفت نازل ہوئی۔‘ یہ رب کا فرمان ہے۔“
اسرائیل کے باپ دادا کے گناہ
4 اے یعقوب کی اولاد، رب کا کلام سنو! اے اسرائیل کے تمام گھرانو، دھیان دو! 5 رب فرماتا ہے، ”تمہارے باپ دادا نے مجھ میں کون سی ناانصافی پائی کہ مجھ سے اِتنے دُور ہو گئے؟ ہیچ بُتوں کے پیچھے ہو کر وہ خود ہیچ ہو گئے۔ 6 اُنہوں نے پوچھا تک نہیں کہ رب کہاں ہے جو ہمیں مصر سے نکال لایا اور ریگستان میں صحیح راہ دکھائی، گو وہ علاقہ ویران و سنسان تھا۔ ہر طرف گھاٹیوں، پانی کی سخت کمی اور تاریکی کا سامنا کرنا پڑا۔ نہ کوئی اُس میں سے گزرتا، نہ کوئی وہاں رہتا ہے۔ 7 مَیں تو تمہیں باغوں سے بھرے ملک میں لایا تاکہ تم اُس کے پھل اور اچھی پیداوار سے لطف اندوز ہو سکو۔ لیکن تم نے کیا کِیا؟ میرے ملک میں داخل ہوتے ہی تم نے اُسے ناپاک کر دیا، اور مَیں اپنی موروثی ملکیت سے گھن کھانے لگا۔ 8 نہ اماموں نے پوچھا کہ رب کہاں ہے، نہ شریعت کو عمل میں لانے والے مجھے جانتے تھے۔ قوم کے گلہ بان مجھ سے بےوفا ہوئے، اور نبی بےفائدہ بُتوں کے پیچھے لگ کر بعل دیوتا کے پیغامات سنانے لگے۔“
رب کا اپنی قوم کے خلاف مقدمہ
9 رب فرماتا ہے، ”اِسی وجہ سے مَیں آئندہ بھی عدالت میں تمہارے ساتھ لڑوں گا۔ ہاں، نہ صرف تمہارے ساتھ بلکہ تمہاری آنے والی نسلوں کے ساتھ بھی۔ 10 جاؤ، سمندر کو پار کر کے جزیرۂ قبرص کی تفتیش کرو! اپنے قاصدوں کو ملکِ قیدار میں بھیج کر غور سے دریافت کرو کہ کیا وہاں کبھی یہاں کا سا کام ہوا ہے؟ 11 کیا کسی قوم نے کبھی اپنے دیوتاؤں کو تبدیل کیا، گو وہ حقیقت میں خدا نہیں ہیں؟ ہرگز نہیں! لیکن میری قوم اپنی شان و شوکت کے خدا کو چھوڑ کر بےفائدہ بُتوں کی پوجا کرنے لگی ہے۔“ 12 رب فرماتا ہے، ”اے آسمان، یہ دیکھ کر ہیبت زدہ ہو جا، تیرے رونگٹے کھڑے ہو جائیں، ہکا بکا رہ جا! 13 کیونکہ میری قوم سے دو سنگین جرم سرزد ہوئے ہیں۔ ایک، اُنہوں نے مجھے ترک کیا، گو مَیں زندگی کے پانی کا سرچشمہ ہوں۔ دوسرے، اُنہوں نے اپنے ذاتی حوض بنائے ہیں جو دراڑوں کی وجہ سے بھر ہی نہیں سکتے۔
اسرائیل کی بےوفائی کے نتائج
14 کیا اسرائیل ابتدا سے ہی غلام ہے؟ کیا اُس کے والدین غلام تھے کہ وہ اب تک غلام ہے؟ ہرگز نہیں! تو پھر وہ کیوں دوسروں کا لُوٹا ہوا مال بن گیا ہے؟ 15 جوان شیرببر دہاڑتے ہوئے اُس پر ٹوٹ پڑے ہیں، گرجتے گرجتے اُنہوں نے ملکِ اسرائیل کو برباد کر دیا ہے۔ اُس کے شہر نذرِ آتش ہو کر ویران و سنسان ہو گئے ہیں۔ 16 ساتھ ساتھ میمفِس اور تحفن حیس کے لوگ بھی تیرے سر کو منڈوا رہے ہیں۔
17 اے اسرائیلی قوم، کیا یہ تیرے غلط کام کا نتیجہ نہیں؟ کیونکہ تُو نے رب اپنے خدا کو اُس وقت ترک کیا جب وہ تیری راہنمائی کر رہا تھا۔ 18 اب مجھے بتا کہ مصر کو جا کر دریائے نیل کا پانی پینے کا کیا فائدہ؟ ملکِ اسور میں جا کر دریائے فرات کا پانی پینے سے کیا حاصل؟ 19 تیرا غلط کام تجھے سزا دے رہا ہے، تیری بےوفا حرکتیں ہی تیری سرزنش کر رہی ہیں۔ چنانچہ جان لے اور دھیان دے کہ رب اپنے خدا کو چھوڑ کر اُس کا خوف نہ ماننے کا پھل کتنا بُرا اور کڑوا ہے۔“ یہ قادرِ مطلق رب الافواج کا فرمان ہے۔
20 ”کیونکہ شروع سے ہی تُو اپنے جوئے اور رسّوں کو توڑ کر کہتی رہی، ’مَیں تیری خدمت نہیں کروں گی!‘ تُو ہر بلندی پر اور ہر گھنے درخت کے سائے میں لیٹ کر عصمت فروشی کرتی رہی۔ 21 پہلے تُو انگور کی مخصوص اور قابلِ اعتماد نسل کی پنیری تھی جسے مَیں نے خود زمین میں لگایا۔ تو یہ کیا ہوا کہ تُو بگڑ کر جنگلی* جنگلی: لفظی ترجمہ: اجنبی۔ بیل بن گئی؟ 22 اب تیرے قصور کا داغ اُتر نہیں سکتا، خواہ تُو کتنا کھاری سوڈا اور صابن کیوں نہ استعمال کرے۔“ یہ رب قادرِ مطلق کا فرمان ہے۔
23 ”تُو کس طرح یہ کہنے کی جرأت کر سکتی ہے کہ مَیں نے اپنے آپ کو آلودہ نہیں کیا، مَیں بعل دیوتاؤں کے پیچھے نہیں گئی۔ وادی میں اپنی حرکتوں پر تو غور کر! جان لے کہ تجھ سے کیا کچھ سرزد ہوا ہے۔ تُو بےمقصد اِدھر اُدھر بھاگنے والی اونٹنی ہے۔ 24 بلکہ تُو ریگستان میں رہنے کی عادی گدھی ہی ہے جو شہوت کے مارے ہانپتی ہے۔ مستی کے اِس عالم میں کون اُس پر قابو پا سکتا ہے؟ جو بھی اُس سے ملنا چاہے اُسے زیادہ جد و جہد کی ضرورت نہیں، کیونکہ مستی کے موسم میں وہ ہر ایک کے لئے حاضر ہے۔ 25 اے اسرائیل، اِتنا نہ دوڑ کہ تیرے جوتے گھس کر پھٹ جائیں اور تیرا گلا خشک ہو جائے۔ لیکن افسوس، تُو بضد ہے، ’نہیں، مجھے چھوڑ دے! مَیں اجنبی معبودوں کو پیار کرتی ہوں، اور لازم ہے کہ مَیں اُن کے پیچھے بھاگتی جاؤں۔‘
26 سنو! اسرائیلی قوم کے تمام افراد اُن کے بادشاہوں، افسروں، اماموں اور نبیوں سمیت شرمندہ ہو جائیں گے۔ وہ پکڑے ہوئے چور کی سی شرم محسوس کریں گے۔ 27 یہ لوگ لکڑی کے بُت سے کہتے ہیں، ’تُو میرا باپ ہے‘ اور پتھر کے دیوتا سے، ’تُو نے مجھے جنم دیا۔‘ لیکن گو یہ میری طرف رجوع نہیں کرتے بلکہ اپنا منہ مجھ سے پھیر کر چلتے ہیں توبھی جوں ہی کوئی آفت اُن پر آ جائے تو یہ مجھ سے التجا کرنے لگتے ہیں کہ آ کر ہمیں بچا! 28 اب یہ بُت کہاں ہیں جو تُو نے اپنے لئے بنائے؟ وہی کھڑے ہو کر دکھائیں کہ تجھے مصیبت سے بچا سکتے ہیں۔ اے یہوداہ، آخر جتنے تیرے شہر ہیں اُتنے تیرے دیوتا بھی ہیں۔“ 29 رب فرماتا ہے، ”تم مجھ پر کیوں الزام لگاتے ہو؟ تم تو سب مجھ سے بےوفا ہو گئے ہو۔ 30 مَیں نے تمہارے بچوں کو سزا دی، لیکن بےفائدہ۔ وہ میری تربیت قبول نہیں کرتے۔ بلکہ تم نے پھاڑنے والے شیرببر کی طرح اپنے نبیوں پر ٹوٹ کر اُنہیں تلوار سے قتل کیا۔
31 اے موجودہ نسل، رب کے کلام پر دھیان دو! کیا مَیں اسرائیل کے لئے ریگستان یا تاریک ترین علاقے کی مانند تھا؟ میری قوم کیوں کہتی ہے، ’اب ہم آزادی سے اِدھر اُدھر پھر سکتے ہیں، آئندہ ہم تیرے حضور نہیں آئیں گے؟‘ 32 کیا کنواری کبھی اپنے زیورات کو بھول سکتی ہے، یا دُلھن اپنا عروسی لباس؟ ہرگز نہیں! لیکن میری قوم بےشمار دنوں سے مجھے بھول گئی ہے۔
33 تُو عشق ڈھونڈنے میں کتنی ماہر ہے! بدکار عورتیں بھی تجھ سے بہت کچھ سیکھ لیتی ہیں۔ 34 تیرے لباس کا دامن بےگناہ غریبوں کے خون سے آلودہ ہے، گو تُو نے اُنہیں نقب زنی جیسا غلط کام کرتے وقت نہ پکڑا۔ اِس سب کچھ کے باوجود بھی 35 تُو بضد ہے کہ مَیں بےقصور ہوں، اللہ کا مجھ پر غصہ ٹھنڈا ہو گیا ہے۔ لیکن مَیں تیری عدالت کروں گا، اِس لئے کہ تُو کہتی ہے، ’مجھ سے گناہ سرزد نہیں ہوا۔‘
36 تُو کبھی اِدھر، کبھی اُدھر جا کر اِتنی آسانی سے اپنا رُخ کیوں بدلتی ہے؟ یقین کر کہ جس طرح تُو اپنے اتحادی اسور سے مایوس ہو کر شرمندہ ہوئی ہے اُسی طرح تُو نئے اتحادی مصر سے بھی نادم ہو جائے گی۔ 37 تُو اُس جگہ سے بھی اپنے ہاتھوں کو سر پر رکھ کر نکلے گی۔ کیونکہ رب نے اُنہیں رد کیا ہے جن پر تُو بھروسا رکھتی ہے۔ اُن سے تجھے مدد حاصل نہیں ہو گی۔“