1 میں نے اپنے دل سے کہا آ میں تجھ کو خُوشی میں آزماوں گا۔ سو عشرت کر لے۔ لو یہ بھی بُطلان ہے۔
2 میں نے ہنسی کو دیوانہ کہا اور شادمانی کے بارے میں کہا اس سے کیا حاصل؟۔
3 میں نے دل میں سوچا کہ جسم کو مے نوشی سے کیوں کر تازہ کُروں اور اپنے دل کو حکمت کی طرف مائل رکھوں اور کیوں کر حماقت کو پکڑے رہُوں جب تک معلوم کُروں کہ بنی آدم کی بہُبودی کس بات میں ہے کہ وہ آسمان کے نیچے عُمر بھر یہی کیا کریں۔
4 میں نے بڑے بڑے کام کئے ۔ میں نے اپنے لئے عمارتیں بنائیں اور میں نے اپنے لے تاکستان لگائے۔
5 میں نے اپنے لے باغیچے اور باغ تیار کئے اور اُن میں ہر قسم کے میوہ دار درخت لگائے۔
6 میں نے اپنے لے تالاب بناے کہ اُن میں سے باغ کے درختوں کا ذخیرہ سینچوں۔
7 میں نے غلامُوں اوت لُونڈیوں کو خریدا اور نوکر چا کر میرے گھر میں پیدا ہُوئے اور جتنے مجھ سے پہلے یُروشلیم میں تھے اُن سے کہیں زیادہ گائے بُیل اور بھیڑیوں کا مالک تھا۔
8 میں نے سونااور چاندی اور بادشاہوں اور صوبوں کا خاص خزانہ اپنے لے جمع کیا۔ میں نے گانے والوں اور گانے والیوں کو رکھا اور بنی آدم کے اسباب عیش یعنی لونڈیوں کو اپنے لے کثرت سے فراہم کیا۔
9 سو میں بزرگ ہُوا اور اُن سبھوں سے جو مجھ سے پہلے یروشلیم میں تھے زیادہ بڑھ گیا۔ میری حکمت بھی مجھ سے قائم رہی۔
10 اور سب کچھ جو میری آنکھیں چاہتی تھیں میں نے اُن سے باز نہ رکھا ۔ میں نے اپنے دل کو کسی طرح کی خُوشی سے نہ روکا کیونکہ میرا دل میری ساری محنت سے شادمان ہوا اور میری ساری محنت سے میرا بخرہ یہی تھا۔
11 پھر میں نے ان سب کاموں پر جو میرے ہاتھوں نے کئے تھے اور اُس مشقت پر جو میں نے کام کرنے میں کھینچی تھی نظر کی اور دیکھا کہ سب بُطلان اور ہوا کی چران ہے اور دُنیا میں کُچھ فائدہ نہیں ۔
12 اور میں حکمت اور دیوانگی اور حماقت کے دیکھنے پر متوجہ ہوا۔ کیونکہ وہ شخص جو بادشاہ کے بعد آئے گا کیا کرے گا؟ وہی جو چلا آتا ہے۔
13 اور میں نے دیکھا کہ جیسی روشنی کو تاریکی پر فضیلت ہے ویسی ہی حکمت حماقت سے افضل ہے ۔
14 دانشور اپنی آنکھیں اپنے سر میں رکھتا ہے پر احمق اندھیرے میں چلتا ہے۔ تو بھی میں جان گیا کہ ایک ہی حادثہ اُن سب پر گُزرتا ہے۔
15 تب میں نے دل میں کہا جیسا احمق پر حادثہ ہوتا ہے ویسا ہی مجھ پر بھی ہو گا۔ پھر میں کیوں زیادہ دانشور ہُوا؟ سو میں نے دل میں کہا کہ یہ بھی بُطلان ہے۔
16 کیونکہ نہ دانشوار اور نہ احمق کی یادگار ابد تک رہے گی۔ اس لے کہ آنے والے دنوں میں سب کچھ فراموش ہو چُلے گا اور دانشور کیوں کر احمق کی طرح مرتا ہے!۔
17 پس میں زندگی سے بیزار ہُوا کیونکہ جو کام دُنیا میں کیا جاتا ہے مُجھے بُہت بُرا معلوم ہُوا کیونکہ سب بُطلان اور ہوا کی چران ہے۔
18 بلکہ میں اپنی ساری محنت سے جو دُنیا میں کی تھی بیزار ہُوا کیونکہ ضُرور ہے کہ میں اُسے اُس آدمی کے لے جو میرے بعد آئے گا چھوڑ جاوں ۔
19 اور کون جانتا ہے کہ وہ دانشور ہو گا یا احمق؟ بہر حال وہ میری ساری محنت کے کام پر جو میں نے کیا اور جس میں میں نے دُنیا میں اپنی حکمت ظاہر کی ضابط ہو گا۔ یہ بھی بُطلان ہے۔
20 تب میں نے پھر ا کہ اپنے دل کو اُس سارے کام سے جو میں نے دُنیا میں کیا تھا نا اُمید کُروں ۔
21 کیونکہ ایسا شخص بھی ہے جس کےکام حکمت اور دانائی اور کامیابی کے ساتھ ہیں لیکن وہ اُن کو دوسرے آدمی کے لے جس نے اُن میں کچھ محنت نہیں کی اُس کی میراث کے لے چھوڑ جائے گا۔ یہ بھی بُطلان اور بلای عظیم ہے۔
22 کیونکہ آدمی کو اُس کی ساری مشقت اور جانفشانی سے جو اُس نے دُنیا میں کی کیا حاصل ہے؟۔
23 کیونکہ اُس کے لے عُمر بھر غم ہے اور اُس کی محنت ماتم ہے بلکہ اُس کا دل رات کو بھی آرام نہیں پاتا۔ یہ بھی بُطلان ہے۔
24 پس انسان کے لے اس سے بہتر کچھ نہیں کہ وہ کھائے اور اپنے اور اپنی ساری محنت کے درمیان خُوش ہو کر اپنا جی بہلاے۔ میں نے دیکھا کہ یہ بھی خُدا کے ہاتھ سے ہے۔
25 اس لے کہ مجھ سے زیادہ کون کھا سکتا اور کون مزہ اُڑا سکتا ہے؟۔
26 کیونکہ وہ اُس آدمی کو جو اُس کے حضور میں اچھا ہے حکمت اور دانائی اور خُوشی بخشتا ہے لیکن گُہنگار کو زحمت دیتا ہے کہ وہ جمع کرے اور انبار لگائے تاکہ اُسے دے جو خُدا کا پسندیدہ ہے۔ یہ بھی بُطلان اور ہوا کی چران ہے۔