1 ان سب باتوں پر میں نے دل سے غور کیا اور سب حال کی تفتیش کی اور معلوم ہُوا کہ صادق اور دانش مند اور اُن کے کام خُدا کے ہاتھ میں ہیں۔ سب کُچھ انسان کے سامنے ہے لیکن وہ نہ مُحبت جانتا ہے نہ عداوت۔
2 سب کُچھ سب پر یکساں گُزرتا ہے۔ صادق اور شریر پر۔ نیکوکار اور پاک اور ناپاک پر ۔ اُس پر جو قُربانی گُزرانتا ہے اور اُس پر جو قربانی نہیں گُزرانتا ایک ہی حادثہ واقع ہوتا ہے۔ جیسا نیکوکار ہے ویسا ہی گُہنگار ہے ۔جیسا وہ جو قسم کھاتا ہے ویسا ہی وہ جو قسم سے ڈرتا ہے۔
3 سب چیزوں میں جو دُنیا میں ہوتی ہیں ایک زبوُنی یہ ہے کہ ایک ہی حادثہ سب گُزرتا ہے۔ وہاں بنی آدم کا دل بھی شرارت سے بھرا ہے اور جب تک وہ جیتے ہیں حماقت اُن کے دل میں رہتی ہے اور اس کے بعد مُردوں میں شامل ہوتے ہیں۔
4 چونکہ جو زندوں کے ساتھ ہے اُس کے لے اُمید ہے اس لے زندہ کُتا مُردہ شیر سے بہتر ہے۔
5 کیونکہ زندہ جانتے ہیں کہ وہ مریں گے پر مُردے کُچھ نہیں جانتے اور اُن کے لے اور کُچھ اجر نہیں کیونکہ اُن کی یاد جاتی رہی ہے۔
6 اب اُن کی مُحبت اور عداوت و حسد سب نیست ہو گے اور تا ابد اُن سب کاموں میں جو دُنیا میں کئے جاتے ہیں اُن کا کوئی حصہ بخرہ نہیں۔
7 اپنی راہ چلا جا۔ خُوشی سے اپنی روٹی کھا اور خُوش دلی سے اپنی مے پی کیونکہ خُدا تیرے اعمال کو قبُول کر چُکا ہے۔
8 تیرا لباس ہمیشہ سفید ہو اور تیرا سر چکناہٹ سے خالی نہ رہے۔
9 اپنی بطالت کی زندگی کے سب دن جواُس نے دُنیا میں تجھے بخشی ہے ہاں اپنی بطالت کے سب دن اُس کی بیوی کے ساتھ جو تیری پیاری ہے عیش کر لے کہ اس زندگی میں اور تیری اُس محنت کے دوران میں جو تو نے دُنیا میں کی تیرا یہی بخرہ ہے۔
10 جو کام تیرا ہاتھ کرنے کو پائے اُسے مقدوربھر کر کیونکہ پاتال میں جہاں تو جاتا ہے نہ کام ہے نہ منصوبہ ۔ نہ علم نہ حکمت۔
11 پھر میں نے توجہ کی اور دیکھا کہ دُنیا میں نہ تو دوڑ میں تیز رفتار کو سبقت ہے نہ جنگ میں زور آور کو فتح اور نہ روٹی دانش مند کو ملتی ہے نہ دولت عقل مندوں کو اور نہ عزت اہل خرد کو بلکہ اُن سب کے لے وقت اور حادثہ ہے۔
12 کیونکہ انسان اپنا وقت بھی نہیں پہچانتا۔ جس طرح مچھلیاں جو مُصیبت کے جال میں گرفتار ہوتی ہیں اور جس طرح چڑیاں پھندے میں پھنسائی جاتی ہیں اُسی طرح بنی آدم بھی بدبختی میں جب اچانک اُن پر آپڑتی ہے پھنس جاتے ہیں۔
13 میں نے یہ بھی دیکھا کہ دُنیا میں حکمت ہے اور یہ مُجھے بڑی چیز معلُوم ہوئی۔
14 ایک چھوٹا شہر تھا اور اُس میں تھوڑے سے لوگ تھے۔ اُس پر ایک بڑا بادشاہ چڑھ آیا اور اُس کا مُحاصرہ کیا اور اُس کے مُوابل بڑے بڑے دمدمے باندھے۔
15 مگر اُس شہر میں ایک کنگال دانشور مرد پایا گیا اور اُس نے اپنی حکمت سے اُس شہر کو بچا لیا تو بھی کسی شخص نے اس مسکین مرد کو یاد نہ کیا۔
16 تب میں نے کہا حکمت زور سے بہتر ہے تو بھی مسکین کی حکمت تحیقر ہوتی ہے اور اُس کی باتیں سُنی نہیں جاتیں۔
17 دانشوروں کی باتیں جو آہستگی سے کہی جاتی ہیں احمقوں کے سردار کے شور سے زیادہ سُنی جاتی ہیں۔
18 حکمت لڑائی کے ہتھیاروں سے بہتر ہے۔ لیکن ایک گُہنگار بُہت سی نیکی کو برباد کر دیتا ہے۔